پاک افغان علما کانفرنس طالبان نے مسترد کردی
کابل/ واشنگٹن (امت نیوز/ ایجنسیاں) طالبان نے پاک افغان علما کانفرنس مسترد کردی اور دونوں ممالک کے حقیقی علمائے کرام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس میں شرکت سے گریز کریں، کیونکہ اس کا بنیادی مقصد افغانستان میں جاری جہاد کمزور کرنا اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا ہے۔ امریکہ شکست کے دہانے پر ہے، ایسے اجتماع میں علمائے کرام جتنی بھی حق بات کر لیں، دشمن اسے کوئی اہمیت نہیں دیگا، بلکہ شرکت کو پروپیگنڈے کیلئے استعمال کرے گا۔ طالبان نے حالیہ دنوں میں افغان حکام سے کسی قسم کے رابطوں کی بھی تردید کی اور پروان میں ہیلی کاپٹر مار گرانے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران اتحادی فوج کے خلاف کارروائیوں میں امریکی فوجی سمیت کم از کم 30 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔ اسی دوران واشنگٹن میں امریکی حکام نے طالبان سے غیر مشروط مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان سے دہشت گردی کا خاتمہ اہم ترین مقصد ہے۔ خصوصی امریکی مشیر زلمے خلیل زاد کا ایک انٹرویو میں کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوج کی موجودگی مشروط ہے، اشرف غنی حکومت اور طالبان کے درمیان مفاہمت کرانا میرا مشن ہے۔ دریں اثنا ایک امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کا کہنا ہے کہ طالبان انتہائی مضبوط پوزیشن میں ہیں اور مذاکرات کی بڑی قیمت مانگ رہے ہیں۔ ادھر کابل میں افغان امن کونسل کے سربراہ کریم خلیل نے ہفتہ کو ایک بیان میں کہا کہ امن کونسل یا حکومت کا طالبان سے فی الحال کوئی رابطہ نہیں، تاہم امید ہے کہ جلد مذاکرات ہوں گے۔ واضح رہے کہ 15 ستمبر کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے دورہ کابل کے دوران پاکستان اور افغانستان میں دیگر باتوں کے علاوہ اس بات پر بھی اتفاق ہوا تھا کہ دونوں ممالک کے علما پر مشتمل کانفرنس بلائی جائے گی۔ ہفتہ کے روز طالبان نے ایک بیان میں مجوزہ کانفرنس کی مخالفت کرتے ہوئے علما کو خبردار کیا کہ وہ اس سے دور رہیں اور امریکی پالیسی سازوں کیلئے قربانی کا بکرا نہ بنیں۔ اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ ہم جانتے ہیں علما حق یہ کام نہیں کرتے، بلکہ انہوں نے گزشتہ 17 سال کے دوران موجودہ جہاد کی حمایت کی اور اپنی ذمہ داری احسن طریقے سے ادا کی ہے، اب بھی امید ہے کہ سازشوں کا شکار نہیں بنیں گے، ورنہ قیامت کے دن مجاہدین، شہدا، یتیموں، بیوؤں اور تمام افغان مظلوم عوام کے ہاتھ اور ان کے گریبان ہونگے، اس لیے کہ کافر امریکی شکست کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ سعودی عرب اور کابل کی کانفرنسوں میں آپ کو ثابت ہوا ہوگا کہ علما سے کسی نے شرعی رائے لی اور نہ ہی کسی دلیل کو سنا، بلکہ ان کی موجودگی سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور اپنا مرتب شدہ مقالہ ہی فتوی کے نام سے جاری کردیا۔ طالبان نے مزید کہا کہ افغان حکومت سے ہمارا کوئی رابطہ نہیں۔ ترجمان نے گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کارروائیوں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب ضلع گرشک کے نہر سراج کے یخچال، گوبن، سرہ شاخ، وزیروں ماندہ اور بلوچان کے علاقے میں امریکیوں اور ان کے کٹھ پتلی اسپیشل فورس نے امریکی طیاروں کے ہمراہ آپریشن کیا، مجاہدین نے فوراً جوابی کارروائی کی اور بارودی سرنگوں کے دھماکوں سے 8 ویگو گاڑیاں تباہ کر دیں۔ 24 گھنٹے تک جاری آپریشن میں ایک امریکی فوجی سمیت 14 اہلکار موقع پر ہی مارے گئے اور دیگر بھاگ نکلے۔ بعد ازاں ناکام دشمن نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا اور مدرسہ، مکان، 2 پلوں سمیت متعدد دکانیں بارودی سرنگوں سے اڑادیں، جبکہ ایک گاڑی اور 15 موٹرسائیکلوں کو جلا کر خاکستر کر دیا۔ ہفتہ کی صبح ہلمند ہی کے ضلع ناوا میں3 اہلکاروں کو لیزر گن سے نشانہ بنایا، جبکہ ضلع مارجہ میں چوکی پر حملے میں بھی ایک فوجی ہلاک ہوا۔ صوبہ پروان کے ضلع کوہ صافی میں خندق آپریشن کے دوران ہفتہ کی صبح ہیلی کاپٹر مار گرایا، جس میں سوار تمام 8 اہلکار ہلاک ہوگئے۔ مجاہدین نے ایک ہیوی مشین گن، ایک رائفل اور دیگر فوجی سازوسامان بھی قبضے میں لے لیا۔ قندھار کے ضلع راغستان میں ایک چوکی پر طالبان حملے میں کم از کم 2اہلکار ہلاک اور 3 زخمی ہوگئے۔ صوبائی گورنر کے ترجمان عزیز احمد عزیزی کے مطابق حملہ آور ایک سال قبل بھرتی ہوا تھا۔ واقعہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیان شب دور دراز چوکی پر پیش آیا، جب اس نے اپنے ساتھیوں پر فائرنگ کردی اور فرار ہوگیا۔ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں۔ دریں اثنا ایک امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ نے کہا ہے کہ ایک ایسے موقع پر جب امریکہ طالبان سے براہ راست مذاکرات کا خواہش مند ہے، افغانستان کے بڑے حصے پر کنٹرول کے سبب جنگجوؤں کے حوصلے بلند ہیں اور وہ تعاون کی بڑی قیمت مانگ رہے ہیں۔ بات چیت فی الحال ابتدائی مراحل میں ہے، تاہم جنگجوؤں اور مذاکراتی عمل سے واقف مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان اس سے مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ معروف تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ میں فارن پالیسی پروگرام کیلئے سینئر فیلو ڈاکٹر وانڈا فیلباب براؤن کا کہنا ہے کہ سیاسی اور عسکری دونوں معاملات پر جنگجوؤں سے رائے لی جارہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں کم از کم 3 بار امریکی حکام نے طالبان سے رابطہ کیا اور ان کے مطالبات پوچھے۔ امریکی فوج کے جریدے اسٹار اینڈ اسٹرپس سے گفتگو میں سابق طالبان وحید مزدہ نے بتایا کہ فی الحال کچھ طے نہیں ہوا، طالبان نے نائب امریکی وزیر خارجہ ایلس ویلز سے غیرملکی افواج کی واپسی اور طالبان قیدیوں کی رہائی کیلئے ٹائم فریم طلب کیا ہے۔ امریکی جریدے کے مطابق مذکورہ ملاقات 25 جولائی کو قطر میں ہوئی تھی۔ فیلباب براؤن کے مطابق طالبان حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر انس حقانی (جلال الدین حقانی کے بیٹے) اور دیگر ہزاروں جنگجوؤں کی رہائی چاہتے ہیں، جب کہ امریکی حکام کابل کی امریکن یونیورسٹی کے مغوی پروفیسر 60 سسالہ کیون کنگ سم، اپنے شہریوں کی بازیابی کے خواہاں ہیں۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق رواں ہفتے سعودی عرب میں قیدیوں کے تبادلے سے متعلق مذاکرات بھی ہوئے، تاکہ اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کی راہ ہموار کی جاسکے۔ دوسری جانب طالبان نے ان مذاکرات کی تردید کی ہے۔ واشنگٹن میں مرکز برائے گلوبل پالیسی سے وابستہ کامران بخاری کا کہنا ہے کہ طالبان کا بنیادی مقصد غیر ملکی فوج کا انخلا، افغانستان کی اقتداری سیاست میں اہم کردار کے حصول سمیت خود کو عالمی سطح پر منوانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات بے سود بھی ثابت ہوئے تو امریکہ کی جانب سے مدعو کرنا ہی طالبان کی بڑی کامیابی قرار پائے گی اور یہ ان کیلئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔