مرزا عبدالقدوس
سعودی عرب کا ایک اعلیٰ سطح کا وفد گزشتہ روز (اتوار کو) پانچ روزہ دورے پر پاکستان آیا ہے جو آٹھ سے دس ارب ڈالر کے پیکیج پر پاکستان سے بات چیت کرے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سعودی عرب سے تیل ادھار پر لینے کے علاوہ اسے گوادر میں آئل ریفائنری کے قیام اور ریکوڈک منصوبے میں بھی سرمایہ کاری کی پیشکش کی جائے گی۔ ریکوڈک (بلوچستان) میں دنیا کے سونے کے پانچویں بڑے ذخائر موجود ہیں، جن کی مالیت دو کھرب ڈالر سے زیادہ ہے۔ سو کلو میٹر سے زیادہ پھیلے ان ذخائر میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 54 ملین ٹن کے ذخائر ہیں۔ مالی ماہرین کے مطابق اگر ان ذخائر کو استعمال میں لایا جائے تو پاکستان کے موجودہ قرضوں سے کئی گنا زائد قرض بھی آسانی سے ادا کیا جا سکتا ہے اور پاکستان معاشی قوت کے طور پر اپنے آپ کو منوا سکتا ہے۔ ریکوڈک میں سونے کے علاوہ تانبے، چاندی اور دیگر قیمتی دھاتوں اور پیٹرولیم کے متبادل شیل گیس کے ذخائر بھی موجود ہیں۔ ایک غیر ملکی کمپنی تھیریان کو 2004ء میں اس منصوبے کا ٹھیکہ دیا گیا تھا، جو 2012ء میں بلوچستان حکومت نے منسوخ کر دیا اور سپریم کورٹ نے بھی اس کی توثیق کردی تھی۔ جس کے بعد اس کمپنی نے عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا اور بعض حلقوں کے مطابق اگر معاہدہ منسوخ ہوا تو پاکستان کو 11.4 بلین ڈالر فوری ادا کرنا پڑ سکتے ہیں۔ لیکن بعض قانونی ماہرین کے مطابق اس کمپنی کے ساتھ معاہدے میں کئی خامیاں تھیں۔ جرمانے کے بغیر بھی معاہدہ ختم ہو سکتا ہے۔ فی الوقت اس منصوبے پر کام بند ہے اور اس کی بظاہر بڑی وجہ سرمایہ کاری کا فقدان ہے، جس کے لئے ذرائع کے بقول حکومت پاکستان، سعودی حکومت کے آنے والے وفد کو سرمایہ کاری کی آفر کرے گی اور اس منافع بخش منصوبے میں سرمایہ کاری پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ذرائع نے بتایا کہ سعودی عرب نے سی پیک میں بھی دلچسپی لی تھی، لیکن اس کا پاکستان اور چین دونوں ممالک نے سرکاری سطح پر کوئی جواب نہیں دیا۔
ماضی میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند ریکوڈک منصوبے سے وابستہ رہے ہیں۔ جنہیں بلوچستان حکومت نے اس منصوبے سے الگ کر دیا تھا۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے مطابق اس منصوبے کی کامیابی کیلئے سرمایہ کاری سے زیادہ نیک نیتی کی ضرورت ہے۔ ’’امت‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ ’’ابھی یہ تفصیلات سامنے نہیں آئیں اور نہ میرے علم میں ہے کہ سعودی حکومت کتنی سرمایہ کاری کرے گی۔ اس سرمایہ کاری کے نتیجے میں وہاں کام کون کرے گا۔ اور یہ کہ انتیس تیس کانیں جو سونے، تانبے اور دیگر قیمتی دھاتوں کی ہیں، ان میں سے کس دھات اور کان پر پہلے کام ہوگا؟ بلاشبہ اس منصوبے پر سرمایہ کاری سے دونوں ممالک کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے، لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر نیک نیتی سے کام کیا جائے تو صرف پانچ سو ملین ڈالر سے بھی کام کا آغاز ہو سکتا ہے۔ حکومت پاکستان کی معاشی حالت اتنی بھی خراب نہیں ہے کہ وہ اپنے طور پر بھی اس کی سرمایہ کاری کا بندوبست نہ کر سکے‘‘۔ ایک سوال پر ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے کہا کہ ’’500 ملین ڈالر بھی وقفے وقفے سے خرچ ہوں گے۔ فوری طور پر اور اکٹھے خرچ نہیں ہوں گے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ریکوڈک پر تھیریان نامی جو کمپنی کام کر رہی تھی، وہ اپنے معاہدے سے دستبردار ہو چکی ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ اب کوئی ایشو نہیں ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے بقول ’’بیرون ملک سے مشینری منگوانے میں ڈیڑھ سے دو ماہ لگ سکتے ہیں۔ پاکستان میں اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین اور کان کن موجود ہیں، جو دیگر کئی پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔ اس لئے کسی بیرونی ملک سے ماہرین بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جب میں اور میری ٹیم اس منصوبے پر کام کررہی تھی تو اس وقت فنی ضرورتوں کے لئے عمارت بن چکی تھی۔ پاور اسٹیشن بھی تیار تھا اور ہم آگے بڑھ رہے تھے کہ بلوچستان حکومت نے اچانک کام بند کرادیا۔ جن لوگوں کو گھر بھیجا گیا تھا، ان کو اب بھی اس منصوبے پر کام کرنے دیا جائے تو پانچ چھ ماہ میں نتائج سامنے آنے لگیں گے اور اس کے کچھ عرصے بعد سرمایہ کاری کی واپسی شروع ہوجائے گی‘‘۔ ایک اور سوال پر ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے بتایا کہ ’’سینڈک پروجیکٹ میں اس وقت تقریباً تین سو پاکستانی ماہرین کام کر رہے ہیں۔ دیگر کئی منصوبوں میں بھی ہمارے اپنے ماہرین موجود ہیں۔ اس لئے ریکوڈک جسے اہم منصوبے کے لئے سب سے اہم بات نیک نیتی کی ہے اور اس کے بعد سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اگر پانچ سال تک بغیر کسی رکاوٹ کے کام جاری رکھا جائے تو اس کے نتائج کے لئے کسی بریفنگ کی ضرورت نہیں ہوگی۔ بلکہ پوری قوم اس کے عملی نتائج سے آگاہ ہونے لگے گی‘‘۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا کہنا تھا کہ ’’سونے اور تانبے کی بعض کانیں بہت گہری ہیں، جن میں سے معدنیات نکالنے میں وقت لگے گا۔ اس لئے اگر کام کا آغاز ہوتا ہے تو سب سے پہلے ترجیحات کا بھی تعین کرنا ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ کتنا سرمایہ میسر ہے اور کتنے مقامات پر بیک وقت آغاز ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اسی وقت طے ہوگا جب سرمائے کی یا سعودی حکومت کی سرمایہ کاری کی تفصیلات سامنے آئیں گی۔ ریکوڈک ایک بہت بڑا اور ملک کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ ہے۔ بدقسمتی سے اسے اب تک وہ اہمیت نہیں دی گئی، جو دی جانی چاہئے تھی۔ اگر اہمیت دی جاتی اور نیک نیتی سے کام ہوتا تو ملک کی تقدیر بدل جاتی۔ اس منصوبے کے حوالے سے کوئی بھی معاہدہ سرمایہ کاری لانے کیلئے نیک نیتی اور قومی مفادات کا تحفظ اب بھی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ ٭