امت رپورٹ
مسلم لیگ ’’ن‘‘ نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو نہ ملنے پر تمام قائمہ کمیٹیوں سے اپنے ارکان دستبردار کرانے کا فیصلہ کرلیا۔ لیگی ذرائع کے مطابق نواز لیگ کے ارکان قائمہ کمیٹیوں سمیت کسی بھی کمیٹی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ واضح رہے کہ نواز لیگ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت ہے، جس کے ارکان کی قائمہ کمیٹیوں میں عدم شمولیت سے تحریک انصاف کی سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ نواز لیگ کے اس فیصلے کی وجہ سے تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے اور اس معاملے میں حکمران جماعت کی جانب سے سیاسی ناپختگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ نواز لیگ کے اس مطالبے پر کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ اسے دی جائے، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ نواز شریف کے منصوبوں پر آڈٹ کیلئے شہباز شریف کو کیسے بٹھا دیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ پر اپوزیشن کا حق نہیں بنتا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی وطن واپس آئیں گے تو پارٹی اس حوالے سے فیصلہ کرے گی۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بیانات کے بعد حکومت اور اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے درمیان قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے معاملے پر تنازعہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ یاد رہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے دور حکومت میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ قائد حزب اختلاف کے پاس ہی رہی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے نامزدگی پر اعتراض ہے اور حکمران جماعت نے اپنا چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے تین بڑے سیاستدان ابھی تک کوئی عہدہ نہیں پاسکے ہیں۔ ان میں سابق اسپیکر قومی اسمبلی فخر امام، سابق نگران وزیراعظم محمد میاں سومرو اور تحریک انصاف کے بزرگ رہنما نجیب ہارون شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان میں سے کسی کو اس کمیٹی کی چیئرمین شپ سونپی جاسکتی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی طرف سے خورشید شاہ بھی پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے خواہش مند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے کھل کر پبلک اکائونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کیلئے نواز لیگ کی حمایت نہیں کی ہے۔ جبکہ کسی دوسری جماعت نے بھی نواز لیگ کی واضح حمایت نہیں کی ہے اور نون لیگ اس معاملے میں تنہا ہے۔ اس کمیٹی کی چیئرمین شپ حاصل کرنے کیلئے منگل کو ’’ن‘‘ لیگ کے سابق صوبائی وزیر رانا مشہود نے اپنی دانست میں ترپ کا ایک پتہ پھینکا۔ رانا مشہود نے دعویٰ کیا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ان کے معاملات ٹھیک ہوگئے ہیں اور نواز لیگ دو ماہ میں پنجاب میں حکومت بناسکتی ہے۔ معاملات ٹھیک کرانے میں شہباز شریف نے اہم کردار ادا کیا۔ رانا مشہود کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو شہباز شریف کے وزیر اعظم نہ بننے کا افسوس ہے۔ حالات مکمل ٹھیک ہونے تک نواز شریف اور مریم کا لہجہ سخت رہے گا۔ نواز لیگی رہنما نے کہا کہ اداروں کے تھنک ٹینک کو اب صورتحال کا ادراک ہوگیا، اور یہ طے ہوگیا ہے کہ جس ادارے کا جو کام ہے، وہ کرے گا۔ ذرائع کے مطابق توقع تھی کہ رانا مشہود کا یہ دعویٰ تحریک انصاف پر بجلی بن کر گرے گا۔ لیکن پنجاب حکومت کے سینئر وزیر محمودالرشید نے اس بیان کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ کسی کے خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ تاہم لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ رانا مشہود نے نواز لیگ کے اینٹی اسٹیبلشمنٹ امیج کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ منگل کے روز چیف جسٹس کی جانب سے شہباز شریف کیلئے مثبت ریمارکس کو رانا مشہود نے یہ سمجھا کہ اب اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات بن گئی ہے۔ اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ منگل کو سپریم کورٹ کے حکم پر، دوران الیکشن ذاتی اشتہاری مہم سے متعلق کیس میں شہباز شریف نے اپنی اشتہاری مہم کے عوض 55 لاکھ کا چیک عدالت میں جمع کرادیا۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شہباز شریف نے رضاکارانہ چیک جمع کرواکر مثال قائم کردی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شہباز شریف کا چیک ڈیم فنڈ میں جائے گا یا حکومتی خزانے میں؟ اس پر ایڈووکیٹ شاہد حامد نے کہا کہ چیک حکومت پنجاب کے خزانے میں جائے گا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ شہباز شریف نے رضاکارانہ چیک جمع کرواکر مثال قائم کردی، باقی رہنما بھی اس پر عمل کریں۔ تاریخی کلمات کے ساتھ شہباز شریف کے خلاف نوٹس نمٹایا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ مارچ میں چیف جسٹس نے سرکاری اشتہارات از خود نوٹس کیس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو سرکاری اشتہار کے 55 لاکھ روپے قومی خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔ جس کو رانا مشہود نے یہ شکل دی کہ ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات درست ہوگئے ہیں۔
٭٭٭٭٭