جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد عادلانہ نظام کا نفاذ ہے- منور حسن
کراچی (اسٹاف رپورٹر ) جماعت اسلامی اقامت دین کی تحریک ہے اور تعمیر اور کردار تطہیر افکار کے ذریعے معاشرے اور نظام کو اسلامی خطوط استوار کرنا چاہتی ہے۔ اسلام کے عادلانہ نظام کا نفاذ اور رضائے الہی کا حصول ہے جماعت اسلامی کے قیام کا بنیادی مقصد ہے مولانا مودودی ؒ نے اپنے لٹریچر کے ذریعے پوری دنیا میں احیائے اسلام کی جدوجہد کی اور دنیا بھر میں پھیلی ہوئی اسلامی بیداری اور اسلامی تحریک کے پیش رفت سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر ارو فکروسوچ کی مرہون منت ہے ان خیالات کااظہار اتوار کی شب جماعت اسلامی کے تحت سید مودودی ؒاور جماعت اسلامی دعو ت تحریک ، انقلاب کے موضوع پر منعقدہ ایک عظیم الشان خصوصی اجتماع عام سے مقررین مقررین نے اپنے خطاب میں کیا اجتماع کی صدارت جماعت اسلامی پاکستان کے سابق امیر سید منور حسن نے کی اجتماع سے جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر حافظ محمد ادریس جماعت شعبہ امور خارجہ کے ڈائریکٹر عبدالغفار عزیز معورف دانشور تجزیہ کار شاہنواز فاروقی جماعت اسلامی کر اچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن امیر ڈاکٹر اسامہ رضی و دیگر نے بھی خطاب کیا اجتماع کا انعقاد جماعت اسلامی اور بانی جماعت اسلامی سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ کے یوم پیدائش کے حو الے سے کیا گیا تھا ۔ اجتماع میں جماعت اسلامی کے ہمدرد افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی اجتماع میں شریک خواتین کے لئے علیحدہ انتظام کیا گیا تھا ۔سید منور حسن نے کہاکہ آج اجتماع کے اندر بہت بڑی تعداد میں لوگوں کا آنا اور رات دیر تک شریک رہنااس بات کا ثبوت ہے کہ تحریک اسلامی کے وابستگان کے اندرجوش و جذبہ اور پرعزم موجود ہے یہ عزم ہی زندہ تحریکوں کی علامت اور کامیابی کی ضمانت ہے یہ عزم اور حوصلہ مند افراد ہی دنیا میں کوئی بہت بڑی تبدیلی لاسکتے ہیں مولانا مودودی کی تحریک اور جماعت اسلامی کی بنیاد ان کا لٹریچر اور ان کا مقصد اور مطمعہ نظر اقامت دین کی تحریک کا احیا کرنا تھا ہمیں خود کو اس لٹریچر کے قریب کرنا ہے اور اپنا جائزہ لیتے رہنا ہے کہ ہمارا اس سے کتنا اور کیسا تعلق ہے مولانا مودودی نے اسلام کا یہ نظریہ پیش کیا کہ دین غالب ہونے کے لئے آیا ہے اور اس دین کے ماننے والوں کا فرض ہے کہ اس کو غالب کرنے کی جدوجہد کریں یہ دین و دنیا کے اندر عدل اور میزان قائم کرنے آیا تھا اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس دنیا میں نافذ کریں انہوں نے کہاکہ قرآن کو صرف ایک تلاوت کی کتاب نہ بنائیں بلکہ قرآن کو کتاب انقلاب کے طورپر لیں اور قرآن جو نظام چاہتا ہے جو حکم دیتا ہے اس پر عمل کریں اور ان کے احکامات کو نافذ کریں اقامت دین کی جدوجہد کے تقاضے پورا کریں۔