نیب سندھ ضرف نوٹس جاری کرنے کا ادارہ بن گیا
کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو) نیب سندھ صرف نوٹس جاری کرنے کا ادارہ بن چکا۔ کراچی، حیدرآباد اور سکھر کے افسران کو تفتیشی مہارت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ دو برس کے دوران مجموعی طور پر کرپشن کے خاتمے میں بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔حاصل اعداد و شمار کے مطابق 15-2016 کی نسبت 2017 میں نیب سندھ کا گراف نیچے آیا جو 2018 میں تقریباً بیٹھ چکا ہے۔ 2016 میں نیب نے سندھ میں ایک سو سے زائد ریفرنسز داخل کئے 131ملزمان گرفتار کئے، 142معاملات کی تحقیقات کو مکمل کیا گیا۔6 ہزار 865شکایات کو نمٹایا گیا اور 1 ارب 19 کروڑ قومی خزانے میں جمع کرائے گئے۔جبکہ 2017 میں نیب سندھ صرف 47ریفرنس دائر کر سکا 4 ہزار 989 شکایات کو نمٹایا گیا اور صرف 29 کروڑ 17 لاکھ روپے ہی قومی خزانے میں جمع کروائے جا سکے جبکہ 2018 میں اس وقت تک کوئی خاص پیش رفت سامنے نہیں آئی۔2014 میں موہن جو دڑو پر منعقد ہونے والے سندھ فیسٹیول کی تحقیقات کا معاملہ بھی لٹکا ہوا ہے نیب کی طرف سے مرتب کی جانے والی رپورٹ کے مطابق اس کیس میں سابق سیکریٹری ثقافت و سیاحت ثاقب احمد سومرو، سابق سیکریٹری اطلاعات سندھ ذوالفقار علی شالوانی،سابق اسپیشل سیکریٹری خزانہ سید حسن نقوی ، سابق ڈائریکٹر جنرل ثقافت منظور احمد کناسرو، ڈپٹی ڈائریکٹر اعجاز شیخ، ڈائریکٹر پلاننگ محمد اسلم چوہدری، ڈپٹی ڈائریکٹر پلاننگ سنتوش کمار اور دیگر نامزد کئے گئے تھے۔نیب کی طرف سے گزشتہ 4 سال سے جاری تحقیقات میں عملی طور پر ٹھپ ہے ۔ محکمہ بلدیات میں 13 ہزار سے زائد جعلی بھرتیوں پر نصف درجن افسران گرفتار ہونے کے باوجود نیب کی تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ گزشتہ دو سال سے صرف ریکارڈ طلب اور نوٹس جاری کئے جا رہے ہیں۔بلدیہ شکارپور، ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن لکھی، خانپور، گڑھی یاسین، نصیر آباد، میرو خان، رتو ڈیرو، کندھکوٹ، کشمور، ڈوکری ، باقرانی اور دیگر ٹاؤن میونسپل کمیٹیوں میں ترقیاتی فنڈز ، جعلی بھرتیوں اور او زی ٹی فنڈز میں 8 ارب سے زائد کی کرپشن کے الزامات کے تحت نیب سکھر نے درجنوں نوٹس جاری کئے ریکارڈ تحویل میں لیا گیا لیکن نتیجہ تا حال نہیں نکل سکا ہے ۔ ملیر ندی کے اندر ہاؤسنگ سوسائٹی سمیت 4 معاملات میں مختلف افراد کو غیر قانونی طور پر الاٹ کی جانے والی 500 ایکڑ اراضی کی تحقیقات کا معاملہ بھی تاحال تفتیش کے مرحلے میں ہی ہے اس کیس میں اویس مظفر ٹپی سمیت درجنوں اعلیٰ افسران ملوث تھے ۔ضلع شرقی کی اسکیم 33 میں 65 ایکڑ زمین کی الاٹمینٹ کی تحقیقات بھی صرف نوٹس جاری کرنے کی حد تک محدود ہے۔صوبائی وزیر صنعت منظور وسان کے خلاف بھی نیب کی طرف سے تحقیقات کا اعلان کیا گیا لیکن یہ معاملہ بھی ابھی تک صرف نوٹس کے اجرا تک ہی محدود ہے اسی طرح سابق وفاقی مشیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کیس بھی طویل عرصہ سے صرف نوٹس کے اجرا کی حد تک محدود ہے جبکہ پی پی رہنما حکیم بلوچ بھی نیب کی تفتیش کی زد میں ہیں۔ سندھ اسمبلی کرپشن اور جعلی بھرتیوں کا کیس بھی جس کی تحقیقات کا دو مرتبہ اعلان کیا گیا ہے اس سے متعلق بھی نوٹس جاری ہوئے ہیں اور ریکارڈ طلب کیا جا رہا ہے۔ نیب نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں گریڈ 1 سے 18تک کے مختلف عہدوں پر ہونے والی 430 سے زائد غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات شروع کی نوٹس پر نوٹس جاری ہوئے اعلیٰ افسران کو طلب کیا جاتا رہا لیکن یہ کیس بھی ابھی تک اپنے منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔ نیب کراچی کے حکام نے کراچی کے ایک ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر مشتمل گٹر باغیچہ میں ہونے والی لینڈ گریبنگ اور چائنا کٹنگ کے معاملات کی تحقیقات کی ۔ابتدائی تحقیقات کا آغاز 27ستمبر 2017 کو کیا گیا تھا۔ یہ تحقیقات نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر آصف امانت نے کی تھی اس سلسلے میں اس کیس سے جڑے ایک درجن سے زائد افراد سے تفصیلات حاصل کی گئیں۔ ابتدائی تحقیقات کے دوران نیب حکام نے گٹر باغیچہ کا تفصیلی دورہ بھی کیا تھا ویڈیو اور تصاویر بنائی گئیں لیکن کیس آگے نہیں بڑھا۔نیب حکام کا کہنا ہے کہ سابق صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے خلاف اثاثہ جات جبکہ سابق صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو کے خلاف حیدر آباد میں زمین کی خریداری سے متعلق تحقیقات جاری ہے جام خان شورو کے بھائی کے خلاف بھی تحقیقات جاری ہے اور نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔سابق صوبائی وزیر پیر مظہر الحق کے خلاف محکمہ تعلیم میں 13 ہزار جعلی بھرتیوں سے قومی خزانے کو 5 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کی تحقیقات عدم ثبوت کہہ کر بند کری گئی جبکہ یہ بھرتیاں غیر قانونی ثابت بھی ہوئی تھیں۔ سابق صوبائی وزیر قانون وانصاف ضیا لنجار کے خلاف نیب سکھر نے اثاثہ جات ، منی لانڈرنگ اور ناجائز آمدنی سے متعلق ابتدائی تحقیقات شروع کی تھی جس کو بعد میں ریفرنس داخل کرنے کے لئے با قائدہ تحقیقات میں تبدیل کر دیا گیا تھا ۔ گیانچند ایسرانی اور علی مردان شاہ کے خلاف اثاثہ جات سے متعلق چھان بین شروع کی گئی تھی تاہم بعد میں عدم ثبوت کی بنا پر اس کو ختم کر دیا گیا ۔سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے منظور قادر کاکا کے خلاف 7 معاملات زیر تفتیش ہیں جن میں رفاہی پلاٹوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ، زمین کی منتقلی، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں غیر قانونی بھرتیوں اور کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر کی غیر قانونی اجازت دینا شامل ہے لیکن کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ سابق آئی جی جیل نصرت منگھن اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات کے دوران درجن سے زائد نوٹس جاری ہو چکے ۔نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر آصف رضا کے خط پر ڈپٹی کمشنر ضلع ٹنڈو محمد خان کی جانب سے نصرت حسین ولد انور علی، رخسانہ نصرت اہلیہ نصرت منگھن، سکندر علی ولد فقیر عبد الغفور، امجد علی لکھن ولد سکندر علی شاہنواز ولد محمد بچل، شاھ دیو واکوانی ولد سیتل داس اور علی اصغر ولد عبد اللہ ہالیپوٹو کے نام پر موجوداثاثوں کا ریکارڈپیش کر دیا گیا تھا۔لیکن افسران کی طلبی اور نوٹس جاری کرنے کے علاوہ کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ۔ نیب کراچی 3 سال گزر جانے کے باوجود بھینس کالونی کی ساڑھے 4 ارب روپے مالیت کی 265 ایکڑ اراضی کے کیس کی تحقیقات مکمل کرنے میں بھی ناکام ہے ۔سندھ ہائی کورٹ کی طرف سےوارننگ نوٹس بھی مل چکا ہے لیکن نیب لیکن نیب ریفرنس دائر نہیں کر رہا۔