سرفروش

0

عباس ثاقب
میری توقع کے عین مطابق یہ انکشاف سن کر افتخار صاحب بری طرح چونکے۔ میں نے اپنی بات دہرائی ’’جی، آپ نے درست سنا…۔ دسمبر کے مہینے میں ہندوستانی فوج گوا پر قبضہ کرنے کے لئے زمینی، فضائی اور بحری حملہ کرنے والی ہے۔ جس کا خفیہ نام کیپٹن ایس پرکاش کے مطابق ’آپریشن وجے‘ رکھا گیا ہے۔ اس آپریشن میں آئی این ایس وکرانت بھی شریک ہوگا!‘‘۔
افتخار صاحب گویا کسی خواب سے جاگے۔ ’’یہ تو واقعی دھماکا خیز انکشاف ہے۔ پرتگال451 سال سے گوا اور گرد و نواح کے علاقوں پر راج کر رہا ہے اور اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے بھرپور مزاحمت کرے گا۔ لہٰذا خوں ریز جنگ یقینی ہے۔ تاہم ہمارے لیے اصل دلچسپی کی بات یہ ہے کہ آئی این ایس وکرانت کھلے سمندر کئی سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے گوا کے ساحلوں پر پہنچے گا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’جی ہاں۔ اگر ہما را ملک آئندہ گیارہ ماہ کے دوران ایک یا زائد جدید آبدوز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تو اس سمندری بلا کو ہماری سلامتی کے لئے خطرہ بننے سے پہلے ہی غرقاب کیا جا سکتا ہے۔ یہ اطلاع فوری طور پر پاکستان پہنچائیں۔ تاکہ بلا تاخیر آبدوز کی خریداری یقینی بنائی جاسکے‘‘۔
میں نے افتخار صاحب کے چہرے کی چمک اچانک ماند پڑتے دیکھی۔ مجھے لگا کہ میری بات سے انہیں دکھ پہنچا ہے۔ قدرے توقف کے بعد انہوں نے پژمردہ لہجے میں کہا۔ ’’میں یقیناً آج ہی یہ اہم ترین اطلاع پاکستان میں اپنے اعلیٰ حکام تک پہنچادوں گا، لیکن میں نہیں سمجھتا کہ آبدوز کی ہنگامی بنیادوں پر خریداری کا کوئی امکان ہے‘‘۔
ان کی مایوس کن بات سن کر مجھے ذہنی دھچکا لگا۔ میں نے ان کے چہرے پر گہری اداسی بھانپتے ہوئے کہا۔ ’’میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا۔ وکرانت کو تباہ کرنے کا ایساشان دار موقع دوبارہ شاید پھرکبھی نہ ملے۔ اچھی خاصی مہلت ہونے کے باوجود آپ آبدوز کی خریداری کی طرف سے مایوس کیوں ہیں؟ کیا ہم اپنی سلامتی کے لئے کسی طرح بھی اتنی رقم کا بندوبست نہیں کرسکتے؟‘‘۔
اس پر انہوں نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ ’’مسئلہ مالی وسائل کی کمی نہیں، بلکہ ہماری حکومت اور قیادت کی ترجیحات کا ہے۔ ہندوستان کی بحریہ سے لاحق خطرات کے پیش نظر آبدوز کے حصول کا منصوبہ تو کئی سال پرانا ہے۔ لیکن اس کے لیے رقم مختص کرنا حکومتِ وقت کی اولین ترجیح نہیں ہے‘‘۔
میں نے حقیقی حیرانی کے ساتھ کہا۔ ’’مگر اس وقت تو ملک پر صدر جنرل ایوب کی قیادت میں فوجی حکومت قائم ہے۔ ظاہر ہے، ان سے زیادہ ملک کی سلامتی کو لاحق خطرات سے کس کو ادراک ہو سکتا ہے؟ انہیں تو آبدوزکی خریداری کے لئے کسی سول حکمران سے رقم جاری کرانے کا کٹھن مرحلہ بھی درپیش نہیں ہے‘‘۔
افتخار صاحب کے چہرے پر دکھی مسکراہٹ ابھری۔ ’’کاش معاملہ اتنا ہی سادہ ہوتا۔ تم جیسے نوجوان ہمارے ملک کا مستقبل ہیں۔ لہٰذا میں تم سے یہ باتیں چھپانا ضروری سمجھتا۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ طاقت ور بحریہ کسی بھی ملک کے دفاع کے لئے بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ملک کے قیام سے اب تک ہمارے ملک کے دفاع کے لئے بحریہ کے کردار کو اہمیت نہیں دی گئی۔ اچھا، کیا تم نے حاجی محمد صدیق چوہدری کا نام سنا ہے؟‘‘۔
میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’پاکستان نیوی کے سابق چیف وائس ایڈمرل ایچ ایم ایس چوہدری، جو شاید دو سال پہلے سبک دوش ہوئے ہیں‘‘۔
افتخار صاحب نے کہا۔ ’’ہاں، وہی۔ آپ کو شاید معلوم نہ ہو، وہ رائل انڈین نیوی سے زیر آب بحری جنگ کے خصوصی تجربے کے ساتھ پاکستانی بحریہ کا حصہ بنے تھے اور سربراہی سونپے جانے پر انہوں نے 1954ء میں برطانیہ سے آبدوز حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کی تھی۔ لیکن مالی وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ناکام رہے تھے۔ لیکن انہوں نے بحریہ کو جدید بنانے کی کوششیں مسلسل جاری رکھیں‘‘۔
افتخار صاحب غالباً خود کو پرسکون کرنے اور خیالات کو مرتب کرنے کے لئے چند لمحوں کے لئے خاموش ہوئے اور پھر بات آگے بڑھائی۔ ’’درحقیقت پاکستانی بحریہ کے پاس آج موجود برطانیہ اور امریکا سے حاصل شدہ زیادہ تر جنگی بحری جہاز ان ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ لیکن ایڈمرل چوہدری بخوبی جانتے تھے کہ آبدوز کے بغیر ملک کا بحری دفاع مستحکم نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ انہوں نے 1951ء میں کراچی شپ یارڈ میں جنگی بحری جہاز وں کے ساتھ ساتھ آبدوزیں تیار کرنے کا منصوبہ بنایا۔ لیکن جب انہوں نے سول حکومت کی وزارتِ دفاع اور وزارتِ خزانہ کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا
تو انہوں نے مالی وسائل کی کمی کا عذر کرکے سیکنڈ برطانوی اور امریکی جنگی بحری جہازوں پر اکتفا کرنے کو کہا‘‘۔
قدرے توقف کے بعد انہوں نے دھیمے لہجے میں بات آگے بڑھائی۔ ’’بالآخر فوج کے اقتدار پر براہ راست قبضے کے بعد ایڈمرل چوہدری نے پہلے صدر اسکندر مرزا کے دور میں بحریہ اور خصوصاً آبدوزوں کی خریداری کے لئے زیادہ مالی وسائل مختص کرانے کے لئے سخت جدوجہد کی۔ لیکن بدقسمتی سے بری افواج سے تعلق رکھنے والے سربراہوں نے ان کی بات پر توجہ نہیں دی۔ بلکہ جنرل ایوب نے ان کی طرف سے آبدوز کی خریداری کی کوشش کو امریکا کے ساتھ فوجی تعلقات خراب کرنے کی کوشش قرار دیا۔ جس پر دونوں میں تلخ کلامی بھی ہوئی‘‘۔
میں کسی معمول کی طرح اپنے ملک میں اقتدار کی راہداریوں میں ہونے والی ان چپقلشوں کا احوال سن رہا تھا اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مجھ پر وہ اداسی اور مایوسی غالب آتی جارہی تھی جو میں افتخار صاحب کے چہرے پر دیکھ رہا تھا۔ انہوں نے کہا۔ ’’1958ء میں جنرل ایوب کی سربراہی میں بری، بحری اور فضائی افواج کے سربراہوں کے ایک اجلاس میںگہرے سمندر میں نیوی آپریشنز کے اخراجات پر ایڈمرل چوہدری اور جنرل ایوب خان کے درمیان تلخ تکرار ہوئی اور جنرل ایوب نے صدر اسکندر مرزا کے پاس شکایت لگاتے ہوئے کہا ’ایڈمرل کے پاس ایسے دفاعی مسائل سمجھنے کے قابل دماغ ہے نہ بصیرت کہ ملک کی سلامتی کے لئے کوئی کردار ادا کرسکے‘۔ اس پر صدر اسکندرمرزا نے ایڈمرل چوہدری کو بلایا، لیکن یہ ملاقات بھی تلخی پر ختم ہوئی اور انہوں نے بحریہ کی ضروریات نظر انداز کرنے کی شکایت کے ساتھ اپنے ادارے کی سربراہی سے استعفیٰ دے دیا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More