دوسری قسط
سجاد عباسی
ہوٹل کے کمرے میں سامان رکھنے، شاور لینے اور لباس تبدیل کرنے کے بعد ہم بہ مشکل پاکستان میں اہلخانہ کو بخریت ماسکو آمد کی اطلاع ہی دے پائے تھے کہ گھڑی نے پونے پانچ بجا دیئے اور پانچ بجے لابی میں پہنچنے کا حکم تھا۔ سو پندرہ منٹ آرام کی کوشش کو حماقت تصو رکرتے ہوئے ہم چھٹی منزل سے نیچے چل دیئے۔ البتہ اس سے پہلے ہم نے اپنے کمرے کی کھڑکی سے شہر کے چند مناظر موبائل فون کیمرے میں محفوظ کرلئے۔ ہوٹل کے سامنے واقع سڑک اتنی کشادہ تھی کہ اس پر رن وے کا گماں ہوتا تھا۔ یہ شہر کا مرکزی علاقہ ہے، جہاں قطار اندر قطار خوبصورت اور قد آور عمارتیں ایستادہ ہیں۔ ان میں سے بعض قدیم اور فن تعمیر کا شاہکار ہیں۔ بیشتر عمارتوں پر بورڈ بھی نصب ہیں، مگر ’’زبان یار من روسی‘‘ والی مشکل حائل تھی۔ اگلے سات روز روس میں قیام کے دوران ہماری آنکھیں انگریزی یا کسی اور زبان میں لکھی عبارت یا الفاظ تلاش ہی کرتی رہیں، مگر وائے حسرت۔ در اصل روسیوں کا قومی مزاج ہے کہ وہ اپنی زبان، ثقافت اور تاریخ کو بے حد عزیز رکھتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ باہر سے آنے والا روسی زبان میں لکھے گئے سائن بورڈ پڑھ پائے گا یا نہیں۔ کسی کو ان کے بارے میں جاننے کا زیادہ شوق ہے تو وہ روسی سیکھ لے۔ اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ روسیوں کو انگریزی نہیں آتی۔ اس کا اندازہ ہمیں اگلے دو تین روز میں مختلف میڈیا گروپس کے سرکردہ افراد سے ملاقاتوں میں ہوا، جہاں بطور مترجم وفد کے ساتھ جانے والی پاکستانی سفارتخانے کی روسی افسر ماریہ ٹک ٹک دیدم کی تصویر بنی رہی اور روسی حضرات فرفر انگریزی بولتے رہے۔ مگر ذاتی زندگی میں حرام شے کو حلال تصور کرنے والے روسی، انگریزی کو ’’حرام‘‘ ہی سمجھتے ہیں۔ آپ کسی روسی سے انگریزی میں بات کرنے کی کوشش کریں گے تو وہ ’’نیزنا‘‘ کہہ کر گزر جائے گا۔ یعنی ’’مجھے نہیں معلوم‘‘ یا پھر نفی میں گردن ہلا دے گا۔ البتہ ہوٹل کا عملہ انگریزی بولنے میں تامّل سے کام نہیں لیتا، کیونکہ ’’گلشن کا کاروبار‘‘ بھی چلانا ہے۔ چنانچہ آتے جاتے آپ کو گڈ مارننگ، گڈ ایوننگ وغیرہ کے الفاظ دلنشیں مسکراہٹ کے ساتھ سنائی دیتے ہیں۔
ہمیں ارباط اسٹریٹ جانا تھا، جو ہوٹل سے نصف کلومیٹر کی دوری پر تھی، سو پیدل ہی جانے کا طے ہوا۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ تقریباً ایک کلومیٹر طویل اس اسٹریٹ پر سائیکل سمیت ہر قسم کی گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ کیونکہ یہ اسٹریٹ صرف واک کرنے والوں کیلئے مخصوص ہے۔ لہٰذا ارباط اسٹریٹ کے احترام میں وہاں پیدل جانا ضروری تھا۔ کوئی پندرہ منٹ بعد ہم ارباط اسٹریٹ پر تھے۔ اسٹریٹ کیا تھی، ایک طلسم ہوش ربا تھا۔ بھاگتے دوڑتے خوش شکل، خوش لباس اور خوش مزاج انسانوں کا ایک دریا جو شام پانچ بجے سے رات بارہ ایک بجے تک رواں رہتا ہے۔ کم و بیش چار سو فٹ چوڑی اور ایک کلومیٹر طویل اس سڑک کے دونوں جانب ریستوران، دکانیں اور عمارتیں ہیں۔ جبکہ دونوں طرف فٹ پاتھ پر میلے کا سماں رہتا ہے۔ کہیں اشیائے خور و نوش اور گفٹ آئٹمز کے اسٹال لگے ہیں تو کہیں کوئی مداری تماشا لگائے بیٹھا ہے۔ کہیں آرٹ کے دلدادہ لائیو پینٹنگز بنوا رہے ہیں تو کہیں نوجوان لڑکے لڑکیاں ٹولیوں کی شکل میں میوزک کی دھن پر رقص کر رہے ہیں۔ کہیں کوئی منچلا ستار کے تاروں پر دھن بکھیر رہا ہے تو کہیں کوئی شوقیہ فنکار مائیکرو فون اٹھائے تقریر کئے جا رہا ہے، اس امر سے بے نیاز کہ کوئی سن رہا ہے یا نہیں؟ یعنی ہر عمر کے افراد کی تسکین ذوق کا سامان موجود ہے، مگر ان سب پر غالب وہ ہجوم ہے جو مسلسل چلے جا رہا ہے۔ ہنستے مسکراتے، دمکتے چہروں کا ایک ہجوم بیکر اں، جو زندگی کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ کہیں نوجوان جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ’’شخصی آزادی‘‘ کا فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں تو کہیں بینچوں پر بیٹھے بزرگ ایک دوسرے کو سہارا دیئے ماضی کی حسین یادوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ پورا ماسکو ہی شام کو اٹھ کر چہل قدمی کیلئے ارباط اسٹریٹ آ جاتا ہے۔ ٹین ایجرز کی اسکیٹنگ تو پاکستان میں بھی معمول کی بات ہے (اور اس سے مصروف شاہراہوں کو بھی استثنیٰ نہیں)، مگر وہاں پچاس، پچپن برس کی دادی اور نانی امّائیں بھی ’’ای سکوٹی‘‘ یا ہاور بورڈ (Board Hover) پر سپر سانک رفتار سے زمینی پرواز کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس عمر میں ہمارے ہاں کوئی خاتون ایسی حرکت کر بیٹھے تو یا تو کوئی ہڈی چٹخ جائے گی یا پھر اہل محلہ کے طعنے مار ڈالیں گے۔
ہم ارباط اسٹریٹ پر چلے جا رہے ہیں اور ہر طرف دلچسپ اور خوش کن مناظر بکھرے پڑے ہیں۔ درمیان میں ایک اسٹال پر غیر معمولی رش دیکھ کر جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ یہ پرانی کتابوں کا اسٹال ہے۔ جس پر ہر عمر کے افراد موجود ہیں اور دھڑا دھڑ کتابیں خرید رہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ موبائل ٹیکنالوجی کی ترقی نے جس طرح ہماری نوجوان نسل کو ’’یرغمال‘‘ بنا لیا ہے، ویسی صورت حال روس میں نہیں۔ وہاں کی نوجوان نسل اب بھی کسی حد تک کتاب سے جڑی ہوئی ہے۔ روس ایک زمانے میں عالمی سطح پر ادب کا گہوارہ رہا ہے۔ جہاں ٹالسٹائی، دوستو وسکی، الیگزینڈر پشکن (جسے روسی شیکسپئر بھی کہا جاتا ہے)، چیخوف اور میکسم گورکی جیسے سینکڑوں شہرہ آفاق ادیب اور شاعر پیدا ہوتے رہے ہیں۔ جن کی تحریروں نے پوری دنیا کے ادب پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ روسی اپنے علمی اور ادبی ورثے کو اب بھی سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ وطن واپسی سے پہلے ماسکو کے ریڈ اسکوائر کے سامنے واقع جس ڈاکٹر ژواگو ریسٹورنٹ پر ہم نے ناشتہ کیا۔ وہ عظیم روسی ادیب بورس پاسترناک کے لازوال ناول ڈاکٹر ژواگو سے منسوب ہے، جس کے بعض کردار ہوٹل کے اندر مجسموں کی صورت پتھرائے کھڑے ہیں۔ اسی طرح دریائے ماسکو کے کنارے واقع گورکی پارک عظیم روسی لکھاری اور ناول نگار میکسم گورکی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے۔ ارباط اسٹریٹ پر واک کرتے ہوئے ہم نے اپنے ایک ساتھی سے پوچھا ’’ایسا کیوں ہے کہ ہمارے ہاں پارکوں اور عوامی مقامات پر بھی مطمئن اور ہشاش بشاش چہرے تلاش کرنے میں خاصی دقت ہوتی ہے مگر یہ روسی عجیب مخلوق ہیں۔ مست الست، بے فکر ے لوگ‘‘۔ ہمارے گائیڈ جو چلتے ہوئے کن اکھیوں سے ہمیں دیکھ رہے تھے، ان کے کان ہماری طرف متوجہ تھے، بولے اس کا کریڈ ٹ پیوٹن حکومت کو جاتا ہے۔ جس نے اپنے عوام کو ہر قسم کی فکروں سے آزاد کر رکھا ہے۔ ملک کتنی بھی پابندیوں میں کیوں نہ جکڑا ہوا ہو، اس کی پرچھائیں عوام پر نہیں پڑنے دی جاتی۔ ہر روسی شہری اگر دو نہیں تو ایک گھر کا مالک ضرور ہے اور یہ گھر حکومت کا فراہم کردہ ہے۔ صحت اور تعلیم مفت ہے۔ یوٹیلٹی بلز برائے نام ہیں۔ فوڈ آئٹمز سستے ہیں۔ آپ فوڈ اسٹریٹ چلے جائیں تو 50 روبل سے ایک ہزار روبل تک، جس قسم کا کھانا چاہیں کھا لیں۔ روسیوں کا پسندیدہ مشروب (واڈکا) پانی سے بھی سستا ہے۔ لے دے کر لباس رہ جاتا ہے، جس پر خرچ کرنے کیلئے ہر روسی کے پاس خطیر رقم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کسی بھی شاپنگ سینٹر پر چلے جائیں آپ کو لگے گا سارا ماسکو یہیں آ گیا ہے۔ ماسکو کے دو شاپنگ سینٹرز پر ہمارا جانا ہوا اور دونوں جگہ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ ان میں سے ایک تو ریڈ اسکوائر پر واقع ’’گم‘‘ (GUM) شاپنگ مال تھا، جسے انگریزی میں یونیورسل کہا جاسکتا ہے۔
یہ مال روسی اور اطالوی مہارت اور فن تعمیر کا شاہکار ہے، جسے 1890ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کی چھت بیضوی شکل میں شیشے کی بنی ہوئی ہے۔ GUM کے نام سے سابق سویت یونین کے تمام بڑے شہروں میں ڈپارٹمنٹل اسٹور قائم کئے گئے تھے، جن میں سے متعدد اب آزاد ریاستوں میں ہیں۔ تاہم ان میں سب سے بڑا مال یہی ہے جو مشہور سیاحتی مرکز ریڈ اسکوائر کے سامنے واقع ہے۔
یہاں موجود اشیا کے ’’پرائس ٹیگ‘‘ تو ہم سب نے بڑی دلچسپی سے دیکھے، مگر قیمتیں دیکھ کر کسی کو بھی خریداری کی ہمت نہ ہوئی۔ البتہ ہمارے علاوہ سب لوگوں نے ’’کیپی چینو‘‘ نامی کافی نما شے مزے لے لے کر پی۔ نوش تو ہم نے بھی کی مگر اس کی ہر چسکی کسی امتحان سے کم نہ تھی اور اس دوران ہمیں مسلسل پاکستان کی دودھ پتی کی یاد ستاتی رہی۔ روس میں قیام کے دوران چائے کا حصول ہمارے لئے مسلسل چیلنج بنا رہا۔ گرم پانی میں ٹی بیگ اور دودھ ملا کر چائے سے ملتا جلتا جو محلول ہم تیار کرتے تھے، وہ ٹیبل پر آنے تک ٹھنڈا ہو جاتا تھا۔ البتہ کافی سے ملتی جلتی ایک چیز ہمیں وہاں قیام کے ساتویں روز کچھ سمجھ میں آئی جسے’’کا کائو‘‘ کہا جاتا ہے۔ مگر تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہوٹل کے قریب واقع یورو (Europe) شاپنگ مال پر کھڑکی توڑ قسم کی سیل لگی ہے، کیونکہ سمر سیزن (گرمی) جا رہا ہے۔ ہمیں ذاتی استعمال کیلئے ایک دو ٹی شرٹس لینا تھیں، سو ہم فہد حسین اور حافظ طارق محمود کے ساتھ یورو مال جا پہنچے۔ مگر بعد از خرابی بسیار ایک آدھ پرفیوم کے سوا کچھ بھی خریدنے میں کامیابی نہیں ہوئی۔ سبب اس کا یہ تھا کہ کراچی کی زینب مارکیٹ پر تین سے پانچ سو روپے تک ملنے والی ٹی شرٹ کی ’’رعایتی قیمت‘‘ تین سے ساڑھے تین ہزار یعنی چھ، ساڑھے چھ ہزار پاکستانی تھی۔ مگر ٹیگ دیکھ کر شاپنگ نہ کر پانے کا ملال جاتا رہا، کیونکہ بیشتر شرٹس اور جینز پر ’’میڈ ان پاکستان‘‘ لکھا تھا۔ (جاری ہے)