پشاور/کابل(نمائندہ خصوصی/مانیٹرنگ ڈیسک) جے یو آئی(س) اور دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے طالبان سے ثالثی کیلئے افغان حکومت کی درخواست مسترد کردی اور کہا ہے کہ اگر امریکہ انخلا کی یقین دہانی کرادے تو مذاکرات میں کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہوں۔ دوسری جانب افغان علما کونسل نے کہا ہے کہ پاکستانی اور افغان علما افغانستان میں امن عمل بڑھانے کیلئے مشترکہ اجلاس بلانے پر متفق ہوگئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق افغانستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے تنگ آکر افغان حکومت نے طالبان سے مذاکرات کے لیے مولانا سمیع الحق سے مدد مانگی تاہم مولانا سمیع الحق نے افغان حکومت و افغان طالبان میں ثالث کا کردار ادا کرنے سے معذرت کرلی ہے۔ افغان مصالحتی کمیشن کے جنرل سیکریٹری مولوی سلیم الرحمان کی سربراہی میں اعلیٰ سطح وفد نے مولانا سمیع الحق سےاکوڑہ خٹک میں ملاقات کی ۔دیگر ارکان میں مولوی عنایت اللہ ،مولوی محمد قاسم حلیمی ،مولوی عبد اللہ حقانی شامل تھے۔ملاقات ڈھائی گھنٹے تک جاری رہی جس میں جامعہ حقانیہ سے فارغ علما اور مولانا سمیع الحق کے تلامذہ بھی شریک ہوئے۔ افغان وفد کا کہنا تھا کہ آپ کو رہبر تسلیم کرتے ہیں، آپ کا ہر فیصلہ تسلیم کریں گے، افغانستان میں قیام امن کے لیے آپ ہماری رہنمائی کریں، افغان طالبان کی طرح آپ کو اپنا استاد، رہبر سمجھتے ہیں۔مولانا سمیع الحق نے کہا کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، عالمی طاقتیں اسے حل کرنے نہیں دیتیں، کمزور کندھوں پر اتنی بڑی ذمہ داریوں کا بوجھ نہیں ڈال سکتا، افغانستان کی آزادی اور اسلام کی حکمرانی کے لیے دعا گو ہیں۔اندرونی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اکوڑہ خٹک میں مولانا سمیع الحق کے ساتھ مذاکرات میں شمالی اتحاد کے رہنماء اور افغان سفارتخانے کا عملہ بھی موجود تھا۔مولانا سمیع الحق کا مزید کہنا تھا کہ میں اس لئے فریق نہیں بن سکتا کہ اصل مسئلہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہے ۔ میں ثالث صرف اس صورت میں بنوں گا کہ امریکہ انخلا کا واضح اعلان کرے اگر ایسا نہیں ہوا میں کیسے ثالثی کروں، طالبان اشرف غنی حکومت کے ساتھ مذاکرات نہیں چاہتے۔انہوں نے مشورہ دیا کہ پہلے مرحلے میں آپ میں سے چند مخلص علماء افغان حکمران پاکستان اور امریکہ کی مداخلت سے ہٹ کر خاموشی سے کسی خفیہ مقام پر مل بیٹھیں اور متحارب گروہ ایک دوسرے کا نقطہ نظر سمجھ لیں۔مولاناسمیع الحق نے کہاکہ میرے نزدیک اس مسئلہ کا واحد حل افغانستان کے حکمرانوں ،پچھلے دور کے مجاہدین تمام عوام او رطالبان کا ایک نقطہ پر متفق ہوکر ملک کی آزادی اورامریکی نیٹو افواج کا انخلاء ہونا چاہیے۔ اس طرح قابض استعماری قوتیں نکلنے پر مجبور ہوسکتی ہیں۔اس کے بعد تمام افغانیوں کو ملک بیٹھ کر ملک کیلئے ایک نظام پر اتفاق کرنا چاہیے اور تمام طبقوں کو افغانستان کی آزادی کے لئے دی گئی لاکھوں افراد کی جانی شہادتوں اور لاکھوں مہاجرین کے دربدر ہونے کی قربانیوں کی لاج رکھنی چاہیے ۔27 ستمبر سے پاکستان آئے ہوئے وفد نے پیر کی صبح ناشتے پر جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق سے بھی ملاقات کی اور افغان صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہاکہ ہم بین الا فغانی امن مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں، ہماری حمایت کسی گروہ کے ساتھ نہیں بلکہ افغان قوم کے ساتھ ہے جو متحد ہو کر بیرونی قابضین کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر سکتی ہے ۔انہوں نے وفد کو جماعت اسلامی کی جانب سے مکمل تعاون کا یقین دلایا اور کہا کہ افغانستان میں جنگ صرف افغان قوم اور دین اسلام کے دشمنوں کو فائدہ پہنچا ئے گی ، اس لیے تمام افغان گروہوں کو امن کی خاطر مذاکرات کی میز پر آنا چاہیے اور افغان مسئلے کا ایسا حل تلاش کرنا چاہیے جو تمام گروہوں کے نزدیک مبنی بر انصاف ہو اور افغان قوم کی امنگوں کے مطابق ہو ۔ وفد پیر کے روز واپس افغانستان چلا گیا ۔بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان وفد پاکستان سے ناکام واپس گیا ہے کیونکہ اسے اپنے مقاصد میں کامیابی نہیں ملی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے بھی طالبان کے مؤقف کی حمایت کی اور کہا کہ امریکہ جنگجوؤں سے براہ راست مذاکرات کرے تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ طالبان نے اس حمایت پر جماعت اسلامی کا شکریہ ادا کیااور کہا کہ جس طر ح سراج الحق نے امریکی انخلاء کے بعد افغانوں کے درمیان مصالحت کی بات کی ہم اس کے لئے تیار ہیں اور امید کرتے ہیں کہ دیگر پاکستانی مذہبی جماعتوں اور علما بھی سراج الحق کی طرح واضح مؤقف اپنائیں گے۔ ادھر کابل میں افغان ٹی وی طلوع کے مطابق افغان علما کونسل کے رکن نور پاچا حمت نے بتایا کہ افغانستان اور پاکستان کے علما نے ایک کانفرنس بلانے پر آمادگی کا اظہار کیا، لیکن یہ اب تک واضح نہیں کہ اجلاس کہاں منعقد کیا جائے گا،اس حوالے سے افغان حکومت کا کہنا تھا کہ انہیں اُمید ہے کہ مذکورہ اجلاس ملک میں جاری بد امنی اور جنگ کے اختتام میں مدد گار ثابت ہوگا۔افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ترجمان اُمید میسم کا کہنا تھا کہ یہ اجلاس ان لوگوں کو جگانے کے لیے ہے جنہوں نے اپوزیشن میں جانے کا ارادہ کیا ہے یا اس میں شامل ہوچکے ہیں۔