عمران خان نے قوم پرستوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے

0

امت رپورٹ
وزیراعظم عمران خان نے قوم پرستوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کی اتحادی بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل اور سندھ و بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں کے دبائو پر عمران خان بنگالیوں اور افغانیوں کو شہریت دینے کا معاملہ پارلیمنٹ میں لے جانے پر مجبور ہوئے۔ یاد رہے کہ 16 ستمبر کو کراچی میں ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈز جمع کرنے کی تقریب سے خطاب کے دوران وزیراعظم نے کراچی میں مقیم بنگالیوں کو خوش خبری سناتے ہوئے کہا تھا کہ کراچی میں برسوں سے مقیم بنگالیوں کو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ دیں گے۔ جبکہ پاکستان میں پیدا ہونے والے افغانیوں کو بھی پاکستانی پاسپورٹ دیں گے۔ اس اعلان پر ایک طرف پاکستان میں مستقل قیام کے خواہش مند افغانیوں اور بنگالیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تو دوسری جانب سندھ اور بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے اس کی شدید مخالفت شروع کردی۔ خصوصاً تحریک انصاف کے اتحادی اختر مینگل نے اسمبلی میں بہت شور مچایا اور اپوزیشن میں بیٹھنے کی دھمکی دے ڈالی۔ جس کے بعد جہانگیر ترین اختر مینگل کو منانے کیلئے ان کے گھر پہنچ گئے۔ ان کے ساتھ وزیر دفاع پرویز خٹک اور اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بھی تھے۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے اختر مینگل کو یقین دلایا کہ یہ معاملہ پارلیمنٹ میں زیر بحث آئے گا تو ہی کچھ فیصلہ ہوگا۔ لیکن اختر مینگل نے کہا کہ وزیراعظم نے کراچی میں ایک بیان دیا ہے کہ افغان مہاجرین اور بنگالیوں کو شناختی کارڈ اور شہریت دی جا ئے گی۔ جب وزیراعظم اعلان کرتا ہے تو اسے ریاست کی پالیسی تصور کیا جا تا ہے۔ یہ بلوچستان کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے ملک کا مسئلہ ہے۔ ہمارے ساتھ حکومت نے 6 نکاتی معاہدہ کیا تھا۔ جس میں ایک نکتہ یہ تھا کہ افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجا جائے گا۔ اگر ایک نکتہ کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو ہم پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کیا کریں گے۔ بعد ازاں منگل کے روز اختر مینگل نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور ان سے افغان مہاجرین کو شہریت دینے کے بیان پر تحفظات کا اظہارکیا۔ انہوں نے عمران خان کو پی ٹی آئی کی حمایت کے عوض اپنے 6 نکات کی یاد دہانی کرائی، جس میں افغان مہاجرین کے وطن واپسی کا نکتہ بھی شامل ہے۔ جس پر وزیراعظم نے اس حوالے سے ان کے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ واضح رہے کہ سردار اختر مینگل نے بنگالیوں اور افغانیوں کو شہریت دینے کے اعلان کیخلاف اپنی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ انہیں صرف بلوچستان میں افغان مہاجرین کو شہریت ملنے پر اعتراض ہے۔ جبکہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے سندھ کے وزیر بلدیات سعید غنی نے طعنہ دیا کہ بنی گالا کو بنگالیوں کیلئے کھول دیں۔ حالانکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ماضی میں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی حکومتوں نے بھی کراچی میں مقیم بنگالی اور برمی باشندوں کو شہریت دینے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن یہ دونوں بڑی جماعتیں بھی قوم پرستوں کی شدید مخالفت کی وجہ سے یہ کام نہیں کرسکی تھیں۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے بنگالی اور افغان شہریوں کو پاکستانی شناخت دینے کے اعلان پر سندھی اور بلوچ قوم پرست جماعتوں نے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا ہے۔ جبکہ پشتون قوم پرست جماعتیں کسی حد تک اس اقدام کی حمایتی ہیں۔ تحریک انصاف کے ذرائع کا کہنا ہے وزیر اعظم نے ابھی افغان اور بنگالی باشندوں کو شہریت دینے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا، بلکہ تجاویز مانگی ہیں۔ وزیر اعظم نے یہ بات اس لئے کی تاکہ اس پر بحث کی جائے۔ تاہم فیصلہ سب کی مشاورت سے کیا جائے گا۔ ایک سوال پر ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کا مینگل صاحب کی پارٹی سے معاہدہ ہوا ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جا ئے گا۔ لیکن پاکستانی اور عالمی قانون یہ کہتا ہے کہ جو بچے یہاں پیدا ہوئے ہیں، ان کو شہریت کا حق بنتا ہے۔ امریکہ سمیت کئی ملکوں میں قانون ہے کہ وہاں پیدا ہونے والے بچوں کو شہریت دی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے ذرائع نے بتایا کہ ماضی میں یہ شکایات بھی سامنے آئی ہیں کہ ایک قوم پرست پشتون جماعت کے لیڈر نے اپنے حلقے میں افغان مہاجرین کے ووٹ بنوا کر کامیابی حاصل کی تھی، لیکن اس پر کسی بلوچ قوم پرست جماعت نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ ناجائز طور یہ لوگ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوا لیتے ہیں اور ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔ ہم اگر جانچ پڑتال کرکے ان کو شہریت دے دیں تو اس میں کیا نقصان ہے۔ افغان مہاجرین کو نہ ملک سے دھکیلا جا سکتا ہے اور نہ انہیں یہ گنتی کے قوم پرست قبول کرنے کو تیار ہیں۔ ان لوگوں کو اگر پاکستانی شہریت مل جاتی ہے تو یہ ملک کیلئے مفید ثابت ہوں گے۔ ذرائع کے بقول کہ سندھی قوم پرستوں کو خوف ہے کہ بنگالیوں اور برمیوں کو شہریت دینے سے صوبے میں ڈیموگرافی پر اثر پڑے گا اور شہری و دیہی سندھ میں ایک تفاوت پیدا ہوگا۔ اسی طرح بلوچ قوم پرستوں کو خوف ہے کہ بلوچستان میں افغان مہاجرین کو شہریت ملنے سے صوبے کی ڈیموگرافی میں تبدیلی واقع ہوگی، کیونکہ افغان مہاجرین پشتون آبادی کا حصہ بنیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس طرح شہریت دینے سے عملی طور پر ریاست پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ کیونکہ اس وقت بھی شہریت سے محروم لوگ اس ملک کی حدود میں رہ رہے ہیں اور ملکی وسائل استعمال کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More