پاک فوج-حکومت کے ایک پیج پر ہونے سے بھارت پریشان

0

نئی دلی(امت نیوز)پاک فوج اور حکومت کے ایک پیج پر ہونے سے بھارت پریشان ہو گیا ہے ۔اہم شخصیات و بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے قریبی میڈیااداروں نے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ممکنہ عزائم اور پاکستان کی معروضی سیاسی صورتحال کا تجزیہ شروع کر دیا ہے ۔بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی جانب سے نئی دلی اور ممبئی میں اخبار کے صرف ایک صحافی و بعض چنیدہ قارئین(خفیہ اداروں و فوجی حکام) کیلئے پاکستان افیئرز کے بھارتی ماہر و کابینہ ڈویژن کے سیکریٹری کے عہدےسے ریٹائرڈ ہونے والے تلک دیوا شرکے لیکچرز کا اہتمام کیا گیا ۔اس بات کے تعین کی کوشش کی گئی حقیقی عمران خان مرکزیت پسند ہے ، لبرل ہے یا وہ طالبان خان ہے۔عمران خان و پاک فوج ایک ہی صفحے پر کیوں ہیں ؟ ۔ تلک دیوا شر نے زور دیا کہ عمران خان و پاک فوج کا ایک صفحے و کتاب پر موجود ہونا بھارت کیلئے دو دھاری تلوار ثابت ہوسکتا ہے۔دونوں بھارت کے معاملے پر ہی ایک پیج پر ہیں ۔تلک دیوا شر کا کہنا تھا کہ 2002 میں عمران خان کو مشرف نے کابینہ میں شامل نہ ہونے پر نتائج بھگتنے کی دھمکی دی تھی ۔اسی وجہ سے 2008کے انتخابات میں عمران خان کو ایک نشست ملی،اس پر عمران خان کو اندازہ ہوا کہ وزیر اعظم بننے کیلئے اسٹیبلشمنٹ سےسمجھوتہ ضروری ہے۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ پاک فوج نواز شریف کو اقتدار میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔آصف زرداری نے فوج کیخلاف سخت بیان دیے تھے۔پنجاب میں پی پی نہیں تھی اور ایسی صورت میں عمران خان ہی واحد آپشن رہ گئے تھے۔کم ازکم عمران خان کو2سال کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔تلک دیوا شر کا کہنا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ عمران خان بھی خود کو نہیں جانتے۔مختلف لوگوں کیلئے وہ مختلف ہیں۔نظریے سے زیادہ عمران کے دور اقتدار میں 3 پہلو نمایاں رہیں گے۔پہلی بات عمران اسلامی فلاحی ریاست کے تصور پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ سیاسی نظام کی جگہ مساوات ،جمہوریت اور اخلاقیات ،شرعی قوانین، عدل ،رحم دلی و فلاح کے تصور کو نافذ کرنا چاہتے ہیں۔فرقہ واریت کے شکار پاکستان میں یہ تصور سادہ لوحی و خوش فہمی ہے۔عمران کا دوسرا اہم پہلو کرپشن کیخلاف جدوجہد ہے لیکن اقتدار میں آنے کیلئے عمران خان نے اضلاع میں با اثر اور نام نہاد الیکٹ ایبل شخصیات کو چنا جو بدعنوانی سے لتھڑے ہوئے ہیں ،ایسے میں کرپشن کے خلاف عمران کی قانونی لڑائی بہت دلچسپ ہوگی۔تیسرا سب سے اہم پہلو عمران کی شخصیت،عزم اور ہے ۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔عمران نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ وہ مقابلے کی صلاحیت رکھتا ہے ، وہ مختلف معاملات پر لڑ سکتے ہیں اور وہ کامیاب بھی رہیں گے۔1971 کے جون میں پہلے ٹیسٹ کے بعد عمران خان کو ڈراپ کر دیا گیا تھا ، اس موقع پر اخبارات نے لکھا تھا کہ عمران خان اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ عمران خان ہے ۔1974 میں کرکٹ ٹیم کا حصہ بننے کے بعد اس کا کیرئیر تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔عمران خان نے جب شوکت خانم اسپتال بنانے کا آغاز کیا تو لوگوں نے اس کا مذاق اڑایا کہ مفت اسپتال نہیں چل سکتا ، لیکن عمران نے یہ کر دکھایا کہ وہ شاندار قوت ارادی اور عزم کا مالک ہے اور یہ رویہ تکبر کی جانب لے جاتا ہے اور یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ سب جانتا ہے کہ کیا ہونا چاہئے اور وہ ناممکن کو بھی ممکن کرسکتا ہے ۔اسی رویے کی وجہ سے پاکستان کی سیاست میں جہادی عناصر اور ان کے حامی بھی الیکشن لڑے ۔ ہارنے کے باوجود وہ آج ملک کے مرکزی سیاستدانوں میں شامل ہیں۔برسوں تک انتخابات کو غیر اسلامی قرار دینے والے حافظ محمد سعید نے اپنے گروپ کو مرکزی دھارے میں لانے کیلئے اپنے موقف کو ہی تبدیل کر دیا ہے ۔پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر بریلوی مسلک سے تعلق رکھنے والی تحریک لبیک پاکستان کا ابھرنا انتہائی اہم ہے جسے سندھ اسمبلی میں 2نشستوں پر کامیابی مل گئی ہے ۔70 اور 80 کی دہائی میں بریلوی جماعت جمعیت علمائے پاکستان کافی مضبوط جماعت تھی تاہم افغان جہاد کی وجہ سے یہ زوال کا شکار ہو گئی کیونکہ جہاد افغانستان نے دیوبندی اور اہلحدیث مسالک کو مضبوط کر دیا تھا ۔ٹی ایل پی کی شکل میں بریلوی ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ۔یہ جماعت 22لاکھ ووٹ لے کر ملک کی 5ویں بڑی جماعت بن چکی ہے اور اس نے پنجاب میں ایم ایم اے میں شامل جماعتوں کے مقابلے میں کافی زیادہ ووٹ لئے ۔کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی توجہ دیوبندیوں کی جگہ بریلوی مسلک والوں پر ہے ۔ بھارتی ماہر نے کہا کہ انتہا پسند دیوبندی،اہلحدیث ہوں یا بریلوی ، کوئی بھی اچھا نہیں ہے ۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More