محمد قاسم
امریکہ نے خلیج فارس سے جدید فائٹر طیارے افغانستان پہنچانا شروع کردیئے۔ طالبان سے مذاکرات ناکام ہوئے تو ایف 35 طیارے طالبان جنگجوئوں کیخلاف آپریشن میں استعمال کئے جائیں گے۔ ادھر غزنی میں افغان صدر اور ان کی اہلیہ کے کانوائے پر طالبان نے حملہ کر دیا۔ تاہم اشرف غنی بال بال بچ گئے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی، ان کی اہلیہ لورا غنی، انجینئر محمد خان، ڈاکٹر رسول طالب اور ایک حکومتی عہدیدار جمعہ کی صبح اچانک غزنی پہنچے۔ تاہم غزنی کے دارالحکومت پہنچتے ہی طالبان نے ان کے کانوائے کو نشانہ بنایا۔ لیکن داغے گئے تینوں راکٹ گاڑیوں سے کچھ دور گرے۔ واضح رہے کہ تقریباً ایک ماہ قبل افغان طالبان نے غزنی پر قبضہ کیا تھا۔ تاہم بعدازاں قبائلیوں کی ضمانت پر طالبان نے قبضہ چھوڑ دیا تھا۔ صدر اشرف غنی کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اشرف غنی، اساتذہ، سیاستدانوں، قومی مشران اور طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے مشران سے ملاقاتوں کیلئے غزنی گئے تھے۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ اشرف غنی پر کئے گئے حملے میں کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا ہے۔ تاہم ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق غزنی شہر کے علاقے قلعہ قاضی میں طالبان اور افغان فوجیوں کے درمیان شدید لڑائی چھڑ گئی ہے اور طالبان نے ایک بار پھر غزنی کے دارالحکومت کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قبائلی عمائدین نے صدر اشرف غنی کو بتایا کہ طالبان کو انہوں نے جو ضمانت دی تھی، افغان سیکورٹی اہلکار اس پر عمل نہیں کر رہے ہیں۔ اگر سیکورٹی اہلکاروں اور گورنر غزنی کا رویہ اسی طرح رہا تو وہ طالبان کو دی گئی ضمانت سے دستبردار ہو جائیں گے، جس کے بعد طالبان دارالحکومت پر حملہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ اس پر ڈاکٹر اشرف غنی نے قبائلی مشران سے کہا ہے کہ وہ طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کریں اور ان سے انتخابات کے دوران پشتون علاقوں میں گڑ بڑ نہ کرنے کی اپیل کریں۔ انتخابات کے بعد طالبان کے ساتھ پارلیمان کے ذریعے بھی مذاکرات میں پیش رفت ہو سکتی ہے، تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ طالبان اور قبائلی مشران آپس میں مذاکرات جاری رکھیں۔ ذرائع کے مطابق افغان صدر نے غزنی میں فوجی اور پولیس افسران سے ملاقات میں کہا کہ انتخابات میں امن و امان کا قیام یقینی بنائیں، کیونکہ یہ انتخابات ملک میں پائیدار امن کیلئے بہت اہم ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ممکن ہے اشرف غنی آئندہ صدارتی الیکشن میں امیدوار نہ ہوں۔ تاہم وہ چاہتے ہیں کہ افغان پارلیمان کے انتخابات وقت پر ہوں اور حزب اسلامی سمیت پشتونوں کی نمائندگی کرنے والی پارٹیاں اس بار اکثریت حاصل کرلیں، تاکہ انہیں کابینہ کی تشکیل میں مشکلات نہ ہوں۔ پارلیمان پر شمالی اتحاد کے قبضے کی وجہ سے صدر حامد کرزئی کے بعد ڈاکٹر اشرف غنی کو بھی وزرا کی تعیناتی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس وقت بھی وزیر دفاع سمیت کئی وزرا پارلیمانی توثیق کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ کیونکہ شمالی اتحاد کے زیر اثر اراکین پارلیمان ان وزرا کی توثیق کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغان حکومت اور پارلیمان کے درمیان بلیک میلنگ کا سلسلہ گزشتہ دو سال سے جاری ہے۔ پارلیمان کی مدت ختم ہونے کے باوجود گزشتہ دو سال سے توسیع دی جارہی ہے، جس سے شمالی اتحاد کے اراکین پارلیمان نہ صرف ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے بلکہ شمالی اتحاد کے جنگجو کمانڈر ان اراکین پارلیمان کے ذریعے افغان صدر کو بھی بلیک میل کر رہے ہیں۔ اس کی واضح مثال بلخ کے سابق گورنر عطا محمد نور اور جنرل عبدالرشید دوستم کی بلیک میلنگ ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اسی لئے افغان صدر ان علاقوں کے دورے کر رہے ہیں، جہاں پر زیادہ اراکین پارلیمان ہیں۔ دوسری جانب امریکہ نے افغان طالبان کے ساتھ ممکنہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں بڑے فضائی آپریشن کی تیاری شروع کردی ہے، جس کیلئے جدید طیارے افغانستان پہنچائے جا رہے ہیں۔ جمعہ کے روز خلیج عدن سے یہ طیارے خلیج فارس کے راستے افغانستان پہنچانا شروع کر دیئے ہیں۔ ایف 35 طیارے پہلی بار افغانستان میں استعمال کئے جائیں گے۔ طالبان کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ایف 35 طیاروں سے طالبان کو کوئی نقصان نہیں ہوگا تاہم ان کی بمباری سے مزید افغان شہری شہید ہوں گے۔ گزشتہ دس دنوں میں امریکی طیاروں نے تقریباً ایک سو پچاس سے زائد شہریوں کو شہید کیا ہے، جس کا حساب امریکہ اور افغان حکومت کو دینا پڑے گا۔ افغانستان میں امریکی بمباری کا نشانہ عام لوگ بن رہے ہیں، جس سے افغان عوام میں اشتعال پھیل رہا ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭