روسیوں کے دل پر امریکہ کے دیئے زخم اب بھی تازہ ہیں

0

سجاد عباسی
روسیوں کے بارے میں عام تاثر ہے کہ یہ اپنے خول میں بند رہنے والے لوگ ہیں۔ ماضی میں جینے والے پدرم سلطان بود کی بیماری میں مبتلا خود پسند اور نرگسیت کا شکار لوگ، جنہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔ مگر اس دورے میں ہماری یہ غلط فہمی بڑی حد تک رفع ہوگئی۔ ہوٹل سے ہمیں صبح گیارہ بجے ماسکو کے مرکزی علاقے میں واقع گندھارا ریسٹورنٹ پہنچایا گیا تھا۔
گندھارا ریسٹورنٹ دنیا بھر سے روس آنے والے غیر ملکیوں میں لذیذ پاکستانی کھانوں کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ جبکہ روسی شہریوں کی بڑی تعداد بھی لذت کام و دہن کی خاطر یہاں کا رخ کرتی ہے۔ دل نشیں عمارت میں قائم گندھارا ریسٹورنٹ نام کی مناسبت سے لکڑی کے مجسموں اور خوبصورت نقش و نگار سے مزین ہے۔ اس ریسٹورنٹ کے مالک پاکستانی بزنس مین شہزاد شیخ ہیں جو دیار غیر میں اپنے وطن کا تشخص اجاگر کرنے میں پیش پیش ہیں اور عملاً پاکستان کے تجارتی سفیر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستانی سفارتخانے کے قونصلر ونگ نے روسی تھنک ٹینکس کے ساتھ ملاقات اور تبادلہ خیال کا اہتمام کیا تھا۔ مہمانوں کے انتخاب اور حاضرین کی تعداد سے اندازہ ہو رہا تھا کہ قونصلر بلال وحید اور ان کے معاونین اسرار احمد خان اور مجتبیٰ کی کئی ماہ کی محنت اس تقریب کے پیچھے ہوگی۔ ان میں صحافت، سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات سمیت مختلف شعبوں کے ماہرین اور صائب الرائے افراد شامل تھے، جن کا علم ان کے ہر جملے سے عیاں ہو رہا تھا۔ پہلے سیشن میں دونوں طرف کے ارکان کو ایک دوسرے سے ذاتی تعارف اور تبادلہ خیال کا موقع دیا گیا۔ کوئی چار سے چھ لوگوں کے ساتھ ہمیں انفرادی طور پر تبادلہ خیال کا موقع ملا، جبکہ کچھ سے تعارف اور کارڈز کا تبادلہ ہوا۔ تاہم بعد ازاں رسمی سیشن میں دیگر اہم شخصیات کی فکر انگیز گفتگو بھی سنی، جبکہ لنچ کے دوران بھی ہلکی پھلکی گپ شپ ہوتی رہی۔ ’’ان سے ملئے یہ ہیں ڈاکٹر لدمیلا‘‘ (Dr. Ludmila Vasilyewa)۔ ایک نامعلوم نوجوان خاتون نے ایک بزرگ خاتون کو ہم سے متعارف کرانا چاہا، مگر خود کسی اور آواز پر متوجہ ہوگئیں۔ ہم نے بزرگ خاتون کا مصافحے کے لیے بڑھا ہاتھ تھام لیا۔ بوائے کٹ برائون بال، گوری رنگت، شفیق چہرے پر مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے ہمیں اپنے وطن میں خوش آمدید کہا۔ ان کے لہجے میں گرم جوشی کے علاوہ ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ماڈرن پاکستانی خواتین جیسی شلوار قمیض زیب تن کئے ہوئے تھیں، جو ہمارے خیال میں پاکستانی مہمانوں سے یکجہتی کی علامت تھی۔ مگر جب گفتگو آگے بڑھی تو معاملہ اس سے بڑھ کر نکلا۔ ہم نے محسوس کیا کہ وہ انگریزی میں گفت و شنید سے قدرے بے چینی محسوس کر رہی ہیں۔ ہم اس حوالے سے پوچھنے کیلئے ابھی شش و پنج میں ہی تھے کہ نہایت شستہ اردو اور لکھنوی لہجے میں سوال سننے کو ملا ’’مسٹر عباسی، ایک بات بتائیے، یہ ہمارے پاکستانی بھائی انگریزی کو اتنا سر پر کیوں بٹھاتے ہیں۔ اور اردو بولتے ہوئے شرماتے کیوں ہیں؟ یہ تو بڑی خوبصورت زبان ہے‘‘۔ ہمیں لگا کسی نے گھڑوں پانی ہمارے سر پر ڈال دیا ہے۔ مگر پھر ہم آئینہ دیکھتے ہی سنبھل گئے اور ڈاکٹر لدمیلا کی شیریں گفتاری اور نستعلیق اردو کا لطف اٹھانے لگے۔ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحبہ رشین اکیڈمی آف سائنسز میں انسٹیٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز کے شعبہ ادب میں لیڈنگ ریسرچ فیلو ہیں اورانہوں نے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کر رکھا ہے۔ پھر تو ان سے گپ شپ ایسی شروع ہوئی کہ جیسے بچھڑے ہوئے دو پاکستانی آپس میں مل گئے ہوں اور باتیں ختم ہی نہ ہو رہی ہوں۔ تب ہمیں اندازہ ہوا کہ زبان کتنی جلدی اجنبیت کی دیوار کو گرا دیتی ہے اور اس کی جگہ اپنائیت لے لیتی ہے۔ ہم نے پوچھا ’’ڈاکٹر صاحبہ کیا آپ پاکستان میں مقیم رہی ہیں؟‘‘ بولیں ’’جی ہاں کئی بار جانا ہوا۔ مگر پانچ دن سے زیادہ وہاں نہیں رہی۔‘‘ پھر ہم نے سوال داغا ’’آپ یقیناً انڈیا میں رہی ہوںگی۔‘‘ کہا ’’جی ہاں، مگر صرف ایک بار کلکتہ میں 15 دن کیلئے مقیم رہی۔ لیکن ممبئی اور دہلی سمیت تمام بڑے شہر گھومی۔ تاج محل بھی دو بار دیکھا۔‘‘ جواب شافی تھامگرلیکن ہمارے سوال میں چھپا سوال بہرحال اپنی جگہ موجود تھا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ آپ نے اردو کہاں سے سیکھی؟ ڈاکٹر صاحبہ ہماری الجھن پر قہقہہ لگا کر بولیں ’’میں اردو سیکھنے کیلئے کہیں نہیں گئی۔ میں نے اسے بطور مضمون اختیار کیا اور پھر زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھیں۔ غالب، اقبال، فیض، فراز یا اردو کے نامور نثر نگار۔ آپ نام لیں، میں آپ کو تصانیف بتائوں گی۔‘‘ ظاہر ہے انہوں نے اردو میں پی ایچ ڈی یوں ہی تو نہیں کررکھا تھا۔ ڈاکٹر لدمیلا کا کہنا تھا کہ پاکستان اور روس کو قریب لانے کیلئے دونوں ملکوں کی قومی زبانیں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اس کیلئے دونوں ممالک کے شعبہ لسانیات کے ماہرین کا کردار اہم رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا کے لوگ اپنی قومی و علاقائی زبانوں کو نظر انداز کر رہے ہیں جن میں اردو، پنجابی اور ہندی شامل ہیں۔ جبکہ روسی طلبا و طالبات مذکورہ زبانیں سیکھنے میں مصروف ہیں۔ مگر ان زبانوں کے وارث جب خود اپنی زبانوں سے لاتعلق ہوتے جائیں گے تو دوسر ے ان سے کیا استفادہ کریں گے۔ ہماری گپ شپ کے دوران ہی ڈاکٹر نتالیا نے بھی ہمیں جوائن کر لیا جو پی ایچ ڈی سکالر اور رشین اکیڈمی آف سائنسز میں مڈل ایسٹ ڈپارٹمنٹ اور پاکستان کی سربراہ ہیں۔ ان سے گفتگو میں لگا کہ ہم پاکستانی خود اپنی سیاست اور تاریخ کے بارے میں اتنا نہیں جانتے، جتنا کہ ڈاکٹر نتالیہ جانتی ہیں۔ سیاست اور پاک روس تعلقات سے متعلق عمومی گفتگو کے دوران ان کے ایک سوال نے ہمیں چونکا دیا۔ ’’یہ مولانا فضل اپنے حلقے سے کیوں ہار گئے؟‘‘ہمارے لیے یہ سوال ظاہر ہے قطعی غیر متوقع اور حیران کن تھا کہ ہمیں صحافی ہوتے ہوئے ولادیمر پیوٹن کے علاوہ کسی روسی سیاستدان کا نام نہیں آتا اور روسی خاتون ہمارے ایک نابغہ روزگار سیاسی مذہبی رہنما کے بارے میں اس قدر فکرمند ہیں۔ سو پہلے تو ہم نے اس فضل کو مولانا فضل اللہ یعنی ٹی ٹی پی سے جوڑنے کی کوشش کی کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے عالمی سطح پر ’’ مشہور‘‘ ہے مگر پھر اس احمقانہ سوال کو جھٹک دیا کہ مولوی فضل اللہ کا الیکشن یا ہار جیت سے کیا تعلق؟ اس دوران ڈاکٹر صاحبہ بھی ہماری مشکل جان چکی تھیں۔ لہٰذا مزید وضاحت و صراحت کی خاطر انہوں نے کہا جے یو آئی والے فضل۔ ہم نے اپنی بساط کے مطابق مولانا کی شکست و ریخت کے اسباب پر روشنی ڈالی اور جوابی سوال کردیا ’’آپ کے خیال میں مسٹر فضل کیوں ہارے؟‘‘ ڈاکٹر صاحبہ قدرے توقف کے بعد بولیں ’’میرا خیال ہے دو وجوہات ہیں۔ ایک تو تبدیلی، روایتی سیاستدانوں کو کھا رہی ہے۔ دوسرے مولانا جیسے لوگوں کے پاس عوام کو دینے کے لئے کوئی پروگرام ہے نہیں۔ جو کوئی کشش پیدا کر سکے‘‘۔ انہوں نے دو جملوں میں دریا کو کوزے میں بند کر دیا تھا۔ ہم یہ بتانا بھول گئے کہ اس دوران اردو دان ڈاکٹر لدمیلا بھی گفتگو میں شریک رہیں۔ البتہ انہی کی عمر کی ڈاکٹر نتالیہ اردو بولنے سے قاصر تھیں، مگر پاکستان کے بارے میں ان کی معلومات غضب کی تھی۔ ہم نے محسوس کیا کہ وہ کم سے کم وقت میں پاکستان کے حالات سے زیادہ سے زیادہ واقف ہونا چاہتی ہیں۔ پاک روس تعلقات کے فروغ کے لیے بہت پرجوش ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کراچی میں آئی بی ایم سمیت کئی تعلیمی اداروں کا متعدد بار دورہ کر چکی ہیں۔ جبکہ مشاہد حسین، سید رضا ربانی سمیت کئی پاکستانی سیاستدانوں کے ساتھ ان کا رابطہ ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو اٹھارہویں ترمیم کی باریکیوں کے بارے میں بھی خاصی معلومات تھیں کہ اس سے صوبوں کے اختیارات میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔ وہ پاکستانی میڈیا ڈیلی گیشن کے دورے پر بہت خوش تھیں اور حالیہ برسوں میں پاک روس دفاعی، تجارتی او ر علاقائی معاہدوں کے حوالے سے پر امید بھی۔ ان کا یہ ایک جملہ کتاب پر بھاری تھا کہ ’’پاکستان اپنے اصل کی طرف لوٹ رہا ہے اور یہی عمل اس کے مستقبل کوسنوارنے کا سبب بنے گا‘‘۔ باتوں باتوں میں انہوں نے ایک اور معاملے پر ہماری رائے جاننا چاہی۔ بولیں ’’یہ ایرانی وزیر خارجہ اچانک پاکستان کیوں آئے؟‘‘ ہم نے عرض کیا ’’ہمارے ہاں نئی حکومت وجود میں آئی ہے۔ ایران پڑوسی ملک ہے، سعودی عرب اور چین کے وزرائے خارجہ بھی حالیہ دنوں میں پاکستان آئے ہیں۔ یہ خیر سگالی دورے بھی لگتے ہیں اور کچھ ظاہر ہے پہلے سے طے شدہ ہوں گے۔‘‘ ڈاکٹر صاحبہ بولیں ’’آپ کی بات جزوی طور پر تو درست ہے۔ مگر ایرانی وزیر خارجہ کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ وہ طے شدہ دورے پر نہیں بلکہ امریکی وزیر خارجہ پومپیو اور جوائنٹ چیفس کے دورے سے قبل، ہنگامی طور پر (RUSH) پاکستان گئے۔ در اصل یہ امریکہ کو پیغام تھا کہ خطے میں ہماری خارجہ پالیسی تمہارے تابع نہیں رہ سکتی۔ اور یہی پاکستان کا اصل کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ہمیں ڈاکٹر نتالیہ کی آنکھوں میں امید کی چمک نظر آئی کئی دیگر روسیوں سے ملاقات میں بھی ہم نے محسوس کیا کہ یہ لوگ جذباتی نعرے نہیں لگاتے، مگر امریکہ کے دیئے ہوئے زخم ان کے دلوں پر تازہ ہیں اور ان کا حساب چکانے کیلئے وہ پر عزم بھی ہیں۔ اس دوران ڈاکٹر نتالیہ نے 2011ء میں ہماری سلالہ چیک پوسٹ پر امریکی حملے کا بھی ذکر کیا جس میں 24 پاکستانی فوجی شہید اور 12 زخمی ہوئے تھے۔ ان کا کہنا تھا ’’قوموں کو اپنی خود مختاری اور وقار پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان نے اس واقعے پر امریکہ کو یہ باور کرا کے اچھا کیا۔‘‘ ہماری گفتگو جاری تھی کہ دونوں ملکوں کے وفود کا رسمی سیشن شروع ہونے کا اعلان کردیا گیا اور ہم سب مرکزی میز کی جانب بڑھ گئے۔ جہاں ڈائس کے دونوں طرف پاکستان اور روس کے قومی پرچم نصب تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More