حضرت حام کے کتبے پر عمر مبارکہ 536 برس درج ہے

0

احمد خلیل جازم
حضرت حامؑ کی قبر کے اردگرد اگرچہ کافی پرانی قبریں ہیں۔ لیکن اس چار دیواری میں اور کوئی قبر نہیں ہے۔ اس قبر کی لوح سبز رنگ کی ہے اور اس پر تین کتبے لگے ہوئے ہیں۔ ایک کتبے پر آپؑ کا نام اور آپؑ کی عمر مبارکہ 536 برس تحریر ہے۔ اس کے نیچے حافظ شمس الدین کی کتاب سے ایک پنجابی شعر بھی لکھا ہے ’’رب دی رحمت وسدی ہر دم جیونکر مینہ بہاراں۔ پاون فیض بھارت والے ہر حضرت نور انواراں‘‘۔ دوسرے مصرعہ میں بھارت کے بجائے بعض کتب میں ’’بشارت‘‘ تحریر ہے۔ اصل کیا ہے؟ وہ ان کا اصل کلام دیکھ کر ہی بتایا جاسکتا ہے۔ دوسرے دو کتبوں پر پنجابی زبان میں توصیفی اشعار درج ہیں۔ مزار کے اندر اور اس کے قرب و جوار میں انتہائی بڑے، گھنے اور پرانے درخت موجود ہیں۔ مزار کے احاطے کے سرہانے کی جانب چار دیواری سے باہر ایک بہت بڑا درخت ہے، جس پر چمگادڑوں کا بسیرا ہے۔ لیکن حیران کن طور پر یہ چمگادڑ مزار کے اوپر جو گھنا درخت ہے، اس پر نہیں آتے بلکہ مزار کے باہر والے درخت پر الٹے لٹکے دیکھے جا سکتے ہیں۔ زاہد کا کہنا تھا کہ یہ چمگادڑ اتنے بڑے ہیں کہ اس جیسے بڑے چمگادڑ پورے علاقے میں اور کہیں نہیں دیکھے جاسکتے۔ لیکن ان چمگادڑوں کو مزار کے اندر والے گھنے درخت پر داخلے کی اجازت نہیں ہے۔
حضرت حامؑ کی قبر کے بارے میں محمد زمان کھوکھر ایڈووکیٹ نے اپنی بعض کتب میں ذکر کیا ہے، لیکن یہ ذکر بہت سرسری ہے۔ ان کے پاس اس قبر کی حقیقت کے حوالے کے طور پر صرف شمس الدین گلیانوی کی کتاب، انوار شمس کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ گجرات میں زمان کھوکھر کے بارے میں معلومات حاصل کی گئیں تو معلوم ہوا کہ انہوں نے گجرات سمیت آزاد کشمیر، کے پی، جنوبی پنجاب اور کوئٹہ تک اولیاء اللہ کی قبور کے بارے میں تحقیقی کام کیا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کا کام کتابی شکل میں تو آیا، لیکن اب مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔ محمد زمان کھوکھر کے بیٹے نے ان کی وفات کے کچھ دنوں بعد ان کا تمام کتابی سرمایہ کباڑیوں کے ہاتھ بیچ دیا اور اس وقت وہ خالی ہاتھ ہے۔ گجرات کے ایک نوجوان محقق فصیح الدین جرال نے بتایا کہ ’’حضرت حامؑ کی قبر کے حوالے سے حافظ شمس الدین گلیانوی کی ایک کتاب، تاریخ ہبوتی میں مزید تفصیلات موجود تھیں، لیکن وہ نسخہ بھی اب پاکستان میں نہیں ہے بلکہ ایران کی قم یونیورسٹی کو دے دیا گیا تھا۔ اس کی ایک چھوٹی سی تلخیص البتہ اٹھارہ بیس صفحات کی پاکستان میں موجود ہے، جو تلاش کرنے پر مل سکتی ہے‘‘۔ حضرت حامؑ کی قبر کے حوالے سے تاریخی حوالہ جات پر فصیح الدین کا کہنا تھا ’’میری نظر سے کچھ توریت اور زبور کے قدیم نسخے گزرے ہیں۔ ان نسخوں میں ہمارے علاقوں میں فقط دو انبیا کے نام ملے ہیں، جن میں ایک نام طانوخؑ کا ہے اور دوسرے پیغمبر کا نام امنونؑ ہے۔ اب ان دونوں کے حوالے سے حضرت قاضی سلطان اعوان شریف، غلام حیات سہروردی اور دیگر اولیا نے کام کیا اور ان سے فیض بھی حاصل کیا۔ لیکن انہوں نے بھی ان دونوں پر کچھ مزید نہیں لکھا۔ دراصل انوار شمس کا نسخہ مکمل اگر کسی کے پاس ہو تو وہ آپ کے لیے معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ انہوں نے ہی ان کے بارے میں نشان دہی کی ہے۔ حافظ شمس الدین گلیانوی نے زیادہ کام حضرت موسیٰؑ کی روایات پرکیا ہے اور یہ کمال کام ہے۔ بقول شمس الدین گلیانوی کے انہیں جتنا علم حاصل ہوا یہ حضرت موسیٰؑ سے عقیدت کی بدولت حاصل ہوا‘‘۔
بارہا ہمارے سامنے حافظ شمس الدین گلیانوی کی کتاب سے حوالہ دیا جاتا رہا، لیکن انوارالشمس کا قلمی نسخہ ابھی تک نہیں ملا۔ بہرحال حضرت حامؑ کی قبر اور مزار دیکھ کر یہ یقین ہوتا ہے کہ اس قبر مبارکہ میں کوئی اللہ کا ولی ضرور موجود ہے، کیونکہ اس جگہ پر سکون، سرور اور کیف کی دولت حاصل ہوتی ہے۔ 78 فٹ لمبی قبر دیکھ کر ہر کسی کے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اتنا لمبا انسان ہوسکتا ہے؟ اگر ہوسکتا ہے تو پھر اتنا پتلا کیسے ہوسکتا ہے؟ اسی حساب سے اس کا جسم موٹا بھی ہونا چاہیے۔ تو اس پر بعض کتب میں تحریر اس بات نے شکوک رفع کیے کہ ’’پہلے دور میں قبر کی لمبائی کسی بھی شخص کے علم، اور اس کے مقام کو مد نظر رکھ کر رکھی جاتی تھی۔ یعنی جو شخص جس قدر صاحب علم اور ذی شان ہوگا، اسی قدر اس کی قبر کی لمبائی رکھی جائے گی۔ نو گز، یا اکیس گز قبروں میں محو استراحت ہستیاں ضروری نہیں کہ اتنے ہی قد کاٹھ کی ہوں۔ البتہ لوگوں نے ان کے شایان شان ان قبروں کو لمبا کرکے انہیں دوسروں سے منفرد کیا‘‘۔ حضرت حامؑ کی قبر کی حالت زار دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ یہاں حکومتی سطح پر کسی قسم کا دھیان نہیں دیا جاتا۔ مقامی شخص زاہد کا کہنا تھا کہ ’’حکومت کی اس جانب پہلے تو قطعی توجہ نہ تھی، لیکن ابھی ایک ماہ قبل سیکریٹری اوقاف مزار کا دورہ کرچکے ہیں‘‘۔ ان کے دورے کا کیا مقصد تھا؟ اس پر زاہد کا کہنا تھا ’’وہ اس مزارکا انتظام و انصرام شاید اوقاف کے کنٹرول میں لانا چاہتے ہیں‘‘۔ محمد زمان کھوکھرکا اپنی کتاب گجرات تاریخ کے آئینے میں شمس الدین گلیانوی کے بارے میں لکھنا ہے کہ ’’تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے پہلے انسان کی نشانیاں اسی خطے میں پائی جاتی ہیں۔ جس کی ایک دلیل حضرت حامؑ کی قبر مبارکہ ہے۔ حضرت نوحؑ کے تین بیٹے تھے۔ حام، سام اور یافث۔ ان میں حضرت حامؑ کی نسل برصغیر پاک و ہند میں پھیلی۔ حضرت حامؑ کے مزار کی نشاندہی حافظ شمس الدین گلیانوی نے کی۔ اس کی چار دیواری پتھروں سے تعمیر کی اور پھر سو برس بعد اس کی دوبارہ تزئین نو کی گئی۔ حافظ شمس الدین گلیانوی کو کشف قبور کے علم پر عبور حاصل تھا۔ انہوں نے برصغیر میں کشمیر کے علاوہ گجرات، سیالکوٹ، گوجرانولہ، جہلم، پشاور، لاہور اور ملتان میں بھی نوگز لمبی قبروں کی نشان دہی کی اور علم کشف القبور کے ذریعے، ان کے نام، شجرہ نسب اور سلسلہ عہدکا ذکر اپنی قلمی کتاب ’’انوار الشمس‘‘ میں کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں کشف قبور کے علم کی دولت سے مالامال کیا تھا۔ جہاں سے گزرتے قبور کی نشان دہی کردیتے۔ اگر کوئی ان کی بات کو تسلیم نہ کرتا تو اسے فوراً قبرستان لے جاتے اور اس کے باپ دادا کی قبر پر جاکر صاحب قبر کا حلیہ اور اس کے چند اچھے برے کارنامے بیان کردیتے‘‘۔
طوفان نوح کا ذکر آریائوں کی قدیم مذہبی کتب میں بھی آیا ہے اور اس حوالے سے ثابت ہوتا ہے کہ اوائل ہی میں حضرت نوحؑ کی اولاد برصغیر پاک و ہند میں پھیل گئی تھی اور یہاں خوب پھلی پھولی۔ تاریخ گجرات میں زمان ایڈووکیٹ حضرت حامؑ کی قبر کے حوالے سے ایک اور جگہ لکھتے ہیں ’’گجرات کے باشندے حضرت نوحؑ کے بیٹے حضرت حامؑ کی اولاد ہیں۔ حضرت حامؑ کا مزار ضلع جہلم، پنڈ دادن خان کے قریب قصبہ روال میں ہے۔ روال کے قریب میٹھے پانی کا چشمہ ہے۔ مزار کی لمبائی 26 گز ہے۔ حضرت حامؑ کے بیٹے بربر کا مزار جھمٹ نزد کڑیانوالہ، گجرات کے قریب برساتی نالہ میں ہے۔ ان کے دوسرے بیٹے کوش کا مزار چک کمالیہ ضلع گجرات میں ہے۔ ان کے تیسرے بیٹے قنبط کا مزار لڑھکی ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں ہے۔ ان قبروں کی لمبائی نو گز ہے‘‘۔
اس مزار کے احاطے میں ایک کمرہ نما مسجد بھی قائم ہے ، جو عین سرہانے کے دائیں جانب تعمیر کی گئی ہے۔ اس علاقے کا سب سے بڑا حسن اس کی مسحور کن خاموشی اور ٹھنڈے پانی کے چشمے ہیں، جو پورے علاقے کو سیراب کرتے ہیں۔ یہ چشمے کوہ سلیمان سے نکل رہے ہیں۔ علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ صدیوں سے بہہ رہے ہیں۔ انہیں چشموں میں ایک چشمہ اس مزار سے ایک گھنٹے کی مسافت پر اسی پہاڑی سلسلے سے نکلتا ہے جسے ’’پیر دا کھارا المعروف پیر کھارا شریف‘‘ کہتے ہیں۔ اگرچہ حضرت حامؑ کی قبر کے حوالے سے تاریخی طور پرکوئی ثبوت موجود نہیں ہے اور اس کا ثبوت فقط یہی ہے کہ علم کشف القبور کے تحت حافظ شمس الدین گلیانوی نے اس کی نشان دہی کی۔ اس لیے بعض لوگوں کے بقول اس میں کچھ حقیقت نہیں۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ ضعیف الاعتقادی کے تحت لوگوں نے اسے حضرت حامؑ کی قبر بنا دیا ہے، کیونکہ قرآن و حدیث سے کہیں ثابت نہیں ہے کہ حضرت حامؑ ہندوستان تشریف لائے۔ لیکن لوگوں کا اس قبر پر آنا، اپنے حق میں دعا کرنا اور اس کے بعد فیض حاصل کرنا بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس تمام کے باوجود آخر میں انسان یہی کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ بے شک غیب کا علم اللہ پاک کے پاس ہے۔ اور حضرت حامؑ کی قبر کے بارے میں جو کچھ کہا گیا، اس میں کتنی حقیقت ہے، یہ بھی اللہ جانتا ہے۔ اور ہم یہی کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ واللہ اعلم بالصواب۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More