قسط نمبر: 227
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
مولانا صہبائی کی خوش مزاجیوں کے باوجود مرزا فخرو کے چہرے پر افسردگی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ مولانا نے دل میں کہا کہ اب زیادہ ٹھہرنا غیر مناسب ہے، شہزادے کو اب تخلیہ چاہئے۔ وہ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اجازت طلبی کے لیے کیا الفاظ کہوں کہ ایک خواص نے حاضر ہو کر سلام کیا اور کہا ’’سرکار والا نے استاد میر ناصر احمد صاحب بین کار کو شاید طلب فرمایا تھا، وہ حضوری کے درخواست گزار ہیں‘‘۔
’’آں ہاں، اچھا یاد دلایا۔ انہیں حاضر کرو، وقت کے لحاظ سے کچھ سنوائیں تو جی بہلے‘‘۔ مرزا فخرو نے کہا۔ مولانا صہبائی کو رخصت طلبی کا اچھا بہانہ ہاتھ آیا اور وہ تین تسلیمات کر کے رخصت ہوئے۔
’’ہمارا کام یاد رہے‘‘۔ مرزا فخرو نے نیم قد اٹھ کر سلام کرتے ہوئے مولانا سے کہا۔ ’’جناب عالی، وہ تو عقیق دل پر قلم الماسی سے منقش ہے۔ انشاء اللہ بہت جلد نتائج حاصل ہوں گے‘‘۔
’’جایئے، آپ کا خدا ہمراہ‘‘۔ شہزادے نے متین اور بھاری لہجے میں کہا۔
’’صاحب عالم کا اقبال بلند ہو، استاد میر ناصر احمد صاحب باریابی کے منتظر ہیں‘‘۔
شہزادے کا اشارہ پاتے ہی چوبدار نے آواز لگائی ’’ملاحظہ! آداب سے کریں مجرا! صاحب عالم ولی عہد سوئم بہادر سلامت!‘‘۔
استاد میر ناصر احمد اپنے وقت کے مانے ہوئے بین کار تو تھے ہی، وہ حضرت سید خواجہ میر درد کے براہ راست اخلاف میں سے بھی تھے۔ اس لئے بوجہ سیادت نسبی بھی سارا شہر انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ عموماً وہ کہیں جاتے نہ تھے، لیکن مرزا فخرو کے یہاں طلبی پر ضرور حاضر ہوجاتے تھے۔ وہ اپنے ساتھ استاد نظام خان دھرپدیئے، مکھو پکھاوجی اور چار دیگر سازندے لئے ہوئے، سات تسلیمیں کرتے ہوئے حاضر ہوئے۔ مرزا غلام فخر الدین فتح الملک شاہ بہادر کی مہارت و مزاولت موسیقی کے بارے میں تمام کلانوت اور سازندے خوب سن چکے تھے، اس لئے ان کے دل میں خود ہی پنکھے لگے ہوئے تھے کہ بہتر سے بہتر سوز و ساز ہو، مالک عزت اپنی رکھ لے۔ اعلیٰ حضرت ظل الہیٰ کا شعر ان کے دل میں گونج رہا تھامت چھیڑ کر سنا تو قانون و بین مجھ کولگتا ہے تار بارش تار رباب ساقیاگر اچھا بجایا اور اچھا گایا نہ گیا تو ظل سبحانی کا شعر الہامی ہی ثابت ہوگا۔ شہزادے کے سامنے قالین پر بیٹھتے ہی میر صاحب نے بین کے تاروں کو چھیڑنا اور سادھنا شروع کیا۔ دوسرے سازندے نے قانون پر سر ملانے شروع کئے۔ بقیہ میں سے ایک نے تانپورہ سنبھالا۔ تیسرے اور چوتھے سازندوں نے دف کی سی قسم کے دو چھوٹے نقاروں کو کسنا اور درست کرنا شروع کیا۔ مکھو پکھاوجی، کہ گلاب سنگھ پکھاوجی مرحوم کے شاگردوں میں سب سے اعلیٰ تھے، چپ چاپ وقت کے منتظر رہے۔ جب سب تیاری ہو چکی اور تانپورے اور قانون پر سر سادھے جا چکے تو میر ناصر احمد صاحب نے بین پر راگ جونپوری میں الاپ چھیڑا۔ کوئی ایک گھڑی کے الاپ کے بعد دفالیوں نے سنگت شروع کی، پھر مکھو پکھاوجی نے پکھاوج پر چوٹ دی اور ان کی سنگت شروع ہوتے ہی نظام میاں دھرپدیئے نے نہایت کومل سر میں الاپ شروع کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سوز سے مکمل ہم آہنگی کے بعد ساز مدھم پڑنے لگے، یہاں تک کہ تانپورہ گویا بالکل کوئی دھیمی بہتی ہوئی جوئے شیر کا نرم ڈھال پر سے اتار بن گیا اور بین کسی برہ کی ماری جوگن کی سسکی بھری تھرتھراہٹ میں تبدیل ہوگئی۔ جمال خلیل شروانی کی رباعی کے الفاظ دور سے پکارتے ہوئے پپیہے کی صدا بن کر ایوان میں اس طرح پھیلے کہ جدھر کان لگائیں لگتا تھا آواز یہاں سے آرہی ہے، یہیں اسی پردے کے پیچھے کوئی پکار رہا ہےاے وائے تو مونس کسے وآں کس منسودائے تو مونس کسے وآں کس منزیں خوب ترم چہ باید اے دوست چوشدغم ہائے تو مونس کسے وآں کس من مرزا فتح الملک بہادر کو پہلے تو سنسنی سی آگئی کہ یہ کیا گایا جا رہا ہے؟ کیا ان لوگوں کو میرے حال کی خبر ہے؟ کیا یہ لوگ کچھ ملی بھگت کرکے آئے ہیں، یا مجھ سے انعام کچھ زیادہ اینٹھنے کے فراق میں ہیں؟ لیکن چند ہی لمحوں میں وہ موسیقی، وہ شعر، اور وہ آواز ان کے دل پر اثر کرتی چلی گئی اور وہ کچھ بھول کر ایک عالم محویت میں زانوؤں پر ہلکی تھاپ دینے اور بین کی لے کے اوپر جھومنے لگے۔ کئی گھڑی بعد جب درت لے اور بھی درت ہوئی، اس قدر درت، کہ لگنے لگا بین کی آواز اور انسان کی آواز میں فرق معدوم ہوجائے گا، فتح الملک کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ تھوڑی دیر مین ان کا رومال تر ہوگیا اور قریب تھا کہ وہ زانوؤں میں سر دے کر بے ہوش سے ہوجائیں۔ یہ حال دیکھ کر ساندوں نے لے مدھم اور پھر بہت مدھم کر دی اور سوز اچانک خاموش ہوگیا۔ نظام میاں اپنے شالی رومال سے پسینہ پونچھنے لگے۔ اب تک انہیں احساس ہی نہ تھا کہ پسینے نے ان کے چہرے، پیشانی، بغل اور سینے کو بھگو کر رکھ دیا تھا اور کبھی کبھی تو ان کی انگلیوں کی پوروں تک سے پسینہ ٹپک جایا کرتا تھا۔
مرزا فخرو کے چوبداروں اور آبدار نے صاف بینی پاک سے ان کا چہرہ، پیشانی اور گردن خشک کی، ایک بہت نازک، چھوٹے سے چینی آبگینے میں کوئی مفرح انہیں پیش کیا، ان کے کپڑے برابر کئے، اور پھر سب کے سب دو زانو ہو کر ایوان ہی میں مختلف جگہوں پر بیٹھ گئے۔ جیسے ہی مرزا فخرو کی حالت سنبھلی، سازندوں نے پھر ساز چھیڑے اور اس بار میر صاحب کا انتظار کئے بغیر نظام میاں صاحب نے راگ جے جے ونتی میں الاپ اٹھایا اور بہت جلد کمال اسمٰعیل کی رباعی کے انترے پر آکر ٹھہر گئے، گویا اوروں کا انتظار کر رہے ہوں کہ آئیں اور میرا ساتھ نبھائیں۔ رباعی کے الفاظ تھےہم لب نہم ایں با تو بہم یا نہ منمامشب منم ایں با ہم یا نہ منممے بر لب دلب کشادہ و دربستہیا رب منم ایں با تو بہم یا نہ منم شہزادہ فتح الملک بہادر بھونچکا ہو کر سنتے رہے۔ یہ راگ، یہ وقت، یہ الفاظ، گویا خدا کی طرف سے میری دلجوئی اور میرے قلب کی مضبوطی کے لئے اتارے گئے ہوں اور پھر میاں نظام کی وہ کچھ باریک، کچھ دبی دبی سی آواز جس میں ایک دل کے ہزاروں ارمان بھرے ہوئے تھے، یا شاید ہزاروں دلوں کا ایک ہی ارمان بھرا ہوا تھا اور وہ سب کچھ اس راگ کی صورت میں متشکل ہو کر جوئے حیات کی طرح گویا فتح الملک بہادر کے رگ و پے کو سیراب کر رہی ہو۔ ان کی محویت کو دیکھ کر، کہ گزشتہ رباعی کو سن کر جو تلاطم ان کے ذہن و روح میں آیا تھا، اس بار اس کی جگہ گہرا سناٹا، تحیر کی طلسماتی چپ، اور جاگتے سوتے کے خواب کی سی چلتی پھرتی حیرانی تھی۔ استاد ناصر صاحب نے محفل کو اور طول دینا چاہا، لیکن ایک چوبدار نے، کہ شہزدے کا مزاج شناس تھا، خاموشی کا اشارہ کیا اور موسیقاروں سے پوچھے بغیر اس نے سر گوشی کے لہجے میں شہزادے سے کہا: ’’صاحب عالم، استاد میر ناصر احمد صاحب اور میاں نظام خان صاحب، اور سا زندگان خواستگار رخصت ہیں‘‘۔
مرزا فخر و گویا خواب سے بیدار ہوئے۔ دو پہر گزر چکی تھی۔ گرد و پیش شمعیں روشن تھیں۔ مشعلچیوں نے فرشی کنول اور چھت کے جھاڑ اس خاموشی سے یکے بعد دیگرے جگا دیئے تھے، گویا کسی مخفی وقت مقررہ پر وہ آپ سے آپ جل اٹھے ہوں۔ ’’اوہو ہو، وقت اتنا گزر گیا‘‘۔ انہوں نے کہا۔ ’’بھئی قربان جایئے ہمارے کلاونتوں کے کہ انہوں نے ہمیں تھوڑی ہی دیر میں کہاں سے کہاں پہنچادیا‘‘۔
دونوں استادوں نے جھک کر سات سلام کئے اور کہا: ’’سرکار ہمارے تو گلے خشک ہو رہے تھے اور سازوں پر ہاتھ کانپ رہے تھے۔ حضور کے سامنے الاپ بھی چھیڑنا بے ادبی تھی چہ جائے کہ پورا دھرپد سنانا۔ اللہ نے لاج رکھ لی‘‘۔
مرزا فخرو نے سب اہل طائفہ کو مناسب انعام اور تین تین پارچے خلعت کے دلواکر رخصت کرانے کے پہلے یہ کہہ کر داد دی کہ اس میں گستاخی کی کیا بات ہے، جس کے گلے میں سر، اور جس کی انامل میں راگ کا ارتعاش ہوگا، وہ آپ سے آپ گرفتار تموج آہنگ و صدا ہو جائے گا۔ (جاری ہے)