کراچی (اسٹاف رپورٹر) سندھ اسمبلی میں پی پی اور متحدہ پر لسانی رنگ غالب آگیا۔ صوبے کے آئندہ 9 ماہ کے بجٹ پر چوتھے روز بحث کے موقع پر حکومت اور اپوزیشن کے مابین سخت الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہا، جس سے ماحول سخت کشیدہ ہوگیا۔ شور شرابے کے باعث ایوان مچھلی بازار کا منظر پیش کرتا رہا، اپوزیشن نے دو مرتبہ علامتی واک آؤٹ بھی کیا۔جمعرات کو اسپیکر آغا سراج درانی کی صدارت میں سندھ اسمبلی کے اجلاس میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین نے دھواں دار تقاریر کیں اور ایک دوسرے کی قیادت کو بھی نہ بخشا۔پیپلز پارٹی کے رکن سہیل انور سیال نے اپنی بجٹ تقریر میں اپوزیشن خصوصاً ایم کیو ایم کو آڑے ہاتھوں لیا۔انہوں نے کہا کہ یہ اندرون سندھ کی بات کرتے ہیں اندرون سندھ والوں نے انہیں پالا ہے۔ان کا قائد غدار تھا۔انہوں نے 12مئی کا واقعہ کیا۔پاک فوج اور سندھ حکومت کی کوششوں سے بوری بند لاشوں کا سلسلہ ختم ہوا۔ ان کی وجہ سے شہر میں بلدیات کا نظام تباہ ہوا۔انہوں نے انسانیت کا قتل کیا۔میرے قائد بھٹو کی وجہ سے آج پاکستان ایٹمی قوت بنا۔ آصف زرداری کی وجہ سے اٹھارویں ترمیم آئی۔ ایم کیو ایم ارکان کا غدار پارٹی سے تعلق ہے۔ان کا لیڈر کہتا تھا کہ پاکستان بنانا بڑی غلطی تھی۔ ان کے لیڈر نے بوری بند لاشوں کا تحفہ دیا، اندرون سندھ کے لوگوں نے انکو دل اور گھر میں جگہ دی۔12 مئی والے واقعات ہم برداشت کرکے بیٹھے ہیں۔ یہ بات کرتے ہیں قانون کی، جنھوں نے نفرتیں پھیلائیں، لاشیں گرائیں۔ وزارت اعلیٰ کے دعویدار اپنا اپوزیشن لیڈر بھی نہ لاسکے، مہاجر مہاجر کرتے رہتے ہیں جو یہاں رہتا ہے، وہ سندھی ہے، سندھ کے لوگوں نے تم کو پالا ہے، پہلے خود کو تسلیم کریں، پھر حق کی بات کریں، ایم کیوایم پاکستان کے محمد حسین نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران پیپلزپارٹی کی پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ متعصبانہ پالیسیاں اپنائیں جس کی بدولت مہاجر آبادیوں کو نقصان پہنچایا۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے لوگ محنت کرتے ہیں، پورا پاکستان پلتا ہے۔ ہم 70فیصد وفاق کو اور 95فیصد سندھ کو دیتے ہیں۔کراچی کو چند ارب روپے دیکر باقی اندرون سندھ لے جائو، یہ نہیں چلے گا، پورے سندھ کو پالنے والے کراچی کے لوگ پانی کو ترس رہے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کراچی سے مکمل ختم کردی گئی۔ سندھ پبلک سروس کمیشن میں متعصب لوگ رکھے گئے ہیں۔ رشوت اور کرپشن کی بنیاد پر بلدیاتی ادارے سندھ حکومت نے تباہ کرائے، سندھ کے بلدیاتی اداروں کو بے اختیار رکھا گیا اگر ایمانداری سے پانی دینا چاہیں تو دیاجاسکتا ہے، پانی کی غیرمنصفانہ تقسیم کی جارہی ہے ۔آڈیٹرجنرل کی رپورٹ پر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔پی ٹی آئی رکن خرم شیر زمان نے بجٹ تقریر میں پیپلزپارٹی ارکان کو دبے الفاظ میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اپنے ارکان کو سمجھائیں کہ میری قیادت کے خلاف بات نہ کریں، اگر ہم نے بات کرنا شروع کردی تو آپ یہاں بیٹھ نہیں سکیں گے۔میرے لیڈر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ۔ انہوں نے صوبے میں تعلیم، صحت، بلدیات، پینے کے صاف پانی، پبلک ٹرانسپورٹ سمیت دیگر امور پر کھُل کر اظہار کیا۔جی ڈی اے کی رکن نصرت سحر عباسی نے اپنی بجٹ تقریر میں سندھ حکومت اور پیپلزپارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ کبھی لاڑکانہ بے نظیر اور ذوالفقار بھٹو کے حوالے سے مشہور تھا، آج دنیا بھر میں پوچھا جاتا ہے کہ ڈائن بھی ایک گھر چھوڑ دیتی ہے۔ سرکاری گاڑیاں کن سیاسی شخصیات کے پاس ہیں۔ کراچی کو پانی کی فراہمی کے لئے کےفور کی اسکیم کی آڑ میں 13ارب روپے کا چونا لگایا گیا۔انہوں نے کہا کہ اومنی گروپ کو فائدہ دینے کے لیے پلاسٹک کی ایک کروڑ بوریاں خریدی گئیں، گندم کی بوریوں کی خریدوفروخت سے ایک مڈل مین کو فائدہ دیا گیا۔ 7ارب روپے کا چونا سولر پینل کے نام پر لگایا گیا، کسانوں کو ٹریکٹر نہیں ملے۔ انور مجید کی کمپنی کو سبسڈی کےنام پر فائدہ دیا گیا۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔ ملازمت مستقل نہیں دی گئی۔ اساتذہ تنخواہوں سےمحروم، بچیاں قتل یا غائب ہوگئیں۔انہوں نے سندھ کو 10سال میں یہ دیا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر میری باتیں سنیں۔ عمرکوٹ میں بچیاں اسکول اس لیے جاتی ہیں کہ وہاں 2گلاس پانی ملتا ہے، سندھ کا گیس، پانی، کوئلہ بیدردی سے لوٹا جاتا ہے۔ 51سال بعد کسی بھی اسمبلی میں کوئی بھٹو منتخب نہیں ہوا۔ بلاول کے کاغذات نامزدگی بھی مسترد ہورہے تھے۔ بلاول زرداری نے اپنے نام کے ساتھ بھٹو ہٹایا۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا فضل پیچوہو نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہیپاٹائٹس کی فراہم کردہ ادویات میں بے ضابطگی ہوئی۔ جعلی ادویات اور عطائی ڈاکٹرز کی بھرمار ہے۔ انہوں نے کہا کہ لاڑکانہ اسپتال میں کنڈا سسٹم کی وجہ سے بجلی کی فراہمی متاثر ہوتی ہے۔ کنڈاسسٹم اور بجلی کی عدم فراہمی کے سبب لاڑکانہ میں آپریشن تھیٹرز اور بعض آلات بھی خراب ہوتے ہیں۔ 169جاری اسکیمز پر محکمہ صحت میں کام ہو رہا ہے۔ صوبائی وزیر ترقی نسواں شہلا رضا نے کہا کہ جب ہم اقتدار میں نہیں تھے تو کراچی کا مقدر بوری بند لاشیں اور بھتہ تھا۔ کے ایم سی کو ساڑھے 16ارب روپے ملے۔ کوئی ایک اسکیم دکھادیں۔ انکے گورنر 12سال رہے۔ کتنی جامعات بنائیں۔ ہم نے لیاری میں میڈیکل کالج اور یونیورسٹی بنائی۔ کوٹہ سسٹم کا رونا کب تک رو گے، اپنے وفاقی وزیر سے پوچھو کہ کوٹہ سسٹم کا کیا ہوا۔ کبھی ایم کیو ایم نے کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے لیے بل پیش کیا۔ کوٹہ سسٹم ذوالفقار علی بھٹو نے 10سال کے لیے دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ لانچ پکڑی گئی تو بتائیں وہ پیسہ اب کہاں جمع ہوا۔ آج بھی میرے لیڈر کی قبرکا ٹرائل ہورہاہے، آج بھی میرے لیڈر کی موروثی جائیداد کا سوال ہورہاہے۔ زیتون، شہد کی بہت بات ہوئی کیا یہ وہ ہی شہد ہے جو امین گنڈاپور کی گاڑی سے ملا تھا۔ کے پی کے حکومت کے 11وزرا کے خلاف کرپشن کیسز ہیں، کہتے تھے کہ ڈائریکٹ ٹیکسز کو جگا ٹیکس سمجھتا ہوں۔ اب 170ارب روپے کے ڈائریکٹ ٹیکس لگائے گئے۔ پرویز مشرف دور میں بقول ان کے سابق میئر کو 300ارب روپے ملے جبکہ اس کا 20 فیصد خرچ نہیں کیا گیا اب یہ شہر کی تباہی کی بات کرتے ہیں۔ رکن جی ڈی اے شہریار خان مہر نے بجٹ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں شوگرملز کو گنا دینے والے کسانوں کو پیسے نہیں ملتے۔ ہم نام نہیں لیتے شوگر ملز کس کی ہیں۔ حکومت خود بتا دے۔ میں ایم پی اے ہوں، گنے کی فصل کے پیسے نہیں ملے، عام آدمی کا کیا حال ہوگا۔ پنجاب میں بھی سیاستدانوں کی شوگر ملز ہیں۔ پنجاب میں کسانوں کو کوئی شکایت نہیں۔ 10سال بعد آپ کو خیال آیا کہ ہمارے 4ہزار سے زائد اسکولز کو رپیئر کروانا ہے۔وزیر تعلیم بیرون ملک چلے گئے ان کو یہاں ہونا چاہئے تھا تاکہ ہمیں بتاتے کہ تعلیم کو کس نے برباد کیا۔ آپ نے کہا 14یونیورسٹیز بنائیں۔ پرائمری اسکول بند ہو رہے ہیں اور آپ یونیورسٹی بنا رہے ہیں۔ لگتا ہے آپ تو صوبے کو تباہ کرنے کے ایجنڈے پر آئے ہیں ۔آج سے 10سال پہلے سندھ کی تعلیم بہت بہتر تھی۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی والے شہید بے نظیر بھٹو کا مقدمہ کھولنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟ آپکے وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوئے جسکی وجہ سے بے نظیر بھٹو کا کیس ختم ہوگیا۔ کیوں نہیں بتاتے کہ بی بی کا قتل کس نے کیا؟ بینظیر کی مغفرت کے لئے روز دعا کرواتے ہیں لیکن اُس کے قاتل کو ڈھونڈنے کی بات نہیں کرتے۔ 2009میں بھٹو کا کیس دوبارہ کھولنے کی باتیں کی، لیکن بینظیر کا کیس نہیں چلایا۔ عدالت میں آوازیں لگتی رہی لیکن پی پی کا وکیل پیش ہی نہیں ہوا۔ایان علی کے کیس میں پوری پیپلزپارٹی ایسے کھڑی تھی جیسے اصل مادر ملت ایان علی ہے۔ اداروں کی تباہی آپ نے کی۔ 3دن میں ریڈیو پاکستان میں 800لوگ بھرتی کئے۔ ملازمتیں دیں، مگر میرٹ پر دیں۔ حکمران جماعت کے رکن تیمور تالپور کے خطاب کے دوران اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا، اسی دوران اپوزیشن کی خاتون رکن نصرت سحر عباسی اپنی نشست سے اٹھ کر اسپیکر کی ڈیسک کے سامنے پہنچے اور احتجاج شروع کیا۔ اسی دوران تیمور تالپور نے کہا کہ محترمہ کے شوہر کو پیپلز پارٹی نے ملازمت دی ہے۔ اس کے بدلے محترمہ نے سینیٹ کے الیکشن میں اپنی پارٹی کے بجائے ہمیں ووٹ دیا۔حکومتی ترقیاتی اسکیموں کے کمیشن لیتی ہیں۔ باردانہ لینے میں آگے آگے رہتی ہیں، جس پر نصرت سحر عباسی مشتعل ہوگئیں، جھوٹ جھوٹ کے نعرے لگتے رہے۔ چند حکومتی خواتین ارکان بھی اپنی نشست چھوڑ کر اسپیکر ڈیسک کے سامنے پہنچ گئیں، لیکن اسی دوران ایوان کے دونوں جانب کے مرد ارکان نے خواتین کو روکے رکھا۔اسی دوران اسپیکر نے تیمور تالپور کو کہا کہ ان کا وقت ختم ہوا، وہ بیٹھ جائیں، مگر وہ مسلسل بولتا رہے کہ محترمہ کو دورہ پڑ گیا ہے۔ ڈاکٹر کو بلوایا جائے، کیونکہ سچ کڑوا ہوتا ہے۔ حکومتی اراکین کو طوطے کہنے والے خود جنرل مشرف کے چمچے ہیں، جس پر اپوزیشن کے ارکان ایوان سے واک آؤٹ کرکے چلے گئے۔ حکومتی خاتون رکن ماروی راشد کی تقریر کے دوران بھی اپوزیشن نے شدید احتجاج کیا۔ اس کے علاوہ سہیل انور سیال کے تقریر کے دوران ایم کیو ایم کے ارکان نے اسپیکر کے ڈیسک کے سامنے شدید احتجاج کیا۔