پہلی قسط
احمد خلیل جازم
گجرات سے چالیس کلومیٹر دور ہیڈ مرالہ روڈ پر ایک گائوں بڑیلہ شریف واقع ہے۔ اس گائوں کی ایک انفرادیت تو یہ ہے کہ یہ پاک بھارت بارڈر سے متصل ہے اور 65ء کی جنگ سمیت 71 ء کی جنگ کے دوران بنائی گئی مٹی کی بڑی تہہ دار دیوار جسے ’’بنھ‘‘ کہتے ہیں، آج بھی یہاں دیکھی جاسکتی۔ لیکن اس کی اصل انفرادیت، روایت کے مطابق ایک نبی حضرت قنبیط ؑ کی قبر مبارکہ ہے جس کے اوپر پختہ مزار تعمیر کیا جاچکا ہے۔ حضرت قنبیطؑ کے بارے کہاجاتا ہے کہ آپ حضرت آدمؑ کی 11ویں جوڑی (اولاد) یعنی بیٹا اور بیٹی جو ساتھ ساتھ پیدا ہوتے تھے، اس میں سے تھے۔ حضرت قنبیط ؑ کے مزار پر زائرین کا ہجوم لگا رہتا ہے۔ یہ قبر سترگز (210 فٹ) لمبی ہے، جس کی نشان دہی حضرت حامؑ کی قبر کی طرح حافظ شمس الدین گلیانوی نے کشف القبور کے علم سے کی تھی۔ بعض تحقیق نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ قبر حضرت حامؑ کے بیٹے کی ہے۔ جبکہ بعض محقق اسے حضرت آدمؑ کے بیٹے قابیل سے منسوب کرتے ہیں، جو ہابیل کو قتل کرنے کے بعد اسی علاقے میں آکر چھپ گیا تھا، جس کا آگے تفصیلی ذکر آئے گا۔ بڑیلہ گائوں اب بھی اس قدر آباد نہیں ہے اور قدیم زمانے میں لامحالہ یہاں جنگل بیابان ہوتا ہوگا۔ آج بھی اس مزار کے اردگرد صدیوں قدیم پیپل کے درخت دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ ایک پرانا قبرستان ہے، جس میں 1965ء کی جنگ کے شہدا کی قبریں بھی ہیں۔ اس کے علاوہ اس مزار سے متصل چھوٹی سی مسجد کا نام بھی مسجد الشہدا ہے جو انہی 65ء کی جنگ کے شہیدوں کی یاد میں تعمیر کی گئی ہے۔
راولپنڈی سے تقریباً چار گھنٹے کا سفر کرکے ’’امت‘‘ کی ٹیم گجرات اور وہاں سے دو گھنٹے کا سفر طے کرکے بڑیلہ شریف پہنچی۔ گجرات سے احسان فیصل کنجاہی اور غلام مصطفی شریک سفر ہوئے، جنہوں نے نہ صرف اس مزار تک ہماری رہنمائی کی بلکہ اس تاریخی علاقے کے ایک ایک قصبے کا احوال بھی بیان کرتے رہے۔ بڑیلہ شریف ہیڈ مرالہ روڈ پر واقع ہے، ہیڈ مرالہ روڈ سیالکوٹ جانکلتا ہے پھر اسی سڑک پرآزاد کشمیر کا آخری گائوں سرخ پور آتا ہے جس کے بعدمقبوضہ کشمیر شروع ہوجاتا ہے۔ بڑیلہ سے مقبوضہ کشمیر کا علاقہ اور پہاڑ ننگی آنکھوں سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ اسی روڈ پر اور بڑیلہ گائوں کے قریب آزادکشمیر کے دو معروف گائوں چھمپ اور جوڑیاں بھی واقع ہیں جو 65ء کی جنگ میں چھمپ جوڑیاں کے نام سے مشہور ہوئے۔ جبکہ اس روڈ پر گائوں لکھن وال بھی ہے۔ احسان فیصل نے بتایا کہ معروف فلمی ہیروئن صبیحہ خانم اور معروف صحافی سہیل وڑائچ کا آبائی گائوں یہی ہے۔ ہیڈ مرالہ روڈ روڈ پر دائیں جانب ایک سڑک نکلتی ہے جو تاریخی گائوں ٹانڈہ جانکلتی ہے اور ٹانڈہ سے آگے کچھ کلومیٹر دور بڑیلہ شریف واقع ہے۔ ٹانڈہ سے ہمارے ساتھ مقامی دانشور محمد آصف مرزاشامل ہوئے جنہوں نے ٹاندہ کا تاریخی پس منظر بھی بیان کیا۔
حضرت قنبیطؑ کی قبر کی نشان دہی حافظ شمس الدین گلیانوی نے گزشتہ سے پیوستہ صدی میں کی تھی۔ لیکن اس کی 90ء کی دہائی میں زیادہ شہرت ہوئی جب گجرات سے تعلق رکھنے والے ایڈووکیٹ محمد زما ن کھوکھر نے اس کے بارے لکھا۔ پہلے یہ قبر کھلے آسمان تلے تھی اب اس کے اوپر باقاعدہ چھت ڈال دی گئی ہے۔ مزار کی تعمیر 1993ء میں حاجی عنایت مولا نے اپنی نگرانی میں ساڑھے تین لاکھ روپے سے شروع کرائی۔ یہ تمام اخراجات انہوں نے خود برداشت کیے۔ حضرت قنبیط ؑ کے بارے میں حافظ صاحب نے انوارالشمس کے صفحہ نمبر 329 میں لکھا، چنانچہ اس کتاب کا وہ قلمی نسخہ دیکھنے کی طلب ہمیں لالہ موسیٰ سے گلیانہ کی جانب لے گئی۔ وہاں ہمیں انوار الشمس کا نسخہ تو ملا، لیکن کس حال میں اس کی تفصیل آگے بیان کی جائے گی۔ جس وقت بڑیلہ شریف پہنچے تو وہاں حضرت قنبیطؑ کے مزار سے متصل ایک بزرگ حفیظ اللہؒ کا عرس اگلے روز شروع ہونے والا تھا اور لوگ جوق در جوق وہاں جارہے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت قنبیطؑ کا بھی عرس کل ہی شروع ہو رہا ہے۔ ہمارے لیے یہ امر حیران کن تھا کہ حضرت حفیظ اللہ ؒ کے عرس کیلئے اس بڑے پیمانے پر انتظامات کئے گئے تھے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ بہت بڑے رقبے کو لوہے کی خاردار تاروں نے گھیر رکھا تھا، جس کے اندر انہی تاروں سے راستے بنائے گئے تھے، واک تھرو گیٹ سمیت جامہ تلاشی کا مکمل انتظام موجود تھا، لیکن جامہ تلاشی لینے والے اس قدر بدتمیزی سے پیش آرہے تھے کہ الحفظ و الامان۔ علاوہ ازیں سیل فون بند کرا دئیے گئے اور کسی کو بھی اس پورے علاقے میں مزار سمیت کسی چیز کا فوٹو اتارنے کی اجازت نہیں تھی۔ جگہ جگہ مزار کے خادم یونیفارم پہنے کھڑے تھے، فوٹو اتارنے کیلئے اجازت کس سے لینی تھی کوئی نہیں جانتا تھا، بس یہ ضرور تھا کہ آپ فوٹو کسی صورت نہیں لے سکتے۔ ماحول اس قدر سسپنس سے بھرپور تھا کہ طبیعت مکدر ہونے لگی۔ کچھ مقامی لوگوں کا بتانا تھا کہ کسی کو خبر نہیں ہے کہ یہاں کے صاحب زادگان اس بڑے پیمانے پر انتظام کیسے کرتے ہیں، کچھ برس قبل وزارت داخلہ نے بھی اس بات کا نوٹس لیا تھا کیونکہ سرحد سے قریب ہونے کی وجہ سے حساس علاقہ کہلاتا ہے۔ لیکن کچھ ثابت نہ ہوسکا۔ یہاں لنگر زمین پر نہیں بلکہ میز کرسیوں پر دیا جاتا ہے، ایک میز کے ساتھ چار کرسیاں رکھی جاتی ہیں اور لنگر میں دال سبزی کے ساتھ گوشت بھی دیا جاتا ہے۔ حضرت حفیظ اللہؒ ریلوے میں بطور بکنگ کلرک کام کرتے تھے اور انہوں نے روایات کے مطابق لاہور کے علاقے مزنگ سے ایک ولی اللہ بابو غلام سرور سے فیض حاصل کیا۔ یہاں دیکھا کہ اندر ایک چھوٹا سا چڑیا گھر بھی بنایا گیا ہے، ہر طرف رنگ برنگی جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں اور درجنوں کے حساب سے عورتوں اور مردوں کیلئے رہائشی کمرے بنائے گئے تھے، ہر طرف صفائی ستھرائی کا انتظام ایسا کہ ہم نے کسی مزار پر نہیں دیکھا۔ بعض دوستوں کا کہنا تھا کہ ’’یہ حد بندیاں دراصل حضرت قنبیط ؑ کے مزار کی وجہ سے کی گئی ہیں۔ کیونکہ آپؑ کا مزار اس سے جڑا ہوا ہے اور لوگوں کا وہاں آنا جانا زیادہ تھا، لہٰذا یہاں ایسے انتظامات کیے گئے کہ اب لوگ وہاں جانے کے بجائے یہاں آکر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اگرچہ حضرت قنبیطؑ کے مزار کا راستہ ان بزرگوں کے مزار سے ہوکر جاتا ہے لیکن خار دار تار لگا کر اس راستے کو بند کردیا گیا ہے اور حضرت قنبیطؑ کے مزار پر جانے والے زائرین کو ایک لمبا چکر کاٹ کر اوپر سے ہوکر فصلوں کے درمیان پیدل جانا پڑتا ہے۔ چنانچہ ہم لوگوں نے صاحب مزار کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور لنگر خانے کی جانب چل نکلے۔ دوستوں کا کہنا تھا کہ یہاں کا لنگر آپ کھاکر دیکھیں، کبھی نہیں بھولیں گے۔ لیکن اس روز چونکہ عرس کی شروعات گہما گہمی تھی، اس لیے لوگ اس قدر تھے کہ کرسیاں میز ہٹا کر نیچے دریاں بچھا دی گئیں تھی اور لوگ دھڑا دھڑا لنگر کھا رہے تھے جو ایک روٹی کے اوپر دال رکھ کر دیا جارہا تھا۔ ہم اس دربار سے نکل کر ایک لمبا چکر کاٹ کر حضرت قنبیطؑ کے مزار کی جانب چل پڑے۔ حضرت قنبیطؑ کے مزار کی جانب جانے والے راستے کے اردگرد دکانیں سجی ہوئی تھی اور لوگ مزار کی جانب گامزن تھے۔
حضرت قنبیطؑ کے مزار کے حوالے سے احسان فیصل کا کہنا تھا کہ ’’اس مزار کے بارے میں لوگوں کو آگاہی زمان ایڈووکیٹ نے دی، چونکہ میری ان سے ملاقاتیں تھیں، ان سے میں نے اس بارے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ جب میں اخبارات میں کالم لکھنے لگا، تو ایک دن ایک بزرگ مجھے ملے اور کہنے لگے کہ کیہ چولاں مارداں رہنداں ایں، انج کر کہ ایہہ درویشاں لوگاں اتے لکھیا کر (کیا بیوقوفیاں کرتے پھر رہے ہو، ایسا کرو کہ یہ فضول لکھنا چھوڑو اور درویشوں کے بارے میں لکھ کرو) چنانچہ مجھے اس بزرگ کی بات اچھی لگی اور میں نے اسے تسلیم کرکے بزرگوں کے مزارات اور قبور کے حوالے سے تحقیقی کام شروع کردیا۔ احسان فیصل کا مزید کہنا تھا کہ ’’زمان کھوکھر کے دو کام ہمیشہ زندہ رہیں گے اور شاید ان پر کسی نے کبھی بات نہیں کی، ایک تو وہ جتنے مزارات تھے ان کے حصے کی زمینوں پر اگر کسی نے قبضہ کیا تھا تو وہ اسے ہر حال میں چھڑا کر دم لیتے۔ چونکہ وکیل تھے اس لیے کورٹ کچہری کے ذریعے یہ کام کرتے اور جتنا بھی مضبوط گروپ ہوتا اسے مزار کی زمین خالی کرانے پر مجبور کردیتے۔ دوسرا کام یہ کہ جہاں کہیں مزارات یا قبر کی حالت خستگی کا شکار دکھائی دی، وہاں اردگرد کے مخیر حضرات کو اکھٹا کرکے اسی کی تعمیر نو شروع کردیتے، یوں بیشمار مزارات اور خستہ قبور کی تعمیر نو میں انہوںنے حصہ ڈالا۔‘‘ حضرت قنبیط ؑ کے مزار کے بارے میں زمان کھوکھر کی تحقیق کیا کہتی ہے؟ یہ بہت دلچسپ داستان ہے۔ اس مزار پر ہماری ملاقات ایک ایسے شخص سے بھی ہوئی جو گزشتہ بائیس برس سے مزار کے ایک ستون کے ساتھ زندگی بسر کررہا ہے، اس نے کافی حیران کن باتیں بتائیں۔(جاری ہے)