لانڈھی سلاٹر ہائوس میں حفظان صحت کے اصول نظرانداز

0

عمران خان
کراچی کے سب سے بڑے سرکاری مذبح خانے لانڈھی سلاٹر ہائوس میں قائم کے ایم سی کے وٹنری سروس ڈپارٹمنٹ کے تمام ڈاکٹروں کی ڈیوٹی ختم کرکے انہیں شہر کی گوشت مارکیٹوں کے سروے پر مامور کردیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں لانڈھی سلاٹر ہاؤس سے روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لاغر اور بیمار جانوروں کا گوشت بھی سپلائی ہونے لگا ہے۔ ذرائع کے بقول صحت عامہ سے جڑے اس اہم شعبے کے سربراہ کیلئے ایک نان ٹیکنیکل افسر کو مقررکیا گیا ہے جنہیں وٹنری سروس اور حفظان صحت کے حوالے سے تجربہ نہیں، بلکہ وہ سادہ گریجویٹ ہیں اور کے ایم سی میں پارکنگ سمیت دیگر شعبوں میں انتظامی امور کے حوالے سے کام کرتے رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق کراچی کے دو کروڑ آبادی والے شہر کیلئے لانڈھی اور نیو کراچی میں دو سرکاری سلاٹر ہائوس موجود ہیں، جہاں پر وٹنری سروس کے ڈاکٹروں کی نگرانی اور معائنہ کے بعد روزانہ کی بنیاد پر 8 ہزار سے زائد گائے اور بکرے وغیرہ ذبح کرکے شہر میں گوشت سپلائی کیا جاتا ہے۔ لانڈھی سلاٹر ہائوس کی صلاحیت زیادہ ہونے کی وجہ سے یہاں 70 فیصد جانور ذبح کئے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وٹنری ڈپارٹمنٹ اور گوشت کے کاروبار سے منسلک افراد کی توجہ اس جگہ زیادہ ہوتی ہے۔ ذرائع کے بقول اس وقت وٹنری سروس ڈپارٹمنٹ میں من مانیاں عروج پر پہنچ چکی ہیں اور اس ادارے میں خلاف ضابطہ سرگرمیاں زور شور سے جاری ہیں۔ حکومت سندھ کے ارباب اختیار کی عدم دلچسپی اور نااہلی کے سبب شہریوں کی صحت سے جڑا یہ اہم شعبہ اپنی کارکردگی کے لحاظ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
کے ایم سی کے انتظامی شعبے سے جمیل فاروقی نامی 18 گریڈ کے افسر کا تبادلہ کرکے انہیں وٹنری سروسز ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بنا دیا گیا ہے جنہوں نے یہاں آنے کے بعد اس ادارے کو وٹنری سروسز کے اصولوں کے بجائے انتظامی طور پر چلانا شروع کردیا ہے۔ ذرائع کے بقول انہوں نے سب سے پہلے ایک منصوبہ کے تحت سلاٹر ہائوس میں ڈیوٹی کرنے والے ڈاکٹروں اور پھر نیو کراچی مذبح خانہ کے ڈاکٹروں کو شہر کے پانچ اضلاع میں قائم گوشت کی مارکیٹوں اور دکانوں کے سروے پر لگا دیا ہے۔ جبکہ ان دونوں سلاٹر ہائوس میں موجود یہ 6 ڈاکٹر اس لئے ضروری تھے کہ سلاٹر ہائوس میں آنے والے کٹو جانوروں کے معائنہ کرکے نہ صرف سلاٹرنگ کی اجازت دیتے تھے، بلکہ سلاٹر ہائوس میں گندگی، فضلہ اور سیوریج کا سسٹم صاف کرنے کا بھی معائنہ کرتے تھے۔ کیونکہ ایک دن صفائی نہ ہونے کی وجہ سے بھی نالیوں میں جمع ہونے والے خون اور گند میں بڑ ے بڑے کیڑے کُلبلانے لگتے ہیں، جوکہ چاروں جانب بکھرے گوشت پر چڑھ جاتے ہیں جس سے یہ گوشت بھی مضر صحت ہونے کا خدشہ پیدا ہوجاتا ہے۔ جبکہ ڈاکٹروں کی عدم موجودگی میں لاغر اور بیمار جانوروں کو بھی موقع پاکر کاٹ دیا جاتا ہے اور اس کیلئے ایمرجنسی سلاٹرنگ کی آڑ لی جاتی ہے۔ ذرائع کے بقول ڈائریکٹر جمیل فاروقی کی جانب سے جو دوسرا اقدام کیا گیا ہے اس کے تحت وٹنری سروس کے تحت چلنے والی تمام ڈیڑھ درجن گاڑیوں کو کھڑا کردیا گیا ہے اور انہیں فیلڈ میں استعمال کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اس کیلئے جو وجہ پیش کی گئی ہے اس کے مطابق وٹنری ڈپارٹمنٹ کا عملہ گاڑیوں کے ایندھن اور مرمت کی مد میں ملنے والے فنڈز میں کرپشن کرتے تھے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ کرپشن کو روکنے کے بجائے گاڑیوں کو ہی کھڑا کردیا گیا ہے اور
ڈاکٹروں اور افسروں کو احکامات جاری کئے گئے ہیں کہ وہ اپنے گھروں سے ڈیوٹی پر اپنے طور پر آئیں اور اگر فیلڈ میں کام ہو تو اس کو بھی اپنے طور پر ذاتی اخراجات سے جاکر کریں، جس کی وجہ سے وٹنری سروس پروائیڈنگ کا سارا نظام ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے، کیونکہ افسران گھروں سے ڈیوٹیوں پر تو خود آجاتے ہیں تاہم فیلڈ میں اپنے خرچے پر جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ بھینس کالونی اور نیو کراچی کے علاوہ جن علاقوں میں جانا ہوتا ہے وہاں آنے اور جانے میں 500 سے 1000 روپے خرچ ہو جاتے ہیں، جو تنخواہ سے ادا کرنا مشکل ہوتا ہے ۔
ذرائع کے مطابق یہ کام اس لئے بھی کیا گیا ہے تاکہ وٹنری سروسز کے اپنے افسران کو فیلڈ میں جانے سے روکا جاسکے اور اس کے بدلے نئے ڈائریکٹر جمیل فاروقی اپنے ساتھ کے ایم سی کے دیگر شعبوں سے 60 کے قریب ملازمین کا تبادلہ کروا کر وٹنری ڈپارٹمنٹ میں لے کر آئے ہیں اور اس عملے کو سوزوکی گاڑیوں کے ذریعے فیلڈ میں استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ اوپر سے حاصل ہونے والی آمدنی کے مسلسل حصول کیلئے نیٹ ورک قائم کیا جاسکے اور وٹنری ڈپارٹمنٹ کے افسران اس سے لاعلم ہی رہیں۔
ذرائع کے مطابق وٹنری ڈپارٹمنٹ کے سروس کے قوانین میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ اس شعبے میں صرف وٹنری ڈاکٹروں اور جانوروں کے علاج معالجے کے علاوہ جانوروں سے متعلق امور کے ماہرین کو ہی تعینات کیا جاسکتا ہے، کیونکہ نان ٹیکنیکل افراد اس شعبے کو نہیں سمجھ سکتے۔ تاہم ان قوانین کی دھجیاں بکھیر کرمن پسند پوسٹنگ کے ذریعے ایک ایڈمنسٹریشن کے افسر کو نوازا گیا ہے جس میں وزارت بلدیات سندھ کے بعض بااثر افسران کی سرپرستی شامل ہے۔
ذرائع کے مطابق مذبح خانوں سے ڈاکٹروں کی ڈیوٹیاں ختم کرکے انہیں شہر کی مارکیٹوں کے سروے پر لگانے کے حوالے سے بھی منصوبہ تیار کیا گیا ہے کہ شہر میں مارکیٹوں میں اور دکانوں پر ہونے والے غیر قانونی ذبیحہ کا ریکارڈ مرتب کیا جاسکے اور اس دھندے میں شامل افراد کو مستقبل بنیادوں پر وٹنری ڈپارٹمنٹ میں لائے گئے کے ایم سی کے 60 ملازمین کے ذریعے قابو میں رکھا جاسکے۔ حالانکہ وٹنری سروسز کے قوانین کے تحت سلاٹر ہائوس کے علاوہ شہر میں کہیں پر بھی گوشت کے فروخت کیلئے ذبیحہ کی اجازت نہیں ہے، اس لئے مارکیٹوں کے سروے کے بجائے براہ راست ایسے افراد کے خلاف کریک ڈائون اور آپریشن کی ضرورت ہے۔ تاہم اس کے بجائے رشوت وصولی کیلئے سروے کی آڑ لی جا رہی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More