کراچی میں بچوں کے اغوا کی وارداتوں سے شہری خوف کا شکار

0

امت رپورٹ
کراچی میں بچوں کے اغوا کی وارداتیں بڑھنے اور مختلف علاقوں میں اغوا کی کوششوں کے واقعات سے شہریوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ والدین بچوں کو خود اسکول چھوڑنے اور واپس لانے لگے ہیں۔ جبکہ بچوں کے گھر سے باہر جانے حتیٰ کہ گلی میں کھیلنے پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔ خصوصاً کچی آبادیوں اور مضافاتی بستیوں میں زیادہ خوف پایا جاتا ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا پر بچوں کے اغوا، قتل اور اغوا کی کوششوں کے حوالے سے وڈیوز اور تصاویر شیئرنگ کا سلسلہ بھی بڑھ گیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کے تحفظ کے بارے میں بہت محتاط ہوگئے ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ کراچی پولیس ایک طرف اغوا کی وارداتوں کی روک تھام میں ناکام ہوگئی ہے اور دوسری طرف مغوی بچوں کی بحفاظت بازیابی کیلئے سنجیدگی سے کوششیں نہیں کرتی۔ سہراب گوٹھ میں اغوا کے بعد قتل ہونے والے 13 سالہ ریحان کے والد بسم اللہ خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بچے کے اغوا کے بعد لاش ملنے تک ایک مہینے میں پولیس نے ریحان کو بازیاب کرانے کیلئے کوئی کارروائی نہیں کی۔ جبکہ ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کراچی پولیس کے چیف کا کہنا تھا کہ شہری بچوں کے اغوا کے واقعات پر قابو پانے میں پولیس کی مدد کریں اور اشتعال انگیزی سے گریز کریں۔ اس ضمن میں بچوں کے تحفظ کیلئے کام کرنے والی این جی اوز کا کہنا ہے تین ماہ کے دوران بچوں کے پے در پے اغوا کی وارداتیں کسی بیرونی سازش کا حصہ لگتی ہیں۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یا سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ازخود نوٹس لے کر تحقیقات کرائیں کہ ان وارداتوں کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی میں رواں سال کے دوران 146 بچے اغوا یا گمشدہ ہوئے، جن میں سے 126 مل گئے یا گھروں پر واپس آگئے۔ 20 بچے تاحال اغوا یا گمشدہ ہیں۔ تاہم گزشتہ دو ماہ کے دوران بچوں کے اغوا کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جس سے شہری خوف کا شکار ہوگئے ہیں۔ بیشتر والدین بچوں کو مدرسے اور اسکول خود چھوڑنے اور لینے جارہے ہیں۔ جبکہ بچوں کے غیرضروری طور پر گھروں سے نکلنے پر بھی پابندی لگادی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک دشمن عناصر کی جانب سے ہر تھوڑے عرصے بعد کراچی میں کسی نہ کسی حوالے سے خوف و ہراس پھیلایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل خواتین پر چھریوں سے حملے کرکے دہشت پھیلائی گئی تھی، اب بچوں کے اغوا کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ گزشتہ بدھ کو سپر ہائی وے تھانے کی حدود سے 13 سالہ ریحان کی ہڈیوں کے ڈھانچے کی صورت میں لاش ملی، جو ٹھیک ایک ماہ قبل غائب ہوا تھا۔ اسی شام سہراب گوٹھ تھانے کی حدود سے گٹر کی صفائی کے دوران 3 سالہ بچے الیاس کی لاش ملی، جو 10 روز قبل لاپتہ ہوا تھا۔ جبکہ سول لائن تھانے کی حدود سے ڈیڑھ سالہ بچی کو اغوا کرنے کی کوشش کی گئی اور لیاقت آباد میں 7 سالہ بچی ملائکہ کی گمشدگی پر پولیس اور شہریوں کی دوڑیں لگ گئیں۔ بعدازاں یہ بچی مل گئی۔ پے در پے واقعات نے شہریوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ اپنے چھوٹے بچوں حتیٰ کہ 15 سال تک کے لڑکوں کو بھی اکیلا کہیں نہیں جانے دے رہے۔ بعض علاقوں کے اسکولوں اور مدارس میں بچے کم آرہے ہیں۔ جبکہ شہریوں کی جانب سے اس صورتحال کا ذمہ دار پولیس کو قرار دیا جا رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ پولیس، بچوں کی گمشدگی کی درخواست لیکر چند دن تک ٹالتی رہتی ہے اور والدین کے دبائو پر مقدمہ درج کرکے جب کارروائی شروع کرتی ہے تو اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اس عرصے میں اغوا کار بچے کو یا تو کسی دوسرے شہر منتقل کردیتے ہیں یا مار کر کہیں پھینک دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ 3 سالہ الیاس کی لاش گٹر سے ملی تھی۔ سہراب گوٹھ تھانے کی حدود ایوب گوٹھ کے رہائشی محمد صفدر کا بیٹا الیاس 10 روز قبل گھر کے باہر سے گم ہو گیا تھا۔ اس کی گمشدگی کے بعد مقدمہ نمبر 331/18 درج ہوا، لیکن پولیس بازیاب کرانے میں ناکام رہی۔ بعدازاں گٹر کی صفائی کے دوران اس کی لاش ملی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ گٹر کا ڈھکنا ٹوٹا ہوا تھا۔ تین سالہ الیاس کھیلتے ہوئے اس میں گر گیا۔ اس طرح یہ واقعہ اتفاقی حادثہ قرار دے دیا گیا۔ ادھر سول لائن میں ڈیڑھ سالہ بچی کو اغوا کرنے والے عمران کو پکڑ کر لوگوں نے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد پولیس کے حوالے کیا تھا۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ غلط فہمی کا نتیجہ تھا۔ تفتیش جاری ہے۔ گزشتہ بدھ کو سائٹ سپرہائی وے تھانے کی حدود میں الرحمان سوسائٹی کے قریب ایک چرواہے نے جھاڑیوں میں بچے کا ڈھانچہ دیکھ کر لوگوں کو مطلع کیا۔ علاقے والوں نے شناخت کرلیا کہ یہ سہراب گوٹھ کے علاقے کے گم ہونے والے بچے کا ڈھانچہ ہے۔ 13 سالہ ریحان ساتویں کلاس کا طالب علم تھا۔ اس کے والد بسم اللہ خان نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ریحان 26 اگست کی شام کو گھر سے 150 روپے لے کر نکلا تھا۔ گھر کے قریب دکان پر بوتل پی کر اس نے رقم دی تھی۔ بعد میں وہ دو لڑکوں کے ساتھ دیکھا گیا۔ لیکن رات تک وہ گھر نہیں آیا تو اس کی تلاش شروع کی گئی اور اگلے روز تھانے میں درخواست دی۔ اس کے بعد 2 ستمبر تک اس کو شہر بھر میں ڈھونڈا گیا اور پھر مقدمہ درج کرا دیا گیا۔ لیکن اس دوران سہراب گوٹھ پولیس کی کوئی کارکردگی نظر نہیں آئی۔ ریحان کے والد نے بتایا کہ پولیس والے صرف یہ پوچھتے تھے کہ اغوا کرنے والوں نے کوئی رابطہ تو نہیں کیا۔ تم پراپرٹی کا کام کرتے ہو۔ کپڑے کا بزنس بھی ہے۔ تمہاری کسی سے دشمنی تو نہیں۔ بسم اللہ خان کا کہنا تھا کہ اگر پولیس سنجیدگی سے کوشش کرتی تو اس کے بیٹے کو زندہ بازیاب کرایا جاسکتا تھا۔ تاہم پورے ایک ماہ بعد 26 ستمبر کو الرحمان سوسائٹی میں رہنے والے ایک رشتہ دار نے فون کرکے بتایا کہ تمہارے بیٹے کا پتہ چل گیا ہے، جلدی آئو۔ جب ادھر گیا تو چند رشتے دار ایک چرواہے سمیت موجود تھے اور جھاڑیوں میں میرے بیٹے کی ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی لاش پڑی تھی۔ اس کے کپڑوں، ٹوپی اور چپل سے لاش کی شناخت کی۔ جانور اور پرندے اس کا گوشت کھا گئے تھے۔ بسم اللہ خان کے بقول انہوں نے کئی مرتبہ پولیس کو کال کی لیکن کوئی نہ آیا تو وہ خود گاڑی کر کے سہراب گوٹھ آئے اور پولیس کو اطلاع دی۔ پولیس والے تین گھنٹے بعد لاش کو گٹھری میں باندھ کر عباسی اسپتال لے کر گئے۔ وہاں ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اس کے بال، دانت اور ہڈیوں کے نمونے لے کر ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے لاہور بھیجیں گے۔ پھر بقایا ہڈیاں ہمارے حوالے کردی گئیں۔ جنہیں نماز جنازہ کے بعد قریبی قبرستان میں دفنا دیا تھا۔ کمسن ریحان کی لاش ملنے پر سپرہائی وے پر انڈس پلازہ کے عقب میں واقع جونیجو کالونی میں کہرام مچا ہوا ہے۔ ریحان کے والد بسم اللہ خان نے بتایا کہ ان کے گھر کراچی پولیس چیف اور دیگر اعلیٰ افسران سمیت رینجرز والے بھی آرہے ہیں۔ ان کے بچے کو ڈھونڈنے کیلئے پہلے کوشش کرلی جاتی تو شاید وہ زندہ مل جاتا یا اس کی لاش ہی بہتر حالت میں مل جاتی۔ بسم اللہ خان کا کہنا تھا کہ خدارا ایسا نظام بنائو کہ بچے کی گمشدگی کی صورت میں فوری طور پر تلاش شروع کی جائے۔ ورنہ بچے مرتے رہیں گے۔
’’امت‘‘ کی جانب سے رابطہ کرنے پر کراچی پولیس چیف امیر شیخ کا کہنا تھا کہ ایک سازش کے تحت شہر میں افراتفری پھیلائی جارہی ہے۔ بچے اغوا ہونے کے واقعات اتنے زیادہ نہیں ہیں۔ معمولی شبہے پر لوگ بچوں کے قریب جانے والوں کو مار پیٹ کر پولیس کے حوالے کر رہے ہیں کہ یہ شخص بچے کو اغوا کر رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس کا چائلڈ پروٹیکشن سیل بھی فعال ہو چکا ہے اور شہر بھر کی پولیس کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔ ہر واقعے کی تفتیش کو وہ فوری مانیٹر کر رہے ہیں۔ اگر پولیس تعاون نہ کرے تو متاثرہ افراد ان کے واٹس اپ نمبروں یا ان کی ہیلپ لائن پر رابطہ کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پر گمراہ کن خبریں چل رہی ہیں۔ کئی سال قبل اغوا یا قتل ہونے والے بچوں کے بارے میں بھی پوسٹیں لگائی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ وہ اجنبی افراد سے دور رہیں اور ان کے ساتھ کہیں نہ جائیں۔
بچوں کے تحفظ کیلئے کراچی میں 30 سال سے سرگرم تنظیم ’’انیشیٹر‘‘ کے ڈائریکٹر رانا آصف حبیب کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی خواہشمند بیرونی قوتوں نے ایک سازش کے تحت شہر میں افراتفری پھیلائی ہے۔ دوسری جانب بچوں کے اغوا کے حوالے سے بھارت نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ والدین خوفزدہ ہو کر بچوں کو اسکول، مساجد اور مدارس نہیں بھیج رہے جبکہ کھیل کود اور رشتے داروں کے گھر جانے سے بھی روک رہے ہیں۔ جبکہ اکثر بچے اپنی مرضی سے ادھر ادھر چلے جاتے ہیں۔ اغوا بہت کم ہوتے ہیں۔ ملک دشمن قوتیں ایسے اکا دکا واقعات کو سوشل میڈیا پر بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہیں کہ اس شہر میں بچے اغوا اور قتل ہورہے ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ سے اپیل کی کہ اس صورتحال کا ازخود نوٹس لیں۔ جبکہ سرکاری ادارے اغوا کے واقعات پر فوری توجہ دیکر عوام کو مطمئن کریں۔ جدید سائنسی طریقہ کار سے تفتیش کی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ حکومت نے 2011ء میں چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی بنائی تھی، جس کے کراچی سمیت سندھ کے 29 اضلاع میں دفاتر ہیں۔ تاہم اس ادارے کی کارکردگی صفر ہے۔ اب پولیس نے گارڈن میں چائلڈ پروٹیکشن سیل بنایا ہے اور صدر تھانے سے متصل اس کا تھانہ بھی بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ اور گورنر سندھ ایک ٹاسک فورس بنوائیں، جس میں آئی جی سندھ، رفاہی ادارے، جوڈیشل کے لوگ، پراسیکیوٹر اور انوسٹی گیشن کے افسران کے ساتھ میڈیا کو بھی شامل کیا جائے، جو یہ تحقیق کریں کہ اس سازش میں کون ملوث ہے اور بچوں کے گمشدہ ہونے پر فوری کارروائی کی جائے۔
بچوں کے حوالے سے شہر میں سرگرم ’’روشن ہیلپ لائن‘‘ کے میجر محمد نعیم قادری کا کہنا تھا کہ 2012ء سے 2018ء تک لگ بھگ 48 سو بچے گم ہوئے۔ تاہم ان کی اکثریت مل گئی۔ اغوا برائے تاوان اور قتل ہونے والے بچوں کی تعداد کم ہے۔ رواں سال 146 بچے اغوا ہوئے۔ جن میں سے 126 مل گئے اور 20 تاحال لاپتہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ عوام سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں پر توجہ نہ دیں۔ سازش کے تحت کراچی میں خوف و ہراس پھیلایا جارہا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More