سابق حکومتوں نے چندوں کے علاوہ کوئی طریقہ چھوڑا ہی نہیں- وزیر اطلاعات

0

اسلام آباد ( خبرایجنسیاں ) وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہماری حکومت کی ایک ماہ کی کارکردگی سابق حکومت کےایک سالہ کارکردگی سے بہتر ہے،ہمیں کہا جارہا ہے کہ چندے پر ملک نہ چلائیں تو ناقدین ہمیں آگے جانے کا راستہ بھی بتا دیں،سابق حکومتوں نے چندوں کے علاوہ کوئی طریقہ چھوڑا ہی نہیں،معیشت کی صورتحال کے ذمہ دار سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار اور کمپنی ہیں،سابق دور میں مہنگے ترین قرضے لے کر کھیلنے کے لیے کھلونے بنائے گئے، پنجاب میں میٹرو لگائی گئی اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے صرف 10برسوں میں 110کھرب روپے خرچ کیے اورنج ٹرین کو پٹری پر رکھنے کیلئے ہر سال 20 ارب روپے کی ضرورت ہوگی۔ریڈیو پاکستان میں 700افراد کنٹریکٹ پر بھرتی کیے گئے، تنخواہوں اور مستقل ملازمین کی تنخواہوں کے پیسے نہیں ۔خزانے میں پیسے نہیں تو کیا مزید قرضہ لیں؟ پھر باہر جائیں اور قرضہ مانگیں؟ نوید قمراور لیڈر آف اپوزیشن کی چارٹر آف اکانومی کے حوالے سے بہت اچھی تجویز ہے ۔ اس کو ضرور آگے بڑھنا چاہیے ۔ منگل کو قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل پر بحث کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے اپنی تقریر کا آغاز جان پرکن کی کتاب کے اقتباس سے کرتے ہوئے کہا کہ اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک امپائر تیسری دنیا کے لئے اقتصادی نظام بناتے ہیں‘ جب ایسٹ انڈیا کمپنی کا سفیر مغل بادشاہ اکبر کے دربار میں آیا تھا تو اس کے پاس ایک پورا اقتصادی منصوبہ موجود تھا کہ کس طرح ہندوستان کے وسائل پر قابض ہونا ہے‘ بالکل اسی طرح جب 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی تھی تو ان کے پاس بھی ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسانے کا مکمل ایجنڈا موجود تھا۔ ان تجربہ کاروں کی حکومت نے جب حکومت سنبھالی تو انہوں نے پاکستان کے ساتھ وہی کیا جو ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں کیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہمارے بچے اور ان کے بچے قرضے ادا کرتے جائیں ۔ انہوں نے جس طرح کی حکومت کی ہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے۔ بجٹ خسارہ 7.2فیصد تھا‘ ہمارے اخراجات 2780ارب روپے زائد تھے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں حسابات جاریہ کے خسارے میں پانچ فیصد اضافہ ہوا۔ زرمبادلہ کے ذخائر جو ملکی اقتصادیات کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی حالت سب کے سامنے ہے۔ اس وقت ہمارے پاس ڈیڑھ ماہ کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ یہ وہ حالات تھے جس میں تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے۔ 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے قرضوں کا حجم 6ٹریلین روپے تھا۔ 2013ء میں یہ 13ٹریلین تھے۔ بزرجمہروں اور ارسطو کی حکومت جب ختم ہوگئی تو قرضوں کا حجم 28ٹریلین تک پہنچ چکا تھا۔ کیا اس کی ذمہ دار 28دن کی حکومت یا وہ لوگ ہیں جنہوں نے ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسا دیا۔ انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اس بات کو یقینی بنایا کہ قرضوں کو اس سطح تک پہنچایا جائے جس سے ملک مشکلات کا شکار ہو۔ اس پالیسی کے نتیجے میں چند لوگ ارب پتی ہوگئے۔ ایسے لوگوں نے ایون فیلڈ میں رہائش گاہیں لے لیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے اقتصادی مسائل کے ذمہ دار اسحاق ڈار اینڈ کمپنی ہیں جن کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اسحاق ڈار عدالتوں کو مطلوب تھے اس کے باوجود ان کو باہر بھجوا دیا گیا اور اب وہ نہیں آرہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے قرضے لے کر کھیل کے لئے کھلونے بنائے۔ پنجاب میں میٹرو بنائی گئیں۔ صرف دس برسوں میں شہباز شریف نے 11ٹریلین روپے خرچ کئے ہیں۔ آج اسلام آباد ‘ لاہور اور ملتان میں میٹرو تو بن گئی ہیں ‘ پنجاب حکومت کو ان بسوں کو چلانے کے لئے آٹھ ارب روپے چاہئیں۔ اورنج ٹرین لائن پر 300ارب روپے خرچ کئے گئے لیکن اس کی ادائیگی ہماری آنے والی نسلیں کریں گی۔ میٹرو ٹرین کو چلانے کے لئے سالانہ 20ارب روپے درکار ہیں۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان کی معیشت کے ساتھ مجرمانہ طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا۔ اداروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ ریڈیو پاکستان میں 700 لوگ کنٹریکٹ پر کام کر رہے ہیں‘ ان کی تنخواہوں کے لئے پیسے نہیں ہیں‘ 20کروڑ روپے پنشن کی مد میں بقایا جات ہیں‘ اس کو سدھارنے کی اجازت نہیں ہے۔ 700لوگوں کو تو نوکریوں سے نہیں نکالا جاسکتا لیکن اگر وسائل پیدا نہ کئے جائیں تو ان کے لئے تنخواہ کہاں سے دی جائے۔ کیا ملک کو اس طرح چلایا جائے جو ماضی کی ”تجربہ کار “ حکومتیں چلاتی آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق اصلاحات متعارف کرا رہی ہے۔ ہمارا وژن یہ ہے کہ امیر لوگ سبسڈی نہ لیں اور غریبوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے۔ گیس کی قیمتوں میں اضافہ عام آدمی کے لئے نہیں ہے۔ پچاس ایم ایم ایف تک گیس استعمال کرنے والے گیس صارفین کے لئے 10فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر کی جانب سے چارٹر آف اکانومی کی تجویز کو سراہا اور کہا کہ یہ اچھی تجویز ہے اور اس پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ معیشت کی خرابی کے جو ذمہ داران ہیں ان کی حمایت ختم ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سارک کانفرنس کے لئے 98کروڑ روپے کی مالیت سے 33قیمتی گاڑیاں خریدی گئیں حالانکہ یہ کانفرنس منعقد بھی نہیں ہوئی۔ ان گاڑیوں پر 33کروڑ روپے مرمت کی مد میں خرچ ہوئے اس کے باوجود بھی تنقید کی جارہی ہے کہ گاڑیاں نیلام نہ کریں۔ وزیراعظم عمران خان نے اب تک جو اقدامات کئے ہیں ماضی کے کسی وزیراعظم نے اس طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وزیراعظم 11سو کنال کا وزیراعظم چھوڑ کر تین بیڈ روم کی سٹاف کالونی میں قیام پذیر ہیں۔ وہ صوابدیدی فنڈز سے دستبردار ہوگئے۔ ماضی میں نواز شریف نے تھر میں بھی ایئرپورٹ کا افتتاح کیا جہاں آبادی ہی نہیں ہے۔ اسی طرح بنوں کے دورے کے موقع پر بھی انہوں نے ایئرپورٹ کا اعلان کیا۔ ایئرپورٹ اور موٹرویز کے اعلانات انہوں نے اس طرح کئے جس طرح سٹیپ سیلز کی گولیاں بانٹی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تنقید کرنے والوں کی حکومت کے پاس کوئی اقتصادی وژن نہیں تھا اور نہ ہی کوئی سوچ تھی جس محکمہ میں بھی آپ جائیں تو آگے سے کہا جاتا ہے کہ یہاں مسلم لیگ (ن) کے ورکر ہیں۔ دفتر آتے نہیں ایک ایک خاندان کے سات سات لوگ بھرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے عوام سے جس انقلاب اور تبدیلی کا وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا جائے گا۔ ہماری ایک ایک ماہ کی کارکردگی ان کی ایک سال کی کارکردگی سے بہتر ہے۔ ضمنی مالیاتی بل 2018ء پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے اسلم بھوتانی نے کہا کہ حکومت نے ضرورت کے تحت نظرثانی شدہ بجٹ پیش کیا ہے۔ ترقیاتی بجٹ پر لگائی جانے والی 225ارب کی کٹوتی سے بلوچستان کو مستثنیٰ قرار دیا جائے۔متحدہ مجلس عمل کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ اختر علی نے کہا کہ اسد عمر نے ضمنی مالیاتی بل جب پیش کیا اس کے ابتدائیہ سے مکمل اتفاق کرتی ہوں کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ غریب غریب تر اور امیر امیر ہوتا جارہا ہے اس حقیقت سے کوئی بھی پاکستانی انکار نہیں کر سکتا۔ تاہم سارا الزام سابقہ حکومتوں پر ڈالا جارہا ہے۔ اگر ان کو کسی بات پر اعتراض ہے تو اصلاحات بھی لے کر آئیں تاکہ ان اصلاحات کے ثمرات عوام تک پہنچیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More