امریکہ اور چین کے ایک دوسرے کی مصنوعات پر ٹیکس
واشنگٹن(امت نیوز) امریکہ اور چین نے ایک دوسرے کی اشیائے صرف پر اب تک کے سب سے زیادہ شرح ٹیکس عائد کر دیئے جن پر پیر سے عملدرآمد شروع ہوگیا ہے۔مغربی میڈیا کے مطابق امریکہ نے چین کی 2سو ارب ڈالر کی درآمدی اشیاء پر 10فیصد ٹیکس عائد کیاہے جسے 2018کے اختتام تک بتدریج 25فیصد تک بڑھایا جائے گا۔ جن اشیاء پر نئے ٹیکس کی چھری چلائی گئی ہیں اُن میں کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر بیس بال کے دستانے، نیٹ ورک راؤٹرز اور صنعتی پارٹس بھی شامل ہیں۔ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام پر چین نے بھی محض چند گھنٹوں بعد ہی 60ارب ڈالرمالیت کی 5207امریکی درآمدی اشیاء پر 5سے 10فیصد تک ٹیکس عائد کردیا ہے۔ چین نے اس بار جن اشیاء کو ٹیکس عائد کرنے کے لیے چُنا ہے اُن میں گوشت، کیمیکل،ملبوسات اور گاڑیوں کے پارٹس شامل ہیں۔ بیجنگ میں حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکہ عالمی تجارت کے معاملات میں زور زبردستی کر رہا ہے اور دیگر ملکوں کو اپنی بات ماننے پر مجبور کر رہا ہے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق اسٹیٹ کونسل نے اس ضمن میں جاری وائٹ پیپر میں کہاہے کہ چین امریکہ کی اس دھونس اور زبردستی کا مقابلہ کرے گا تاہم اس کے ساتھ بیجنگ نے امریکہ کے ساتھ تجارتی امور پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی خواہش بھی ظاہرکی اور کہا کہ اگر یہ بات چیت باہمی احترام اور برابری کی بنیاد پر ہو تو چین اس کا خیرمقدم کرے گا۔دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کی درآمدات پر عائد ٹیکس پیر سے مؤثر ہوگئے تاہم ان کی شرح اتنی بلند نہیں جتنا کہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔بیجنگ نے ابتدائی طور پر امریکی درآمدات پر 5سے 10فی صد ٹیکس عائد کیا ہے اور خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے چینی مصنوعات پر ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا تو وہ بھی اس کا جواب دے گا۔دونوں ممالک اس سے قبل ایک دوسرے سے درآمد کی جانے والی 50ارب ڈالر مالیت کی اشیا پر بھی بھاری ٹیکس عائد کرچکے ہیں۔