الحکما احترام الدولہ حکیم محمد احسن اللہ خان بہادر کہنے کو تو محض خانساماں تھے، اور اپنا دفتر ہمیشہ عمارت خانسامانی ہی میں قائم رکھتے تھے، وزارت عظمیٰ یا میر بخشی کی طرف وہ کبھی نظر نہ آتے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کار ہائے سلطنت میں وہ جتنا دخل رکھتے تھے، اتنا ولی عہدد اول یا وزیر اعظم کو بھی حاصل نہ تھا۔ کچھ تو اس بنا پر کہ وہ بادشاہ کے معالج خاص تھے، اور کچھ اس وجہ سے کہ ان کی مدبرانہ صفات اور باوزن بات کے باعث بادشاہ کے یہاں ان کی ہر رائے قبول ہوتی تھی، حکیم احسن اللہ خان کے مرتبے بہت تھے۔ اندرون حویلی البتہ ملکہ دوراں نواب زینت محل کے آگے کسی کی کم ہی چلتی تھی۔ فرق بہرحال یہ تھا کہ نواب زینت محل ہوں یا خواجہ سرا محبوب علی خان، رعایا میں محبوبیت اور مقبولیت حکیم احسن اللہ خان کے ہی حصے میں آئی تھی۔
مغل بادشاہوں کا دستور تھا کہ سرکاری دعوتوں کے سوا ان کے ساتھے کھانے میں اہل خاندان، اور اہل خاندان میں بھی اقربا کے سوا کوئی شریک نہ ہوتا تھا۔ اور شاہی عورتیں تو بالکل ہی تخلیے میں کھانا کھاتی تھیں۔ پردے کے اس اہتمام کے باوجود بادشاہوں کا کھانے کا موقع عجب چہل پہل، گہما گہمی اور تھوڑی بہت ہنسی چہل اور بہت کچھ رشک، بلکہ حسد کا موقع ہوتا تھا۔ کھانے کے بعد بادشاہ کبھی کبھی کسی بہت اہم معاملے پر گفتگو کرنے، یا عرضداشت سننے کے لئے کسی بہت ہی مقرب امیر یا منصب دار کو گلوری
میں شریک کرتا تھا۔ ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ثانی نے باایں ہمہ کہ ان کے وسائل محدود اور ضرورتیں بے حد وسیع تھیں، اپنے پیش روؤں کے طور طریقے باقی رکھے تھے۔ آج کے دن بھی ایسا ہوا کہ معمول کا دربار ختم کر کے بادشاہ اٹھ کھڑے ہوئے تو جسولنی نے اشارہ ابرو سے سمجھ لیا کہ اندرون محل تسبیح خانے کا قصد ہے۔ اس نے آواز لگائی: ’’خبردار! پیر و مرشد، حضور عالی، بادشاہ سلامت، عمر دراز‘‘۔
ادھر بادشاہ کا قدم تخت سے اتر کر آگے آیا کہ جسولنی تیز پا آگے بڑھی اور ہر چند قدم پر کڑک دار سروں میں سب کو مطلع کرتی چلی: ’’جہاں پناہ، بادشاہ سلامت۔ مہابلی، بادشاہ سلامت۔ خبر دار، پیرو مرشد، حضور عالی۔ بادشاہ سلامت عمر دراز۔ عالم پناہ، بادشاہ سلامت، مہابلی عمر دراز، ادب سے مجرا کرو‘‘۔
اندر تمام بیگمات تعظیم کے لئے سر و قد کھڑی ہوئیں۔ تخت کے پیچھے خواجہ سرا مورچھل ہلا رہا ہے، بادشاہ آکر تخت پر جلوہ فرما ہوئے۔ بیگمات اور شہزادیوں نے اپنے اپنے رتبے کے مطابق دور یا نزدیک سے سلام کیا۔ زنانہ تسلیمات کے ختم ہوتے ہوتے خاصے والیوں نے سات گز لمبا، تین گز چوڑا چمڑا بچھایا۔ اس پر ایک سفید دستر خوان بچھایا اور پھر اس دسترخوان کے بالکل بیچ میں دو گز لمبی، ڈیڑھ گز چوڑی اور چھ گرہ اونچی ایک چوکی رکھی۔ اس چوکی پر پھر ایک چمڑا اور سفید دسترخوان بچھا کر بے شمار کھانے سجائے کہ سب مہربند خوانوں میں اور خوان پوشوں سے ڈھکے ہوئے تھے۔ کھانوں پر سونے چاندی کے ورق جگمگا کر بہار دے رہے ہیں۔ مشک، زعفران، عنبر، گلاب اور کیوڑے کی بہت ہلکی پھواریں ہو رہی ہیں۔ دائیں جانب کی ایک خواص نے، کہ اس کام کے لئے مقرر تھی، بسم اللہ کہہ کر پہلا نوالہ توڑا اور بادشاہ کے منہ میں دیا۔ ادھر لقمہ اٹھا، ادھر چوبدار پکارا ’’خاصہ مبارک‘‘۔ اس آواز کے بلند ہوتے ہی باہر بھی دیگوں، لگنوں اور دیگچوں کے منہ کھل گئے اور روز کے آنے جانے والوں کے علاوہ اتفاقیہ آنے والے مسافر، حاجت مند، بھوکے، سب نے چھک کر کھایا اور موسم کے اعتبار سے پیٹ بھر کے شربت پیا۔
خاصہ ختم ہوتے ہی باہر سے دعاؤں کی آوازیں بلند ہوئیں ’’مہابلی کی عمر دراز، پیر و مرشد کا سایہ سلامت، اللہ ہمارے بادشاہ جمجاہ کو ہمارے سروں پر قائم رکھے‘‘۔
خاص بردارنی نے مہابلی کی خدمت میں گلوریوں کے خاصدان، ناگردان رکھے۔ ہر گلوری سونے کے ورق میں لپٹی ہوئی، پان کی تہوں کو برابر رکھنے کے لئے ہر گلوری میں باریک سی چاندی کی سلائی پروئی ہوئی، جہاں پناہ جس گلوری کو دست مبارک سے اٹھاتے، اس کی نقرئی سلائی خاص بردارنی کو بخش دیتے۔ ادھر گلوری منہ میں رکھی گئی کہ بھنڈے بردارنی نے حضور کی خدمت میں بھنڈا حاضر کیا۔ تازہ، معطر، ببول کے کوئلوں کے انگاروں کی چمک سنہری رو پہلی چلم پر چاندی کے چنبل پوش کے پیچھے سے یاقوت احمر کی طرح چمکتی ہوئی، سونے کی جڑاؤ مہنال، چارگز کے فتح پیچ (آج کی زبان میں پیچوان) پر ربگین ریشم کے دھاگے، چاندی اور سونے کی تارکشی، پیچ پورے کا پورا گلاب جل میں بسا ہوا، اس کی لطیف خوشبو اور سیب کے گڑاکو کی تلخ اور بھینی خوشبو مل کر عجب بہار پیدا کر رہی تھیں۔ سونے چاندی کا گنگا جمنی منقش حقہ (آج کی زبان میں فرشی) چاندی کے بڑے سے طشت میں مضبوط جمایا ہوا۔ بھنڈا کیا تھا، خوشیو اور گرمی اور نقش ورنگ کا نگار خانہ تھا۔
جہاں پناہ جب تک بھنڈے کے کش لیتے رہے، مورچھل بردار اور پنکھا پردار ذرا دور دور ہٹ گئے کہ مبادا بادزن کا کوئی جھونکا چلم سے کسی اخگر نادان کو اپنی جگہ سے جست کرنے کی جرأت عطا کردے۔ نواب زینت محل صاحب کا بھنڈا الگ ان کی خدمت میں حاضر کیا گیا۔ بہت ہی خاص موقعوں پر مہابلی اپنے بھنڈے کی مہنال کسی بیگم کو بطور اولوش عنایت کرتے، ورنہ کھانے کے بعد کی محفلوں میں نواب زینت محل کے سوا کسی کو جہان پناہ کے حضور بھنڈے سے لطف اندوز ہونے کی اجازت نہ تھی۔ نواب زینت محل کے دل میں تھی کہ جہاں پناہ بھنڈے سے فارغ ہولیں تو اس سے پہلے کہ وہ آرام کے لئے حمام میں تشریف لے جائیں، اپنے چہیتے بیٹے مرزا جواں بخت بہادر کی پانچویں سالگرہ کے بارے میں کچھ عرض کریں۔ حمام میں بیگمات شاہی کو عموماً باریابی نہ ملتی تھی۔ حویلی مبارک کا حمام کوئی نہانے دھونے کا ایوان یا غسل خانہ نہ تھا۔ وہ ایک مکمل عمارت تھی، جو اپنے ہی قطعہ زمین پر بنی ہوئی تھی۔ اسے سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں سرد رکھا جاتا تھا۔ بادشاہ کے ٹھہرنے اور آرام کرنے کا ایوان بیچ میں تھا اور اس کے چاروں طرف دو مدور راہداریاں تھیں، جن میں حسب موسم ٹھنڈی یا گرم نہریں اور فوارے رواں رہتے تھے۔ بیچ میں کئی بڑے بڑے حوض جن میں موسم کے اعتبار سے خوشبودار پانی بھرا رہتا تھا۔ جھروکوں، دریچوں اور رہداریوں کی بناوٹ ایسی تھی کہ کیسا ہی حبس بھرا یا بے موسم ہو، لیکن ان میں ہلکی ہلکی ہوا ہر وقت بہتی تھی اور ساری عمارت میں لطیف خوشبوؤں کی لپٹیں آتی تھیں۔ عمارت کے دو درجے تھے۔ وہ درجہ جو دریائے جمنا کے رخ پر تھا اسے سرد حمام، اور دوسرا موتی مسجد کے رخ پر تھا اسے گرم حمام کہتے تھے۔
حمام دراصل بہت خاص شاہی ملاقاتوں کی جگہ تھا (مثلاً اورنگ زیب نے شیوا جی کو حمام میں شرف باریابی بخشا تھا)، یا پھر بادشاہ اسے اپنے لئے تخلیہ اور آرام، مراقبہ اور تفکر کی جگہ کے طور پر استعمال کرتا تھا۔ اس دن بھنڈے کا دور غیر متوقع طور پر کچھ جلد ختم ہوا اور جہاں پناہ کسی کو لب کشائی کا کچھ موقع دیئے بغیر اٹھ کھڑے ہوئے۔ جسولنی نے تیزی سے آگے بڑھ کر آواز لگائی: ’’خبردار۔ ادب سے مجرا کرو۔ پیرو مرشد بادشاہ سلامت‘‘۔
اتنی دیر میں جسولنی اور دیگر خواصوں نے قیاس سے سمجھ لیا کہ بادشاہ کا رخ حمام کی طرف ہے۔ کئی صدائیں بلند ہوئیں: ’’حمام مبارک۔ مہابلی کو سرد و گرم آرام نصیب ہو‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post