نجم الحسن عارف
وفاقی و پنجاب حکومت نے علامہ طاہر القادری کو یقین دلایا ہے کہ اگلے چند دنوں میں ان تمام پولیس افسروں کو عہدوں سے ہٹا دیا جائے گا جن کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے کردار اہم رہا۔ دوسری جانب گزشتہ صوبائی حکومت نے ان افسروں کو سانحہ ماڈل ٹاؤن میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے بعد بھی نہ صرف اہم عہدوں پر تعینات رکھا، بلکہ اکثر کو اگلے گریڈ اور عہدے پر ترقی دینے کے علاوہ زیادہ اچھی ذمہ داری سونپی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان جو اسلام آباد میں دھرنے سے لے کر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کا بھی حصہ رہے ہیں، سانحہ ماڈل ٹاؤن کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ تاہم ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق وزیراعظم بننے کے بعد اس سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا عندیہ انہوں نے پہلی مرتبہ طاہر القادری سے فون پر بات کے دوران دیا۔ جبکہ علامہ طاہر القادری نے بھی انہیں اسی موقع پر پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ سنبھالنے پر مبارک باد دی۔
’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق صوبائی حکومت کے بھی کسی ذمہ دار نے صرف تین چار روز قبل ہی علامہ طاہر القادری کی پارٹی کے عہدیداروں سے براہ راست رابطہ کیا تھا، ورنہ اس سے پہلے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ ادھر وزیراعظم نے طاہر القادری کو یہ بھی یقین دلایا ہے کہ ایسے تمام پولیس افسران و انتظامی افسران کو اس وقت تک عہدوں پر نہیں رہنے دیا جائے گا جب تک سانحہ ماڈل ٹاؤن کا عدالت سے فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ تاکہ یہ افسران کسی بھی معاملے میں اپنی پوزیشن اور اپنے اختیارات کی بنیاد پر قانونی کارروائی پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔ لیکن وزیراعظم عمران خان کی علامہ طاہر القادری کے ساتھ فون پر بات ہونے کے بعد 30 گھنٹے گزرنے کے باوجود کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا اور تمام متعلقہ پولیس افسران اپنے عہدوں پر پنجاب میں موجود ہیں۔
پاکستان عوامی تحریک کے ذرائع کے مطابق وہ حکومت کو اس سلسلے میں زیادہ وقت دینے کو تیار نہیں، اس لئے ایک ہفتے تک دیکھا جائے گا کہ وزیر اعظم نے جو وعدہ کیا ہے اس پر عمل ہوپاتا ہے یا نہیں۔ واضح رہے کہ وزیراعظم نے علامہ طاہر القادری کو جمعرات کے روز گیارہ بجے فون کیا، لیکن اتفاق سے طاہر القادری اس وقت وضو کر رہے تھے۔ لہذا وزیراعظم کو دس منٹ بعد دوبارہ فون کرنا پڑا۔ اس فون کے بعد وزیراعظم نے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی ہدایات دیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث پولیس افسران کے بارے میں سخت فیصلہ کریں۔ ان افسران کے بارے میں عوامی تحریک کی قیادت الزام لگاتی ہے کہ یہ شہباز حکومت کے آلہ کار ہیں اور اس کے 17 کارکنوں کی جان لینے میں اہم کردار ادا کیا۔ بعد ازاں اس ’’کارنامے‘‘ کے بدلے میں شہباز حکومت نے ان پولیس افسران کو فوری ترقیوں کے انعام سے نوازتے ہوئے پہلے سے بھی اہم عہدوں پر تعینات کر دیا تھا۔
ان پولیس افسران میں سب سے اہم اور اعلیٰ افسر انسپکٹر جنرل پنجاب مشتاق احمد سکھیرا کو ان کی ریٹائرمنٹ پر وفاقی ٹیکس محتسب تعینات کر دیا گیا تھا۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وقت ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار کو بھی نوازا گیا اور وہ آج کل ایک پیشہ ورانہ کورس پر ہیں۔ اس وقت کے ایس پی ماڈل ٹاؤن کو بعد ازاں ایس ایس پی کے عہدے پر ترقی دیکر محکمانہ ڈسپلن اور سیکشن کا انچارج بنا دیا گیا۔ ایس پی مجاہد فورس عبدالرحیم شیرازی پر الزام ہے کہ وہ بھی ماڈل ٹاؤن آپریشن کا اہم کردار تھے، انہیں پروموشن مل چکی ہے اور وہ ایس پی سی آئی اے ہیں۔ اس عہدے پر عام طور پر ماضی میں وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے انتہائی ’’کام کے بندے‘‘ کو تعینات کرتے رہے ہیں۔ اسی وجہ سے عمر ورک طویل عرصہ تک اس منصب پر فائز رہے۔ اتفاق سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے وقت کے ایک اور اہم افسر ایس ایس پی سلمان علی خان آج کل او ایس ڈی ہیں۔ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار رہنے والے انسپکٹر عامر سلیم اب شمالی چھاؤنی تھانے کے انچارج ہیں۔ دیگر پولیس انسپکٹرز کو بھی سانحے کے بعد پروموشن ملی اور اہم جگہوں پر تعینات کیا گیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ ان پولیس افسران میں سے اکثریت اب بھی لاہور میں تعینات ہے۔
عوامی تحریک کے ذرائع کے مطابق پنجاب حکومت میں سینئر وزیر کے عہدے پر فائز علیم خان اور صوبائی وزیر قانون و پارلیمانی امور بشارت راجہ پاکستان عوامی تحریک کے ہیڈکوارٹر آئے اور انہوں نے حکومت کی طرف سے پوری تعاون کا یقین دلایا۔ منگل کے روز اس اعلیٰ سطح کی دو رکنی ٹیم کے آنے کے اگلے روز اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ اور وزیر برائے پراسیکیوشن چوہدری ظہرالدین بھی عوامی تحریک کے آفس آئے اور انہوں نے حکومت کی طرف سے پورے تعاون کا یقین دلایا۔ ایک ذریعے کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی طرف سے اچانک سانحہ ماڈل ٹاؤن کے بارے میں سنجیدگی ظاہر کرنا حیرت انگیز ہے۔ دوسری جانب عوامی تحریک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے سلسلے میں اس کی طرف سے جن وکلا کی خدمات حاصل کی جاتی رہیں، وہ ایک ایک کرکے کیس سے الگ ہوتے رہے۔ حتیٰ کہ آخری وکیل جو تقریباً ایک ڈیڑھ سال تک اس کیس میں وکیل رہے، انہوں نے بھی رواں ہفتے اچانک معذرت کر لی اور کہا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چونکہ ٹرائل روزانہ کی بنیاد پر ہے، اس لئے وہ دستیاب نہیں ہو سکتے۔ ان ذرائع کے مطابق عدالت میں ان کی طرف سے کیس کس طرح لڑا گیا؟ اس بارے میں کئی مرتبہ فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ آپ وکیل استغاثہ ہیں یا دوسرے فریق کے وکیل ہیں۔ عوامی تحریک کے ذرائع کے مطابق اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ سابق صوبائی حکومت وکلا پر اثر انداز ہوتی رہی ہو۔
٭٭٭٭٭