امت رپورٹ
وزیراعظم عمران خان کے ایک اور ذاتی دوست زلفی بخاری کو بھی نواز دیا گیا ہے۔ یوں پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کے قریبی دوستوں کی لاٹری کھلنے کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ جبکہ اس قطار میں شامل دو قریبی ساتھی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔
منگل کے روز کابینہ ڈویژن سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے اپنے قریبی دوست سید ذوالفقار عباس بخاری المعروف زلفی بخاری کو اپنا معاون خصوصی برائے اوورسیز پاکستانی مقرر کر دیا۔ انہیں وزیر مملکت کا درجہ دیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان سے تقریباً آدھی عمر کے زلفی بخاری کی کپتان سے گہری دوستی زیادہ پرانی نہیں۔ قریباً سات آٹھ برس قبل زلفی بخاری کے والد واجد بخاری نے اپنے بیٹے کو عمران خان سے متعارف کرایا تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے زلفی بخاری کا شمار عمران خان کے انتہائی قریبی دوستوں میں ہونے لگا۔ برطانوی پاسپورٹ کے حامل دوہری شہریت رکھنے والے زلفی بخاری اپنی فیملی کے ہمراہ لندن میں مقیم ہیں۔ تاہم پاکستان میں موجودگی کے دوران ان کا زیادہ وقت عمران خان کے ساتھ گزرتا۔ ذرائع کے بقول اگرچہ زلفی بخاری کے پاس کبھی بھی پی ٹی آئی کا کوئی عہدہ نہیں رہا۔ تاہم برطانیہ میں تحریک انصاف اور شوکت خانم اسپتال کے لئے بڑے پیمانے پر فنڈز جمع کرنے اور سب سے بڑھ کر کپتان کی نجی زندگی کے معاملات میں اہم کردار ادا کرنے نے زلفی بخاری کو عمران خان کے بے حد قریب کر دیا۔ جب عمران خان نے اپنی دوسری اہلیہ ریحام خان کو طلاق دی تو یہ زلفی بخاری ہی تھے، جنہوں نے بعد کے معاملات کو سنبھالا۔ اسی طرح وہ عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی کے نکاح میں گواہ بھی ہیں۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ چھوڑ کر تحریک انصاف جوائن کرنے والے سابق سینیٹر ظفر علی شاہ کے قریبی عزیز زلفی بخاری برطانیہ میں بظاہر جائیداد کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتے ہیں۔ جبکہ ان کی نصف درجن سے زائد آف شور کمپنیاں بھی دریافت ہوئی ہیں۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے قبل لندن میں کپتان کے میزبان عموماً زلفی بخاری ہی ہوا کرتے تھے۔ وہ عموماً زلفی بخاری کی رہائش گاہ پر ٹھہرتے۔ ذرائع کے مطابق دولت مند زلفی بخاری نے نہ صرف تحریک انصاف اور شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ کے لئے برطانیہ میں بڑے بڑے پروگرام کرائے، بلکہ اپنی ذاتی جیب سے بھی فنڈنگ کرتے رہے۔ پی ٹی آئی کے حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ 25 جولائی کے الیکشن میں انہیں جب عمران خان نے اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی تین سیٹوں کی انتخابی مہم کا کمپیئن منیجر مقرر کیا تو اس انتخابی مہم کے تمام اخراجات زلفی بخاری نے برداشت کئے۔ ان میں سے ایک سیٹ پر عمران خان نے الیکشن لڑا تھا۔ ذرائع کے مطابق 2013ء کے الیکشن میں زلفی بخاری کے والد واجد بخاری اسلام آباد سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑنا چاہتے تھے۔ لیکن پی ٹی آئی نے ان کی خواہش کے برعکس جاوید ہاشمی کو ٹکٹ دے دیا تھا، جو اس وقت پارٹی صدر تھے۔ تاہم 2013ء کے الیکشن میں زلفی بخاری کے چچا سید اعجاز حسین بخاری کو پی ٹی آئی نے اٹک سے صوبائی اسمبلی کا ٹکٹ دے کر ازالہ کر دیا۔ اعجاز حسین بخاری اٹک سے کامیاب ہونے والے پی ٹی آئی کے واحد امیدوار تھے۔ ذرائع کے مطابق نجی زندگی کے رازداں اور پارٹی کے لئے بھاری فنڈز جمع کرنے والے زلفی بخاری کو اہم عہدہ دینا وزیراعظم کی مجبوری تھی۔ اس کے لئے زلفی بخاری کے خلاف نیب میں جاری تحقیقات کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ اور اس بات کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا کہ وزیر مملکت کے برابر عہدہ حاصل کرنے والے زلفی بخاری برطانوی شہری ہیں۔ حالانکہ خود عمران خان اس ایشو پر مخالفین پر کڑی تنقید کرتے رہے ہیں۔ برٹش ورجن آئی لینڈز میں آف شور کمپنیوں کے انکشاف کے بعد زلفی بخاری کے خلاف نیب نے تحقیقات شروع کی تھیں جو، اب بھی جاری ہیں۔ قریباً ڈھائی ماہ قبل زلفی بخاری کا معاملہ اس وقت ہائی لائٹ ہوا تھا جب انہیں عمران خان کے ہمراہ عمرے کی ادائیگی کے لئے سعودی عرب جانے سے روک دیا گیا تھا۔ تاہم عمران خان کی متعلقہ حکام سے بات کے بعد زلفی بخاری کو جانے دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق نہ صرف زلفی بخاری کے خلاف نیب میں تحقیقات جاری ہیں، بلکہ ان کے والد واجد بخاری اور چچا منظور بخاری کو ضیاء دور میں 14، 14 برس کی سزائیں بھی سنائی گئی تھیں۔ قصہ اس اجمال کا یوں ہے کہ 80ء کی دہائی میں واجد بخاری اور منظور بخاری نے اپنے والد غلام مرتضیٰ کے نام پر ایک کمپنی ’’المرتضیٰ ایسوسی ایٹس‘‘ بنائی تھی۔ اس کمپنی کے ذریعے دو ہزار سے زائد پاکستانیوں کو افرادی قوت فراہم کرنے کے نام پر لیبیا بھیجا گیا۔ تاہم بعد میں معلوم ہوا کہ ان پاکستانیوں کو وہاں فوجی تربیت دی جا رہی ہے، یعنی انہیں محنت مزدوری کے بجائے کسی اور مقصد کے لئے استعمال کرنے کا پلان تھا۔ یہ اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد ایک حکومتی وفد لیبیا بھیجا گیا اور سرکاری سطح پر بات چیت کے بعد ان پاکستانیوں کی واپسی ممکن ہو پائی تھی۔ بعد ازاں راولپنڈی کی خصوصی فوجی عدالت نے جرم ثابت ہونے پر واجد بخاری اور منظور بخاری کو 14، 14 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ کیونکہ اس وقت دونوں ملک سے باہر تھے، لہٰذا گرفتاری ممکن نہیں ہو سکی تھی۔ بعد ازاں پیپلز پارٹی نے اقتدار میں آ کر فوجی عدالتوں کی تمام سزائوں کو کالعدم قرار دے دیا، یوں یہ معاملہ بھی دب گیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں اپنی غیر موجودگی کا طویل عرصہ واجد بخاری نے برطانیہ میں گزارا اور پاکستانیوں کو بیرون ملک بھیج کر جو پیسہ کمایا تھا، اس کی مدد سے وہاں بزنس شروع کیا۔ یہ کاروبار اربوں کا اثاثہ بن چکا ہے۔ آف شور کمپنیوں کا تعلق اسی پیسے سے ہے۔ اب یہ کاروبار واجد بخاری کے بیٹے زلفی بخاری دیکھتے ہیں۔ واجد بخاری کا مختصر ذکر ریحام خان نے اپنی کتاب میں بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ… ’’زلفی بخاری کے والد واجد بخاری نے ضیاء کے دور میں پشتون مزدوروں کو لیبیا اور چاڈ بھیج کر بے شمار پیسہ بنایا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ایسے ہی ٹرپ میں 400 مزدور سمندر میں ڈوب گئے تھے‘‘۔
زلفی بخاری کے ایک قریبی ذریعے کے بقول ’’زلفی بخاری نے اگرچہ برونل یونیورسٹی لندن میں تعلیم حاصل کی۔ تاہم وہ اسلام آباد کے سیکٹر ایف 7/2 میں واقع Froebels اسکول میں بھی پڑھتا رہا۔ یہ ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ ایک کم عمر لڑکا اتنی جلدی ملک کے سینئر ترین سیاسی رہنما کا گہرا دوست بن جائے گا‘‘۔
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے ایک عہدیدار کے مطابق اس کی بھی زلفی سے دوستی رہی ہے۔ لیکن وہ حیران ہے کہ اپنے موقف کے برعکس وزیراعظم عمران خان نے انہیں اپنا مشیر بنا لیا۔ چند ماہ پہلے نجی ٹی وی کو دیئے گئے عمران خان کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے لیگی عہدیدار نے کہا کہ اس سے بڑی زیادتی کیا ہو سکتی ہے کہ وزیراعظم نے نواز شریف کے بیٹوں اور اپنے قریبی دوست کے لئے الگ الگ معیار اپنا لئے ہیں۔ اس انٹرویو میں زلفی بخاری کے بارے میں عمران خان کا کہنا تھا… ’’ایک باہر کا شہری، جو باہر پیسے بنا رہا ہے۔ پاکستان میں ڈیل نہیں کر رہا۔ برٹش پاسپورٹ ہولڈر ہے۔ اس کے خلاف نیب پاناما میں کمپنیوں کی تحقیقات کیسے کھول سکتا ہے۔ زلفی بخاری سے پاکستانی نہیں برطانوی حکومت پوچھ سکتی ہے‘‘۔ لیگی عہدیدار کے مطابق اگرچہ وہ اس طرح کی خبریں سن رہے ہیں کہ زلفی بخاری نے وزیراعظم کے معاون خصوصی بننے سے پہلے برطانوی شہریت ترک کر دی، لیکن یہ سوال پھر اپنی جگہ ہے کہ ایک نیب زدہ شخص کو حکومتی عہدہ دینے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ یہ اقربا پروری کی بدترین مثال ہے۔
صرف ایک زلفی بخاری ہی نہیں۔ عمران خان کے دیگر ذاتی دوستوں کی انگلیاں بھی گھی میں ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے سے قبل ہر وقت ان کے ساتھ نظر آنے والے عون چوہدری کے بارے میں اداروں نے کہا تھا کہ ملکی چیف ایگزیکٹو کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان ان قریبی لوگوں سے دوری اختیار کریں۔ ذرائع کے بقول اس کا حل یہ نکالا گیا کہ عون چوہدری کو اسلام آباد سے لاہور بھیج دیا گیا۔ عون چوہدری کا شمار بھی بشریٰ بی بی کے مریدوں میں ہوتا ہے اور بشریٰ بی بی تک عون چوہدری کی رسائی ان کی سابقہ بیوی اداکارہ نور نے کرائی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ بعد ازاں بشریٰ بی بی تک عمران خان کو لے جانے والے بھی عون چوہدری تھے۔ ذرائع کے مطابق بنی گالا سے لاہور بھیجے جانے پر افسردہ عون چوہدری کو حکومت میں ایڈجسٹ کرنے کی کئی تجاویز زیر غور تھیں۔ کافی سوچ بچار کے بعد عون چوہدری کو وزیراعلیٰ پنجاب کا مشیر بنا دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق دلچسپ امر یہ ہے کہ عون چوہدری کی عمران سے گہری دوستی کا عرصہ بھی چند برسوں پر محیط ہے۔ پارٹی کے بیشتر رہنما اگرچہ عون چوہدری کو پسند نہیں کرتے، تاہم وہ تمام تر کوششوں کے باوجود عون چوہدری کو عمران خان سے دور نہ کر سکے۔ ذرائع کے مطابق اس کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ عون چوہدری کو ہمیشہ نعیم الحق کی سپورٹ حاصل رہی۔ حتیٰ کہ بنی گالا میں دونوں نے مشترکہ طور پر کرائے کا مکان لے رکھا تھا۔ کپتان کے وزارت عظمیٰ سنبھالنے کے بعد یہ دوری آئی بھی تو عون چوہدری کو صوبائی مشیر بنا کر اس کا ازالہ بھی کر دیا گیا۔
عمران خان کے قریبی اور دیرینہ دوستوں میں شمار ہونے والے نعیم الحق کو بھی وزیراعظم کا معاون خصوصی برائے سیاسی امور مقرر کیا جا چکا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے بانی رہنمائوں میں سے ایک نعیم الحق کے عمران کے ساتھ کرکٹ دور کے تعلقات ہیں۔ وہ پہلے تحریک استقلال میں ہوا کرتے تھے۔ بچوں کی شادیاں ہو چکیں۔ بیوی انتقال کر چکی ہے، لہٰذا سنگل ہیں۔ ریحام خان سے عمران خان کی شادی سے پہلے زیادہ وقت کپتان کی رہائش گاہ میں گزارا کرتے تھے۔ بعد ازاں قریب ہی کرائے پر گھر لے لیا۔ عمران خان کے ایک اور قریبی دوست عامر کیانی پر بھی خصوصی نوازشات کی گئیں۔ عامر کیانی کو نہ صرف اسلام آباد سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دیا گیا۔ بلکہ بعد ازاں وفاقی وزیر صحت کا قلمدان بھی ان کے حوالے کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی کے لئے فنڈز جمع کرنے والوں میں عامر کیانی بھی شامل رہے ہیں ۔ بظاہر رئیل اسٹیٹ کا کاروبار ہے۔ ایک پی ٹی آئی عہدیدار کا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہنا تھا… ’’ساری عمر پراپرٹی کا کام کرنے والے عامر کیانی کو محض دوستی کی بنیاد پر وفاقی وزیر صحت بنا دیا گیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ جب بطور وزیر صحت عامر خان ڈبلیو ایچ او کے کسی وفد سے ملاقات کریں گے تو ان کے پاس کہنے کو کیا ہوگا۔ عامر کیانی کی بنی گالا میں ہائوسنگ اسکیم ہے۔ جس میں عمران خان کا پلاٹ بھی ہے‘‘۔
چیئر مین پی ٹی آئی کو کروڑوں روپے کا فنڈز دینے والوں میں ایک نام برطانوی شہری انیل مسرت کا بھی ہے۔ موصوف بھی عمران خان کے دیرینہ دوستوں میں شامل ہیں۔ پی ٹی آئی کے حلقوں میں یہ بات عام ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے 50 لاکھ مکانات کے جس پروجیکٹ کا اعلان کیا ہے، اس کا ٹھیکہ انیل مسرت کو دیا جائے گا۔ چند روز پہلے انیل مسرت نے اس پروجیکٹ کا تخمینہ 180 ارب ڈالر لگایا تھا۔ مانچسٹر میں ایک پاکستانی فیملی کے ہاں پیدا ہونے والے انیل مسرت کا شمار ایشیا کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔ ہائی اسکول کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انیل مسرت نے جائیداد کی خرید و فروخت اور مکانوں کو کرائے پر دینے کا کاروبار شروع کیا تھا۔ اب ارب پتی ہیں۔ اس دولت مندی نے بھارت کی فلم انڈسٹری اور سیاسی حلقوں میں ان کی رسائی آسان کر دی ہے۔ انیل مسرت اور نبیل مسرت دونوں بھائی مل کر کاروبار کرتے ہیں۔ ذرائع کے بقول اپنی نجی محفلوں میں وہ یہ بات کہتے پھرتے ہیں کہ اپنے تعلقات کی بنیاد پر پاکستان اور بھارت کو نزدیک لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ ذرائع کے بقول عمران خان کے ایک اور قریبی دوست صاحبزادہ جہانگیر المعروف چیکو جہانگیر بھی صلہ پانے کے امیدواروں میں شامل ہیں۔ انہیں برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر بنانے کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ لیکن تاحال اس کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک سابق عہدیدار کے بقول برطانیہ میں مقیم فوزیہ قصوری کے بھائی چیکو جہانگیر بھی پارٹی کے لئے بڑے پیمانے پر فنڈز جمع کرتے رہے ہیں۔ عمران خان سے ان کی دوستی بھی تقریباً نعیم الحق جتنی پرانی ہے۔ عہدیدار کے مطابق چیکو جہانگیر کیسنیو جانے کے دھتی ہیں۔ ایک بار خود اس سے عمران خان نے شکوہ کیا تھا کہ چیکو جہانگیر نے پارٹی کے لئے جمع کئے جانے والے چالیس ہزار پائونڈز جوئے میں اڑا دیئے۔ یہ 2003-04ء کی بات ہے، جب پارٹی بدترین مالی مشکلات کا شکار تھی۔