عظمت علی رحمانی
سندھ حکومت نجی اسکول مافیا کے سامنے بے بس ہوگئی۔ پرائیویٹ اسکول مالکان کسی بھی صورت فیس میں کمی یا واپسی پر آمادہ نہیں ہیں۔ جبکہ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اسکول مالکان نے سپریم کورٹ سے رجوع بھی کرلیا ہے۔ اس کیس کی سماعت 4 اکتوبر کو ہوگی۔ ادھر اسی نوعیت کے ایک دوسرے کیس میں چیف جسٹس نے نجی اسکولوں کی زائد فیسوں پر اظہار برہمی کرتے ہوئے نجی اسکولوں کو اضافی فیسیں سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیا ہے جن کا تخمینہ کروڑوں روپے بنتا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے سندھ بھر کے پرائیویٹ اسکول مالکان کی جانب سے والدین سے من مانی فیس وصولی کے خلاف حکم جاری کیا گیا تھا کہ کوئی بھی اسکول متعلقہ اتھارٹی کی اجازت کے بغیر 5 فیصد سے زائد فیس وصول نہیں کر سکتا۔ جبکہ5 فیصد سے زائد فیس وصول کرنے والے ادارے ازخود فیس واپسی کا طریقہ کار طے کریں کہ وہ فیس یکمشت واپس کریں گے یا آئندہ کی فیسیوں سے منہا کریں گے۔ عدالت کی جانب سے نجی اسکولوں کے مالکان کو مذکورہ طریقہ کار طے کرنے اور فیس واپس کرنے کیلئے مجموعی طور پر 90 روز کا وقت دیا گیا تھا، جس کے بعد ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوشن اینڈ انسپکشن سندھ کی جانب سے مذکورہ اسکول منتظمین کیلئے ایک سادہ اعلامیہ جاری کرکے فیس 5 فیصد فیس لینے اور زائد وصول کردہ فیس کی واپس کرنے کا حکم دیا گیا۔ دو روز بعد عدالتی حکم نامے کے عکس کے ساتھ تفصیلی حکم نامہ جاری کیا گیا کہ فیس واپس کی جائے یا آئندہ کی فیسوں سے منہا کی جائے، جس کے بعد بعض اسکولوں کی جانب سے پیغام پہنچایا گیا کہ وہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ایک روز قبل اسلام آباد میں اسی نوعیت کے ایک کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تھی، جس میں چیف جسٹس نے اضافی فیسوں کی وصولی کے حوالے سے تمام عدالتوں میں جاری مقدمات کو یکجا کر کے سپریم کورٹ میں لگانے کا حکم بھی دیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ترقی کرنا ہر شخص کا حق ہے۔ جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ تعلیم کا شعبہ ٹیکسٹائل اور اسٹیل ملز سے مختلف ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ٹیوشن سینٹرز اور ایئر کنڈیشنڈ اسکول تعمیر کر کے والدین کو لوٹا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو والدین فیسیں ادا نہیں کر سکتے، ان کے بچوں کو اسکول سے نکال دیا جاتا ہے۔ دنیا میں لوگوں نے تعلیم، لیڈر شپ اور جوڈیشل سسٹم کی بنیاد پر ترقی کی۔ آکسفورڈ اور ہارورڈ جیسی یونیورسٹیز بھی نجی شعبے میں بنائی گئی تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں بھی معیاری اور سستی تعلیم فراہم کرنے والی یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے اور تعلیمی ریفارمز کے حوالے سے ہم قوم کو تحفہ دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ہر بچے کے لیے یکساں تعلیم اور یونیفارم پالیسی کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے لا اینڈ جسٹس کمیشن نے کام مکمل کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ نے نجی اسکولوں کی جانب سے زائد وصول کی گئی فیسیں جمع کرانے کا حکم دیا اور اس حوالے سے تمام عدالتوں میں جاری مقدمات کو یکجا کر کے سپریم کورٹ میں لگانے کی ہدایت بھی کی۔ معلوم رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نجی اسکولوں کی فیسیوں کے کیس کے ریمارکس میں اس بات کا عندیہ بھی دے چکے ہیں کہ کیوں نہ مہنگے نجی اسکولوں کو سرکاری تحویل میں لے لیا جائے۔
واضح رہے کہ سندھ بھر میں ہزاروں نجی اسکول اور ان کی برانچز میں لاکھوں طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں، جن میں سے 20 فیصد بڑے و مہنگے اسکولوں کی جانب سے عدالت سے رجوع کیا گیا تھا۔ جبکہ دیگر 80 فیصد نجی اسکولوں کی جانب سے بغیر عدالتی رکاوٹ کے زائد فیس وصولی جاری رکھی تھی، جن کے خلاف محکمہ ایجوکیشن سندھ اور ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ تاہم عدالتی فیصلہ آنے کے بعد بھی ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ان نجی اسکولوں سے ایک بار پھر نرمی سے برتی گئی جو عدالتی کیس میں شامل نہیں تھے اور نہ ہی سپریم کورٹ کے اس کیس میں شامل ہیں۔ ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ اس بات کا بھی پابند ہے کہ نجی اسکولوں میں انسپکشن کرے۔ ان کی آڈٹ رپورٹ چیک کرے اور اسکولوں میں مجموعی تعداد کے تناسب سے 10 فیصد بچوں کو مفت تعلیم دلوائے۔ تاہم ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ انتظامیہ کے پاس تا حال سندھ بھر، بلکہ کراچی کے کسی ایک ضلع کے اسکولوں کا ریکارڈ بھی موجود نہیں جس میں انہوں نے نجی اسکولوں میں 10 فیصد طلبہ کو مفت داخلہ دینے کا ریکارڈ چیک کیا ہو۔ سندھ حکومت کا متعلقہ ڈپارٹمنٹ نجی اسکولوں کو مکمل سپورٹ کررہا ہے جس کی وجہ سے آئے روز والدین کی جانب سے شکایتیں کی جاتی ہیں۔ تاہم ڈائریکٹوریٹ پرائیویٹ انسٹی ٹیوٹ کی انتظامیہ کی جانب سے والدین کے بجائے اسکولوں کو سہولت فراہم کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ڈی جی پرائیویٹ اسکول ڈاکٹر منصوب حسین صدیقی، سیکریٹری اسکول ایجوکیشن قاضی شاہد پرویز اور وزیر تعلیم سردار علی شاہ سے متعدد بار رابطے کیا گیا، تاہم انہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔
٭٭٭٭٭