بھارتی پولیس نے ’’لوجہاد‘‘ کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار بنالیا

0

نذر الاسلام چودھری
بھارتی پولیس نے ’’لو جہاد‘‘ کے الزام کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار بنا لیا۔ میرٹھ پولیس کی جانب سے اپنی سرپرستی میں مقامی میڈیکل کالج میں زیر تعلیم ہندو لڑکی اور مسلمان لڑکے پر سر عام تشدد کرایا گیا۔ ہندو لڑکی پر پولیس وین میں تشدد اور فحش کلمات کی ویڈیو الجزیرہ اور سی این این جیسے عالمی چینلز سمیت سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی ہے۔ سماجی رابطوں کی سائٹس پر صارفین نے مودی سرکار اور بھارتی عدلیہ سے ایکشن لینے کی اپیل کر دی۔ پولیس تشدد کی مار جھیلنے والی ہندو لڑکی نے بعد ازاں میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ان کے ساتھ انتہا پسند ہندوئوں اور پولیس کا رویہ انتہائی ہتک آمیز اور تھا۔ پولیس اسٹیشن میں والدہ اور مجھ پر دبائو ڈالا گیا کہ آپ ہندو ہیں، ہندوپولیس اور ہندو تنظیموں کا ساتھ دیں اور صرف یہ بیان دے دیں کہ مسلمان لڑکا love-jihad چاہتا تھا اور اس نے مجھے گھر بلا کر زیادتی کی کوشش کی، جس پر اس کو ہجوم نے مارا پیٹا، باقی ہم (پولیس اور ہندو) سنبھال لیں گے۔ لیکن لڑکی کی والدہ اور خود لڑکی نے ایسا گھنائونا اور جھوٹا الزام عائد کرنے سے انکار کردیا اور واضح کیا کہ ان کی بیٹی اور متاثرہ مسلمان لڑکا دونوں ایک ہی کلاس میں پڑھتے ہیں اور تعلیمی مقاصد کیلئے ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں اور جب یہ واقعہ رونما ہوا تو اس وقت بھی لڑکی، مسلمان نوجوان کے گھر آئی ہوئی تھی۔ متاثرہ ہندو لڑکی کی والدہ نے بتایا کہ ہندو نوجوانوں نے ان کی بیٹی کو منہ پر تھپڑ مارے اور الزام عائد کیا کہ ایک مسلمان کے ساتھ شادی کرنا چاہتی ہے، تبھی اس کے گھر چلی آئی۔ لیکن بعد ازاں پولیس اسٹیشن میں یہی نوجوان مجھے اس بات پر قائل کرتے دکھائی دیئے کہ آپ مسلمان نوجوان پر زیادتی کا کیس درج کروائیں، ورنہ اچھا نہیں ہوگا، لیکن میں ان کے دبائو میں نہیں آئی۔ بھارتی جریدے امر اُجالا نے بتایا ہے کہ ریاست اترپردیش کے شہر میرٹھ میں ایک ہندو میڈیکل طالبہ ایک مسلمان کلاس میٹ کے گھر اپنا لیپ ٹاپ لے کر پہنچی تھی، جسے ہندو انتہا پسندوں نے مسلمان لڑکے سے ملنے پر تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر پولیس کے حوالہ کردیا۔ جبکہ مسلمان نوجوان طالب علم کو گھر سے گھسیٹ کر love-jihad کا الزام عائد کرکے پولیس اہلکاروں کے سامنے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ کئی ہڈیاں ٹوٹ جانے، سر پھٹ جانے اور کان سے خون نکلنے کے بعد پولیس نے نوجوان کو انتہائی نازک حالت میں اسپتال میں بھرتی کروا دیا، لیکن اُلٹا زخمی مسلمان نوجوان پر لڑکی کے اغوا سمیت love-jihad کا پرچہ درج کردیا گیا۔ جبکہ ہندو لڑکی کو پولیس اسٹیشن لے جاتے وقت بھی پولیس کی گاڑی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بلکہ اس طالبہ کو ایک مسلمان سے عشق لڑانے کے ’’جرم‘‘ میں تھانے میں قید رکھا گیا۔ اس دوران وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے غنڈوں اور مقامی ہندوئوں کے جم غفیر نے پولیس اسٹیشن کا گھیرائو کرلیا اور پولیس کی مدد سے متاثرہ ہندو طالبہ کے والدین کو پولیس اسٹیشن بلاواکر ان پر دبائو ڈالا گیا کہ لڑکی کو اسی صورت میں رہائی دی جائے گی کہ جب وہ مسلمان نوجوان پر love-jihad اور زیادتی کا الزام عائد کرے لیکن نوجوان ہندو لڑکی اور اس کی والدہ نے اس سے انکار کردیا، جس پر پولیس نے لڑکی پر دوبارہ تھانے میں وی ایچ پی کے غنڈوں کے سامنے تشدد کیا، لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور سماجی رہنمائوں کی آمد کے بعد غنڈے منتشر ہوگئے۔ میرٹھ پولیس نے معاملہ میڈیا میں آن ایئر چلے جانے اور تشدد کی ویڈیوز وائر ہوجانے کے بعد love-jihad اور زیادتی کے الزامات واپس لے لئے، لیکن ہندو انتہا پسند تنظیم وی ایچ پی کے رہنمائوں اور غنڈوں نے اسپتال میں بھرتی اور زیر علاج مسلمان نوجوان اور متاثرہ ہندو لڑکی سمیت ان دونوں کے خاندانوں کو دھمکیاں دی ہیں کہ اگر کیس درج کروانے کیلئے کوشش بھی کی گئی تو انجام بہت برا ہوگا۔ ہندوستان ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ مسلمان لڑکا اور اس کی کلاس فیلو ہندو لڑکی مقامی میڈیکل کالج میں ایک ساتھ پڑھتے ہیں اور دونوں کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ہے۔ دونوں تعلیمی مقاصد کیلئے ایک دوسرے سے گھر جاکر ملاقات کرتے ہیں، جس پر دونوں خاندانوں کے افراد اور مقامی محلہ داروں کو کوئی اعتراض نہیں تھا، لیکن اس مسلمان میڈیکل کالج طالب علم کا ہندو کلاس فیلو سے راہ و رسم مقامی انتہا پسند ہندوئوں کو بالکل بھی پسند نہیں تھا اور انہوں نے دونوں کو اس کا مزا چکھانے کا فیصلہ کیا اور درجنوں ہندوؤں نے مسلمان نوجوان کے گھر پر حملہ کردیا۔ پڑوسیوں کی جانب سے پولیس کو اطلاع دیئے جانے کے باوجود اہلکار مسلمان نوجوان پر ہجومی تشدد کے دوران خاموش تماشائی بنے رہے۔ love-jihad کے الزام پر ایس پی سٹی میرٹھ رنجیو سنگھ نے بتایا ہے کہ ہندو لڑکی اور مسلمان لڑکا ایک ہی کالج اور ایک ہی کلاس میں زیر تعلیم ہیں اور ایک دوسرے کو جانتے ہیں جس کی بنا پر حملہ آوروں نے ان کو love-jihad کا مجرم بناکر پیش کیا۔ ان پر حملوں کے الزام میں 18 انتہا پسندوں کو مقدمہ میں ماخوذ کیا گیا ہے اور وین میں لڑکی پر تشدد کے ذمہ دارتین اہلکارو ں کو معطل کردیا گیا ہے، ایس پی سٹی کے مطابق کوئی گرفتاری تاحال عمل میں نہیں آئی ہے۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More