شواہد ملنے پر ڈی جی کسٹم انٹیلی جنس کیخلاف نیب کا گھیراتنگ

0

کراچی(رپورٹ:عمران خان) ڈائریکٹر جنرل کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات پرنیب نے گھیرا تنگ کردیا، نیب تحقیقات میں آج 422 صفحات پر مشتمل شواہد ڈائریکٹر نیب کے سامنے پیش کئے جائیں گے جس میں سرکاری افسر ہوتے ہوئے خود کو بزنس مین ظاہر کرکے دبئی جانے سمیت ماضی میں شوکت علی کے خلاف ہونے والی دو انکوائری رپورٹوں کے ثبوت بھی شامل ہیں جن میں انہیں کرپشن اور قومی خزانے کے نقصان کا ذمے دار ٹھہرایا جاچکا ہے ،ان دستاویزات میں سے 22صفحات ڈی جی کسٹم انٹیلی جنس کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن کا الزام عائد کرنے والے درخواست گزار کے بیان کے ہیں جبکہ باقی 400صفحات پر بیان میں لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے کے لئے شواہد پر مشتمل ہیں ،نیب میں شوکت علی اور ان کے فرنٹ مین مشتاق سرگانہ کے خلاف تحقیقات کے لئے رواں برس مارچ کے مہینے میں دی گئی درخواست پر ابتدائی انکوائری شروع کی گئی تھی جوکہ رواں مہینے کے ابتدائی دنوں میں مکمل کرکے چیئرمین نیب کی ارسال کی گئی جس پر چیئرمین نیب کی جانب سے گزشتہ ہفتے ڈی جی شوکت علی کے خلاف باقاعدہ تحقیقات کی اجازت دے دی گئی۔ذرائع کے بقول نیب کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن شوکت علی کے خلاف باقاعدہ تحقیقات شروع کئے جانے کے بعد چاروں صوبائی ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کے افسرا ن کے درمیان ہلچل مچ گئی ہے۔ شوکت علی کے خلاف اربوں روپے کی کرپشن کی تحقیقات خود انہی کے ادارے کے ایک سابق انٹیلی جنس افسر کی جانب سے فراہم کئے جانے والے شواہد پر شروع کی گئی ہے ان تحقیقات میں ڈی جی شوکت علی کے علاوہ دیگر پانچ افسرا ن کو بھی شامل کیا جا رہا ہے جن سے گواہان کی حیثیت سے ثبوت اور ریکارڈ حاصل کیا جائے گا ان میں ڈاکٹر سعود عمران ،جمیل ناصر،محمد اختر ،نصر اللہ وزیر ،ذوالفقار یونس اور انسپکٹر حامد حبیب شامل ہیں،ذرائع کے مطابق مزید کارروائی کے لئے نیب حکام کی جانب سےسابق انٹیلی جنس افسرسید عامر شبیر کو آج کو سمن جاری کر کے بلایا گیا ہے،اس سے قبل درخواست دہندہ نے ڈی جی کسٹم شوکت علی کے بارے میں دستاویزات نیب کو جمع کرائی ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ شوکت علی نے پاسپورٹ نمبر ڈی ای 1791854پر خود کو بزنس مین ظاہر کرکے بغیر این او سی لئے دبئی کا دورہ کیا۔ درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ شوکت علی نے فیصل آباد ڈرائی پورٹ پر غیر قانونی مراعاتی سسٹم نصب کیا ہوا تھا جس کے تحت درآمدی اشیا ئکی غلط شناخت ظاہر کرکے کلیئر کر دیا جاتا تھا،2013میں ڈائریکٹوریٹ آف پوسٹ کلیئرنس آڈٹ کے تحت ان معاملات کا جائزہ لینے کیلئے ایک انکوائری کرائی گئی،جس میں انکشاف ہوا کہ اس مراعاتی سسٹم کے ذریعے ملک کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا،2013 میں وفاقی ٹیکس محتسب کے حکم پر انکوائری کرائی گئی جس کی رپورٹس میں انکشاف ہوا کہ ڈی جی شوکت علی کے دور میں مراعاتی سسٹم کے تحت پرانی اور استعمال شدہ ،مشینری اور صابن کے کنٹینر درآمد کئے گئے جن کا کوئی معائنہ کیا گیا اور نہ کنٹینرز کو کھولا گیا۔مجموعی طور 1188کنٹینرز میں سے 604کنٹینرز پرانی اور استعمال شدہ مشینری کی درآمد فیصل آباد ڈرائی پورٹ پر کی گئی جنہیں ایک دن کے اندر میں کلیئر کرکے خزانے کو 93کروڑ 33لاکھ روپے کا نقصان پہنچا یاگیا،ذرائع کے مطابق 7ستمبر 2012کو شوکت علی نے فیبرکس کا کنٹینر کلیئرکیا،تاہم جب یہ کنٹینر فیصل آباد سے لاہور جا رہا تھا اور اس کو اے ایس او لاہور نے چیک کیا تو اس میں سے پولیسٹربر آمد ہوا تھا،ذرائع کے بقول ڈی جی شوکت علی کے خلاف درخواست میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے کراچی ،لاہور ،پشاور،کوئٹہ سمیت تمام ڈرائی پورٹس پر اپنے من پسند اور منظور نظر افسران کی ٹیمیں تعینات کر رکھی ہیں جنہیں ان کا فرنٹ مین مشتاق سرگانہ کنٹرول کرتا ہے یہ فرنٹ مین کسٹم کا سابق سپاہی ہے تاہم دنیا کی معروف تین ٹائر کمپنی ”روٹ وے “ کی پاکستان میں ایجنسی چلاتا ہے اور کروڑوں روپے کا مالک بن گیا ہے۔ ،ذرائع کے بقول کسٹم کے شعبہ ڈائریکٹو ریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن کراچی،پشاور اور لاہور میں TP Changedیعنی ٹرانزٹ پرمٹ میں تبدیلی کرکے اربوں روپے کا سامان اور ٹیکس چوری کرنے والے ملزمان کے خلاف درجنوں کیس تحقیقات مکمل نہ ہونے کی وجہ سے التواکا شکارہیں۔کسٹم کے معتبر ذرائع کے مطابق اس نوعیت کے کیسوں میں جو تاجر کراچی ایسٹ ،ویسٹ یا پورٹ قاسم پر بیرون ملک سے اپنا سامان منگواتے ہیں وہ انہیں کراچی کی بندرگاہوں اور ٹرمینلز سے کلیئر کروانے کے بجائے پنجاب اور خیبر پختون میں قائم کسٹم کی خشک گودیوں یعنی ڈرائی پورٹس سے کلیئر کروانے کے لئے گڈ ز ڈکلریشن یعنی جی ڈیز کی فائلیں داخل کرتے ہیں ان کی درخواستوں پر کسٹم حکام کراچی میں ان کا سامان پہنچنے پر اسے کسٹم کے باؤنڈڈ کیریئرز کے ذریعے ڈرائی پورٹس پر روانہ کردیتے ہیں یعنی ایسے ٹرانسپورٹرز کے ذریعے یہ سامان بھجوایا جاتا ہے جن کا کسٹم کے محکمہ سے باقاعدہ معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ ایسا سامان کراچی سے خشک گودیوں تک بحفاطت پہنچائیں گے تاکہ یہ سامان ڈرائی پورٹ سے کلیئرنس کے بعد ہی مذکورہ تاجروں کو مل سکے اس کے لئے انہیں ٹرانزٹ پرمٹ یعنی راہداری کا اجازت نامہ دیا جاتا ہے ،ٹرانزٹ پرمٹ تبدیل کرکے فراڈ ایسے کیا جاتا ہے کہ ٹرانزٹ پرمٹ میں تبدیلیاں کرکے سامان کہیں اور پہنچا دیا جاتا ہے یا پھر کنٹینر کی سیل صفائی سے توڑ کر قیمتی سامان نکال لیا جاتا ہے اور ارزاں سامان رکھ دیا جاتا ہے اس طرح سے خشک گودی پر پہنچنے کے بعد اس پر ٹیکس بھی کم لاگو ہوتا ہے اور قیمتی سامان راستے میں نکال کر فروخت کردیا جاتا ہے اس فراڈ میں ملوث تاجر اربوں روپے کا ناجائز منافع حاصل کرتے ہیں اور رشوت کے طور پر معاوضہ ملوث ٹرانسپورٹرز اور کسٹم افسران کو بھی دیا جاتا ہے ،ذرائع کے مطابق اس وقت بھی کسٹم ایسٹ ،کسٹم ویسٹ ،پورٹ قاسم ،ڈرائی پورٹ لاہور سمیت ڈائریکٹو ریٹ آف انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن میں زیرالتوادرجنوں کیسوں پر تحقیقات رکی ہوئی ہیں جس کے نتیجے میں ملزمان کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ذرائع کے بقول ملوث مافیا کے سرپرست اس قدر بااثر ہیں کہ انہوں نے تفتیشی افسران کو بھی ہراساں کر رکھا ہے،ایک واقعہ میں ٹی پی پرمٹ فراڈ میں ملوث گروپ کے کارندوں نے اسمگلروں کے خلاف تحقیقات کرنے والے لاہور کے کسٹم انٹیلی جنس افسر میاں یاسین کی گاڑی پر فائرنگ کرکے قاتلانہ حملہ کیا جس میں ان کا بیٹا شدید زخمی ہواجوکہ اب تک زیر علاج ہے جس کے بعد تفتیشی افسران کی جانب سے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایسے تمام کیس چیئرمین ایف بی آر کو روانہ کئے جائیں گے تاکہ وہ خود ان پر رپورٹ طلب کریں اور انہیں باضابطہ احکامات جاری کریں، حالیہ عرصے میں جو کمپنیاں اس فراڈ میں ملوث رہی ہیں ان میں پورٹ کنکشن ،ای موورز،میسرز میٹل انڈسٹریز، میسرز سیف الرحمن اینڈ برادرز،میسرز اقراءانٹرنیشنل ،الوہاب انٹر پرائزرز اورد دیگر شامل ہیںتاہم کسٹم انٹیلی جنس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے عدم دلچسپی اور بعض وجوہات کی بناپر ان کیسوں پر تحقیقات رکی ہوئی ہے جس سے اسمگلر مافیا کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More