مرزا عبدالقدوس
اڈیالہ جیل سے اٹک جیل منتقل کئے جانے کے بعد اتوار کی شب تک سابق رکن قومی اسمبلی و لیگی رہنما حنیف عباسی کی اہلخانہ سمیت کسی سے ملاقات نہیں کرائی گئی۔ حنیف عباسی کے اہل خانہ کا موقف ہے کہ ان کی اٹک جیل منتقلی کا علم انہیں صبح کے وقت ٹی وی کی خبروں سے ہوا۔ حنیف عباسی کی انجیو پلاسٹی ہو چکی ہے اور چند ہفتے پہلے ان کو دو اسٹنٹ ڈالے گئے تھے۔ اگر ان کی زندگی کو خدانخواستہ کچھ ہوا تو اس کے ذمہ دار حنیف عباسی کو اٹک جیل منتقل کرنے والے یا اس کی سازش کرنے والے ہوں گے۔ اڈیالہ جیل میں حنیف عباسی کا پرہیزی کھانا ڈاکٹروں کی ہدایات کے برعکس دو تین دن بعد ہی بند کر دیا گیا تھا۔ انجیو پلاسٹی کے علاوہ حنیف عباسی کو پولن الرجی بھی ہے، جس کے اٹک میں حملے کا خطرہ ہے۔ جبکہ اٹک جیل میں بہتر طبی سہولیات میسر ہی نہیں ہیں۔
حنیف عباسی کو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی رہائی کے موقع پر ان کی سپرنٹنڈنٹ جیل اڈیالہ کے آفس میں ملاقات کی تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اٹک جیل منتقل کیا گیا۔ حنیف عباسی کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ اگر یہ تصویر بنی اور جاری ہوئی تو اس میں حنیف عباسی کا کیا قصور ہے۔ وہ اپنے قائد کی رہائی کے موقع پر ان سے اس جگہ ملنے آئے، جہاں نواز شریف موجود تھے۔ نواز شریف نے تو ان سے ملنے ان کی بیرک میں نہیں جانا تھا۔ اس ملاقات کے موقع پر کسی نے ان کی تصویر بنائی اور سوشل میڈیا پر جاری کر دی، جو ان کے خلاف سازش تھی اور اسی سازش کے تحت ان کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنا کر اٹک منتقل کیا گیا ہے، جو انتہائی گھٹیا اور انسانیت سے گری ہوئی حرکت ہے ۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے مسز حنیف عباسی نے کہا کہ… ’’شیخ رشید احمد اور فیاض الحسن چوہان کو آخرت کا بھی خوف کرنا چاہئے اور ایسے اوچھے ہتھکنڈے سے باز رہیں جو انسانیت سے بھی گرے ہوئے ہیں۔ کیمرہ کون لے کر گیا۔ کس نے فوٹو بنائی یا کس نے اجازت دی، اس کے ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہئے۔ جبکہ ایک سازش کے تحت سزا ایسے شخص کو دی گئی جو بے گناہ اور بے قصور ہوکر بھی سزا کاٹ رہا ہے اور جو اپنے قائد تین بار کے منتخب وزیر اعظم سے ملنے آیا تھا اور بے خبری میں اس کی تصویر بناکر جاری کردی گئی اور سزا کے طور پر بیماری کے باوجود دوسرے شہر کی جیل میں منتقل کردیا گیا‘‘۔ اس سوال پر کہ سابق ڈپٹی اسپیکر مرتضی جاوید عباسی پر تصویر بنانے اور اپنے بیٹے کو بھیجنے کا الزام سامنے آرہا ہے؟ بیگم حنیف عباسی نے کہا کہ ’’مجھے اس کا علم نہیں اور نہ میں عملی سیاست میں ہوں۔ مجھے صرف یہ بتا دیں کہ اس میں حنیف عباسی کا کیا قصور ہے، سوائے اس کے کہ وہ اپنے قائد سے الوداعی ملاقات کرنے آئے تھے‘‘۔ ایک سوال پر مسز عباسی نے کہا کہ ’’ہمیں پتہ چلا ہے کہ آدھی رات کو جبکہ حنیف عباسی اپنی بیرک میں سو رہے تھے، اچانک انہیں بیدار کر کے گاڑی میں سوار کیا گیا اور اٹک روانہ کر دیا گیا۔ وہ اپنی ادویات بھی ساتھ نہیں لے جا سکے۔ کل یعنی ہفتے کے دن میں نے ان کے معالج راولپنڈی انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے سربراہ ڈاکٹر اظہر کیانی سے بمشکل رابطہ کیا اور ان سے پوچھ کر حنیف عباسی کو اٹک جیل میں ان کے زیر استعمال ادویات بھجوائی ہیں۔ وہ ادویات اٹک جیل کے مین گیٹ پر دی گئی ہیں، چونکہ اندر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ اب ان تک پہنچی ہیں یا نہیں، ہمیں اس کا علم نہیں۔ آج پیر کو ان کے بیٹے اور بھائی اٹک جیل جائیں گے۔ اگر ملاقات ہوئی تو ان کی صحت اور ادویات کے بارے میں علم ہوگا‘‘۔ مسز عباسی کا مزید کہنا تھا کہ ’’میری اور بیٹیوں کی صرف ایک بار عید کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ چونکہ جیل کے اندر اور باہر بھی بہت رش ہوتا ہے، اس لئے انہوں نے ہمیں جیل میں ملاقات کے لئے آنے سے منع کر دیا تھا۔ اسی متنازعہ تصویر سے میں نے دیکھا ہے کہ ان کا وزن کافی کم ہوگیا ہے اور پہلے سے کمزور بھی نظر آرہے ہیں۔ ڈاکٹر اظہر کیانی نے آپریشن کے بعد ایک ہفتے تک انہیں پرہیزی کھانا دینے کی ہدایات دی تھیں، جن پر عمل نہیں ہوا۔ اب ہم ان کی صحت کے حوالے سے پریشان ہیں۔ اگر ان کو کچھ ہوا تو اس کے ذمہ داران کے خلاف سازش کرنے والے اور اٹک منتقل کرنے والے ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق ایفی ڈرین کیس میں ملوث حنیف عباسی انجیو پلاسٹی کے بعد اڈیالہ جیل کے اسپتال میں زیر علاج تھے۔ اڈیالہ جیل میں انہیں اعلانیہ، غیر اعلانیہ ملاقاتوں کی سہولت حاصل تھی۔ نواز شریف کی موجودگی اور ہفتے میں ایک دن ان سے ملاقات سے بھی انہیں کافی حوصلہ ملتا تھا۔ جیل انتظامیہ کا رویہ ذرائع کے مطابق ان سے ہمدردانہ تھا اور بعض اوقات ان کے بیرونی رابطے بھی بحال ہوجاتے تھے۔ لیکن نواز شریف سے ملاقات کی تصویر نے حنیف عباسی کی مشکلات میں اضافہ کر دیا اور جیل انتظامیہ بھی صوبائی حکومت کے عتاب کا شکار ہے۔ حنیف عباسی کی اٹک جیل منتقلی کے بعد ان سے ان کے خاندان یا پارٹی کے کسی کارکن کا کوئی رابطہ نہیں ہے۔ آج (پیر کو) ان کا بیٹا اور بھائی اٹک ملاقات کے لئے جائیں گے۔ جس کے بعد ہی علم ہوگا کہ صرف ان کی اٹک منتقلی ہوئی ہے یا کوئی مزید سختی بھی ان پر کی گئی ہے۔