امت رپورٹ
پیپلز پارٹی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جارحانہ اپوزیشن کیلئے تیار نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی حکومت آسانی کے ساتھ چلانے کیلئے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے پر پی پی قیادت کو اپنے خلاف کرپشن کیسز کھلنے کا بھی خوف ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہی وجوہات ہیں کہ نواز لیگ کی طرف سے ضمنی الیکشن میں مشترکہ امیدوار کھڑے کرنے کی تجویز پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے۔ اس سے قبل وزیر اعظم اور صدر کے انتخاب کے موقع پر بھی دونوں جماعتوں کی جانب سے راہیں جدا رکھنے کے باعث متحدہ اپوزیشن کو خاصا نقصان پہنچا تھا۔ تاہم نئے سرے سے مفاہمت کیلئے گزشتہ روز سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق کی قیادت میں مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے وفد نے پی پی کے سیکریٹری جنرل نیئر بخاری سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی اور انہیںآصف زرداری کیلئے نواز شریف کا پیغام پہنچایا، جس میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جماعتوں کے مشترکہ پلیٹ فارم سے کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا تھا۔ نواز لیگی وفد کے دیگر اراکین میں سینیٹر چوہدری تنویر، سابق وزیر کیڈ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور سابق رکنِ قومی اسمبلی انجم عقیل شامل تھے۔ واضح رہے کہ ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 11 اور صوبائی اسمبلی کی 26 نشستوں پر ضمنی انتخابات کا انعقاد آئندہ ماہ ہوگا۔ یہ نشستیں مختلف وجوہات کی بنا پر خالی ہوئی تھیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اب بھی باہمی اعتماد کا فقدان ہے۔ اگرچہ نواز لیگ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے، لیکن پیپلزپارٹی کے پاس سندھ کی حکومت ہونے کی وجہ سے اس کا وزن زیادہ ہے۔ ذرائع کے بقول یہی وجہ ہے کہ پیپلزپارٹی تحریک انصاف کیلئے فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہتی ہے اور حکومت کو فی الحال ٹف ٹائم دینے کیلئے تیار نہیں اور ضمنی انتخابات میں مشترکہ امیدوار کھڑے کئے جانے کا امکان نظر نہیں آتا۔ پی پی کے سربراہ آصف زرداری بیگم کلثوم نواز کی تعزیت کیلئے رائے ونڈ گئے تو حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کے اتحاد کی خبریں سامنے آنے پر نیب نے بھی پیپلزپارٹی کے رہنمائوں کی کرپشن کی فائلوں پر سے گرد جھاڑنا شروع کردی ہے۔ ذرائع کے بقول دوسری بڑی اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں کو حکومت کی مخالفت کی صورت میں اپنے خلاف کرپشن کیسز کھلنے کا بھی خوف ہے۔ ادھر لیگی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پیپلزپارٹی کو اب یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ متحدہ اپوزیشن کی خواہاں ہے یا نہیں؟ اس کیلئے چیئرمین سینیٹ کی تبدیلی کیلئے پیپلزپارٹی کو نواز لیگ کا ساتھ دینا ہوگا۔ ادھر قومی اسمبلی میں پیر کو قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی تقریر میں پیپلزپارٹی نے کوئی اضافہ نہیں کیا اور کسی معاملے میں ان کی تائید نہیں کی۔ ذرائع کے مطابق قومی اسمبلی کی 11 نشستوں پر پیپلزپارٹی کو اپنی کامیابی کی کوئی توقع نہیں ہے، اس لئے وہ نواز لیگ سے تعاون میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ این اے 53 اور این اے 60 میں پیپلزپارٹی تیسرے نمبر پر بھی نہیں تھی اور وہ اپنے ووٹرز کو ’’ن‘‘ لیگ کے ہاتھوں میں نہیں دینا چاہتی۔ کیونکہ اس کے سامنے جماعت اسلامی کا تجربہ موجود ہے، جس کے ووٹرز 1988ء میں ن لیگ کے ساتھ، 2002ء میں جے یو آئی ایف کے ساتھ اور 2013ء میں تحریک انصاف کے ساتھ چلے گئے اور پلٹ کر واپس نہیں آئے۔ پھر جماعت اسلامی نے 2018ء میں اپنے بچے کھچے ووٹروں کو جے یو آئی ایف کے ہاتھوں فروخت کردیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی دیکھ رہی ہے کہ جلد ہی بلدیاتی الیکشن کا میدان گرم ہونے والا ہے اور اس میں پیپلز پارٹی کا مقابلہ تحریک انصاف اور ن لیگ سے ہوگا، تو وہ ضمنی انتخابات میں ن لیگ کے ساتھ مل کر کیوں اپنے ووٹروں کو کنفیوز کرے۔ اس لیے ن لیگ کی مشترکہ امیدوار کی تجویز ہوا میں تحلیل ہوجائے گی۔ پیپلزپارٹی کے رہنما شہباز شریف سے ملاقات ہی نہیں کرنا چاہتے، یہی وجہ ہے کہ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق سے پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری نے ملاقات کی۔ لیکن دونوں رہنمائوں کے پاس کوئی فیصلہ کرنے کا مینڈیٹ نہیں تھا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے پاس سندھ میں حکومت ہے اور وہ سیاسی طور پر نواز لیگ سے زیادہ طاقتور ہے۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے چیئرمین راجہ ظفر الحق گزشتہ دور حکومت میں سینیٹ میں قائد ایوان تھے، جبکہ اس وقت پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر تھیں۔ پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کے امیدوار کیلئے شہباز شریف کی نامزدگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان کی تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا، تاہم مسلم لیگ (ن) نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ قومی اسمبلی کے قائد ایوان کے انتخاب کے دوران شہباز شریف نے بلاول بھٹو زرداری کی نشست پر جاکر ان سے حمایت کی درخواست کی تاہم انہوں نے معذرت کرلی جبکہ پیپلزپارٹی نے وزیراعظم کے انتخاب کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے کئے جانے والے احتجاج میں بھی حصہ نہیں لیا تھا۔ صدر کی انتخابی مہم کے دوران پی پی رہنماؤں نے دو ٹوک الفاظ میں اپوزیشن اتحاد کو ہی مسترد کرتے ہوئے کہا تھاکہ اپوزیشن کا کوئی باقاعدہ اتحاد نہیں بلکہ محض ایک بندوبست ہے۔ سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے کہا تھاکہ ہم عمران خان کا دائرہ کار تنگ کرنا نہیں چاہتے، ذمہ دار اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے، حکومت کی غلط پالیسیوں کو روکیں گے اور اچھے کاموں کی تائید کریں گے، صرف مخالفت برائے مخالفت نہیں کریں گے، یہی وجہ ہے کہ مستقبل قریب میں نواز لیگ اور پی پی کا کوئی اتحاد یا مشترکہ جدوجہد نہیں نظر آرہی ہے۔
٭٭٭٭٭