لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک/ایجنسیاں) چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے قبضہ مافیاکے سرپرستی پر تحریک انصاف کے 2 ارکان اسمبلی کو نااہلی کا انتباہ دے دیا اور اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی والوں نے بدمعاشی کے ڈیرے بنارکھے ہیں، یہ لوگ بدمعاشوں کی پیروی کرکے نیا پاکستان بنانے چلے ہیں،کسی بدمعاش کو پاکستان میں نہیں رہنے دوں گا۔ کرامت کھوکھر پر الزام ثابت ہوا تو ایم این اے نہیں رہیں گے۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں جوہر ٹاون کے علاقے میں قبضہ مافیا کے سرغنہ منشا بم کے خلاف شہری کی درخواست پر کیس کی سماعت کے دوران ایم پی اے ندیم عباس بارا روپڑے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ باہر بدمعاشی کرتے اور یہاں آنسو بہاتے ہو۔عدالت نے دونوں ارکان کو آج اسلام آباد طلب کرلیا۔کرامت کھوکھر کو جھوٹ بولنے پر نوٹس بھی جاری کیا گیا۔اتوار کے روز چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ کے سامنے قبضہ مافیا کے سرغنہ منشا بم کے خلاف کیس میں نامزد ملزمان تحریک انصاف کے ایم این اے ملک کرامت کھوکھر، ایم پی اے ندیم عباس بارا اور ایس پی عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے ملک کرامت کھوکھر کو ملزم منشا بم کی سفارش کرنے پر طلب کیا تھا۔چیف جسٹس نے ایس ایس پی سے استفسار کیا کہ منشا بم کون ہے؟۔ جس پر ایس پی پولیس نے عدالت کو بتایا یہ جوہر ٹاؤن کا بہت بڑا قبضہ گروپ ہے، عدالت کے حکم پر کارروائی کی تو سفارشیوں کے فون آنا شروع ہوگئے۔چیف جسٹس نے ایس پی سے پوچھا سفارش کے لیے کس کا فون آیا جس پر ایس پی نے بتایا ایم این اے ملک کرامت کھوکھر نے منشا بم کی گرفتاری روکنے کی درخواست کی، پولیس نے عدالت کو بتایا کہ منشا بم اپنے بیٹوں کے ساتھ جوہر ٹاؤن میں زمینوں پر قبضےکرتا ہے اور اس کے خلاف70مقدمات درج ہیں جس پر چیف جسٹس نے ملزم منشا کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل رانا سرور کی سرزنش کی۔ وکیل نے کیس سےعلیحدگی اختیار کرتے ہوئے غیر مشروط معافی مانگی اور چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے ملزم منشا کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے میں دیکھتا ہوں کون یہاں بدمعاش ہے، پولیس کے ساتھ بدتمیزی کسی صورت برداشت نہیں کروں گا اور سیاسی مداخلت کرنے والوں کو نہیں چھوڑوں گا۔چیف جسٹس نے ملک کرامت کھوکھر سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پی ٹی آئی والوں نے کب سے بدمعاشی شروع کردی، کیا لوگوں نے آپ کو بدمعاشی کرنے کے لیے ووٹ دئیے ہیں، پی ٹی آئی والوں نے بدمعاشی کرکے ڈیرے بنا رکھے ہیں، یہ لوگ بدمعاشوں کی پیروی کر کے نیا پاکستان بنانے چلے ہیں، میں کسی بدمعاش کو پاکستان میں نہیں رہنے دوں گا۔ آج انکوائری میں ثابت ہوا تو ملک کرامت کھوکھر بطور ایم این اے واپس نہیں جاؤ گے۔ملک کرامت کھوکھر نے مؤقف پیش کیا کہ میں کسی منشا بم کو نہیں جانتا، میں نے ایس پی کو نہیں ڈی آئی جی کو فون کیا تھا۔ چیف جسٹس نے ایک بار پھر مکالمہ کرتے ہوئے ملک کرامت کھوکھر سے کہا کہ ملک کرامت کھوکھر تم نے جھوٹ بولا تو یہاں سے ایم این اے کی حیثیت سے واپس نہیں جاؤ گے، اس ڈی آئی جی آپریشنز کو بلائیں جس نے سفارش کی۔ چیف جسٹس نے ڈی آئی جی آپریشنز کو طلب کرلیا۔سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو ڈی آئی جی آپریشنز نے عدالت میں پیش ہوکر اعتراف کیا کہ کرامت کھوکھر نے سفارش کے لیے فون کیا تھا۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے ایم این اے کرامت کھوکھر کو جھوٹ بولنے پر نوٹس جاری کر دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیوں نہ غلط بیانی پر آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، آپ نے عدالت میں کہا کہ آپ منشا بم کو نہیں جانتے اور پھر ڈی آئی جی کو منشا کے بیٹے کی رہائی کے لیے کیوں فون کیا۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا سب کچھ میری ڈیوائس میں ریکارڈ ہو چکا ہے جس پر کرامت کھوکھر نے کہا میں عدالت سے معذرت چاہتا ہوں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جھوٹ بولنے والا صادق اور امین نہیں ہوتا، جھوٹ بولنے پر سزا دوں گا تب تمھیں پتہ چلے گا، یہ کردار ہے آپ لوگوں کا، جھوٹ بولو گے تو کیا جواب دو گے، خدا کا خوف کرو لوگوں نے تمھیں ووٹ دیا ہے۔اس موقع پر پی ٹی آئی ایم پی اے ندیم عباس بارا نے روسٹرم پر چیف جسٹس کے سامنے ہاتھ جوڑے اور کہا کہ مجھے معاف کر دیں میں تو ایسے ہی غلطی سے سپریم کورٹ آگیا۔چیف جسٹس نے ندیم عباس بارا کو کہاتم بھی کل اسلام آباد آؤ دیکھتے ہیں معافی دینی ہے یا نہیں اور اپنا استعفی ساتھ لےکر آنا ورنہ میں خود تمھاری جگہ پر استعفی لکھ دوں گا۔اس سے قبل ایک موقع پر ایم پی اے ندیم عباس بارا نے رونا شروع کردیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ باہر بدمعاشی کرتے ہو اوراندر آکر رونا شروع کردیتے ہو۔ ایم پی اے ندیم عباس بارا نے استدعا کی کہ کیس شروع ہونے سے پہلے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، میرے خلاف ایس پی نے جھوٹے مقدمات درج کروائے، مقدمات میں میری غلطی ثابت ہوئی تو استعفی دے دوں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تم پہلے استعفیٰ دو جلدی کرو، تم لوگوں میں اتنی جرات نہیں کہ استعفی دے دو۔دریں اثنا چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے نجی یونیورسٹیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر مجاہد کامران کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ مجاہد کامران آپ کس چکرمیں پڑ گئے؟ یہ وقت آپ کے پے بیک کا ہے، آپ کو اس عمر میں کتابیں لکھنی چاہئیں اور مفت لیکچر دینے چاہئیں۔اس پر مجاہد کامران نے جواب دیا کہ میں تو ملازمت کر رہا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ چند پیسوں کے لیے تعلیمی نظام کا بیڑہ غرق کردیا، آپ کے کالجز اور ایگزیکٹ میں کیا فرق رہ گیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر تعلیمی ادارے کا سربراہ کہتا ہے کہ ہمارا ادارہ بہتر ہے، جب وہاں سروے کروایا جاتا ہے تو آوے کا آوا بگڑا ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بچوں کو تعلیم دینی ہے نہ کہ ڈگری کے نام پر کاغذ ان کے ہاتھ میں پکڑانا ہے، ہم تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، ادھر کسی کو مال بنانے نہیں دیا جائے گا۔اس موقع پر عدالت نے یونیورسٹی آف لاہور، سپیرئر میڈیکل کالج میں فراہم کی گئی سہولیات کی تحقیقات کرنے کا حکم دیتےہوئے قانونی ماہر ظفر اقبال کلانوری اور ڈائریکٹر ایف آئی اے وقار عباسی پر ٹیم تشکیل دے دی۔ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہفتے میں دونوں تعلیمی اداروں میں میڈیکل فکیلٹی سمیت سہولیات کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کریں اور گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ یونیورسٹیز کے چارٹرڈ کرنے سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے حمید لطیف ہسپتال سے متعلق کیس کی بھی سماعت کی، ڈی جی ایل ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ حمید لطیف ہسپتال نے 100فیصد قانون کی خلاف ورزی کی۔چیف جسٹس پاکستان نے حکم دیا کہ بلڈوزراورکرین لگا کرغیرقانونی تعمیرات گرادیں۔ حمید لطیف ہسپتال کے ڈاکٹر راشد لطیف نے عدالت کو بتایا کہ غریبوں کیلئے 30بیڈ،ریٹ لسٹ میں 45فیصد کمی کر دی، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کو ہر طرح عزت اور رعایت دی جائے گی، آپ کا ہسپتال ماڈل ہسپتال ہونا چاہئے، مصری شاہ سے آیا ہوا ایک عام شخص بھی آپ کے ہسپتال میں علاج کرا سکے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سٹنٹ ایک لاکھ میں ڈالنے کا حکم دیا گیا لیکن 2 سے اڑھائی لاکھ میں ڈالا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ خد اکا واسطہ ہے لوگوں کا خیال کریں، بھاری فیسیں لینے والے سکولوں کیخلاف بھی ایکشن لینے لگے ہیں، عدالت نے ڈی جی ایل ڈی اے کوخلاف ورزیوں پرایک ہفتے میں عملدرآمد کا حکم دیدیا اور آئندہ سماعت پر رپورٹ طلب کرلی۔