پٹری کیلئے اراضی نہ ملنے سے سرکلر ریلوے منصوبہ کا مستقبل مخدوش
کراچی (رپورٹ: ارشاد کھوکھر) سابق وفاقی حکومت کی عدم دلچسپی اور اعتراضات کے باعث گزشتہ 3برس سے التوا کا شکار کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کے لئے حکومت سندھ نے ازسرنو کوشش شروع کر دی۔ سی پیک میں شامل 2ارب ڈالر لاگت کے مذکورہ منصوبے کو 16اکتوبر کو چین میں ہونے والے ورکنگ گروپ کے اجلاس میں غور کے لئے دوبارہ پیش کیا جائے گا، تاہم پٹری کیلئے اراضی نہ ملنے سے منصوبے کا مستقبل مخدوش نظر آتا ہے۔ واضح رہے کہ سابق دور حکومت میں ورکنگ گروپ کے بعد جے سی سی میں بھی مذکورہ منصوبہ منظور ہوچکا تھا، تاہم وفاق کی جانب سے سٹی اسٹیشن سے ڈرگ روڈ تک کےسی آر کے لئے زمین پر پٹری بچھانے کی اجازت دینے کے بجائے معلق پٹری اور باقی روٹ پر بھی بسوں کے ٹائر والی ٹرین چلانے سمیت بڑی تبدیلیاں تجویز کرنے سے منصوبہ الجھ گیا اور کام شروع نہ ہوسکا۔ ذرائع کے مطابق 1989میں کراچی سرکلر ریلوے کے سی آر بند ہوجانے کے بعد سابق صوبائی حکومت نے 2015میں کے سی آر کو ازسرنو تعمیر کرنے کے لئے سرگرمیاں شروع کی تھی اور اس ضمن میں موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اپنے سابق دور میں مذکورہ منصوبے کو سی پیک کے منصوبوں میں شامل کرانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ 2ارب ڈالر لاگت کے مذکورہ منصوبے سی پیک کے حوالے سے پاکستان اور چین کے مشترکہ ورکنگ گروپ منصوبے نے منظوری دی تھی، جس کے بعد جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی (جے سی سی) میں بھی اسے منظور کر لیا گیا، تاہم سابق وفاقی حکومت کی دلچسپی اور آخری دن تک ساورن گارنٹی نہ دینے کی وجہ سے معاملہ لٹک کیا۔ اس وقت ریلوے کے وزیر مذکورہ منصوبے پر کئی اعتراضات اٹھائے۔ حکومت سندھ کو یہ شکایات تھی کہ اس وقت کے ریلوے کے وزیر بے جا اعتراضات کرنے کے ساتھ مذکورہ منصوبے میں روڑے اٹکا رہا تھا اور انہوں نے منظوری پر بھی اعتراضات کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ ان کی عدم موجودگی میں منظوری دی گئی۔ ذرائع کا کہناہے کہ سابق وفاقی حکومت نے کے سی آر کیلئے سٹی اسٹیشن سے ڈرگ روڈ ریلوے اسٹیشن تک الگ پٹری لائنیں بچھانے کی مخالفت کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا تھاکہ پاکستان ریلوے درآمد کوئلے کی ترسیل کے لئے سٹی اسٹیشن سے خود ایم ایل ون کے نام سے مال گاڑیوں کے لئے الگ پٹری بچھا رہی ہے۔ اس لئے سرکلر ریلوے کے لئے الگ لائنیں بچھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سندھ حکومت کے سی آر سے سٹی اسٹیشن ڈرگ روڈ تک کا منصوبہ خارج کر دے۔ ذرائع نے بتایا کہ حکومت سندھ نے کے سی آر پر قائم جو تجاوزات ہٹوائیں۔ اس پر بھی ریلوے حکام نے اعتراضات کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا تھا کہ اس کی ضرورت نہیں جب منصوبے کا فیصلہ ہوجائے گا تو اس کے بعد تجاوزات ہٹوائی جائیں۔ دوسری جانب چینی حکام کا مطالبہ تھا کہ پہلے تجاوزات کے خاتمہ کیا جائے اور سندھ حکومت نے اسے پورا کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے دسمبر 2017 میں کے سی آر منصوبے کا سنگ بنیاد رکھنے کا اعلان کیا تھا، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے ساورن گارنٹی دینے اور مذکورہ منصوبے میں عدم دلچسپی ظاہر کرنے کے باعث چینی حکام پیچھے ہٹ گئے۔ ذرائع نے بتایاکہ حکومت سندھ نے کے سی آر کے لئے دوبارہ کوششیں شروع کر دی ہیں اور اس ضمن میں 16اکتوبر کو چینی سی پیک منصوبوں کے متعلقہ مشترکہ ورکنگ گروپ کے اجلاس میں دوبارہ پیش کیا جائے گا۔ حکومت سندھ کی کوشش ہے کہ سی پیک میں شامل مذکورہ منصوبے کے لئے 2ارب ڈالر کا قرضہ حاصل کرکے اس پر کام کا آغاز کیا جائے، جبکہ دیگر ذرائع کا کہناہے کہ وفاقی حکومت نے حکومت سندھ کو تجویز دی ہے کہ سٹی اسٹیشن سے ڈرگ روڈ تک کے سی آر کے لئے زمین پر پٹری بچھانے کے بجائے ایلیویٹڈ منصوبے کے تحت پہلے سے تعمیر ریلوے لائنیں کے اوپر سے لائنیں بچھائی جائیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں منصوبے کی لاگت میں بے انتہا اضافہ ہوگا اور اس لئے پھر الگ سے اسٹڈی کرانے کے ساتھ منصوبہ تیار کرنے میں مزید وقت بھی درکار ہوگا۔ ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے حکومت سندھ کو یہ تجویز بھی دی ہے کہ کے سی آر کے روٹ میں لائٹ ٹرین چلانے کے بجائے سڑک تعمیر کرکے اس پر ٹائروں سے چلنے والی گاڑیوں کی سروس شروع کی جائے۔ اس ضمن میں ماہرین کا کہناہے کہ دنیا کی بڑے شہروں میں شمار ہونے والے کراچی شہر کے لئے سرکلر ریلوے کی سہولت زیادہ مفید ثابت ہوگی۔ اس طرح وفاقی حکومت کی مذکورہ تجاویز سامنے آنے کے بعد کے سی آر کا مستقبل اب بھی دھندلا ہے، تاہم حکومت سندھ نے ازسرنو کوششیں شروع کر دی ہیں۔