احمد خلیل جازم
حضرت قنبیطؑ کے مزار کے احاطے میں داخل ہوئے تو عرس کے حوالے سے کافی چہل پہل دیکھنے کو ملی۔ کچھ لوگ دیوار کے ساتھ بیٹھے تھے اور بعض لوگ مزار کے اندرونی راستے کی جانب جا رہے تھے۔ مزار کے اندر داخلے کے دو دروازے ہیں۔ احاطے کے اندر مسجد شہدا سے متصل دروازہ خواتین کیلئے اور مسجد کے عقبی سمت سے گھوم کر مردوں کیلئے دروازہ ہے۔ جیسے ہی دروازے میں داخل ہوں تو سامنے مزار کی تعمیر کرانے والے حاجی عنایت مولا کی قبر دکھائی دیتی ہے۔ اس سے بائیں جانب مزار کے اندر جانے کا ایک اور چھوٹا سا دروازہ ہے، جس پر ایک پہرے دار موجود تھا، جس نے ہماری تلاشی لی اور تصویر نہ کھینچنے کی تاکید کی۔ یعنی حضرت حفیظ اللہؒ کے مزار کے اثرات یہاں بھی محسوس ہونے شروع ہوگئے۔ لیکن ہم نے پہلے دروازے پر لگی تختیوں کی تصاویر لیں، جن میں ایک تختی جس پر حضرت قنبیطؑ کے حوالے سے مندرجات تو موجود تھے لیکن وہ مٹ چکے تھے۔ جبکہ ایک اور تختی بھی تھی جس پر ان لوگوں کے اسمائے گرامی درج تھے جنہوں نے مزار کی تعمیر میں مالی معاونت کی۔ وہ تختی کسی حد تک بہتر حالت میں تھی۔ جبکہ انہی لوگوں کے نام مزار کی بیرونی دیوار پر بھی کندہ تھے اور ان کے اوپر برقی قمقمے لگے ہوئے تھے۔ دروازے پر تلاشی دے کر اور موبائل فون بند کرکے اندر داخل ہوئے تو اندر ستّر گز لمبی قبر موجود تھی، جسے دیکھ کر سب سے پہلے ہیبت طاری ہو جاتی ہے۔ نئی نکور چادر دیکھ کر احساس ہوا کہ شاید آج ہی چڑھائی گئی ہے۔ بعد میں یہ خیال درست ثابت ہوا۔ مقامی افراد کا دعویٰ ہے کہ صاحب مزار کبھی بھی اپنی قبر کا درست ماپ نہیں لینے دیتے۔ جب بھی ماپ کر چادر چڑھائی جائے، چھوٹی ہو جاتی ہے۔ یہ کیا سلسلہ ہے؟ اس کے بارے میں مزید دعوے اندر موجود ایک شخص نے کئے۔ یہاں پر حاجی فضل حسین نامی شخص سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ نبی کی قبر ہے، جو بابا آدمؑ کے گیارہویں بیٹے ہیں۔ 29 اور 30 ستمبر کو ان کا عرس مبارک ہے۔ اسی لیے لوگ یہاں زیادہ آئے ہوئے ہیں۔ آج یہاں سالانہ چادر چڑھائی گئی ہے۔ اسی لئے تو قبر مبارکہ پر کثرت سے پھول ڈالے جارہے ہیں۔ یہ چادر لاہور سے بن کر آتی ہے، جو ہر بار کوئی نہ کوئی ہدیہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس قبر کے تعویذ پر جو چادر چڑھائی گئی ہے، یہ بھی نئی ہے‘‘۔ قبر کے تعویذ کو دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا کہ اس پر کیا لکھا ہوا ہے؟ تو فضل حسین کا کہنا تھا ’’اس پر کچھ بھی تحریر نہیں ہے، اسی لیے اس پر چادر چڑھا دی گئی ہے‘‘۔ اسی تعویذ کے اوپر ایک بہت بڑا کلاہ رکھا ہوا تھا، جیسے دولہے پہنا کرتے ہیں۔ اس کا رنگ سرخ اور سبز تھا، بالکل نیا نکور تھا۔ بتایاگیا کہ یہ بھی آج ہی رکھا گیا ہے۔ ہر سال یہ بھی تبدیل ہوتا ہے۔ جب فضل سے پوچھا کہ یہ کلاہ بھی ہدیہ ہے تو اس کا کہنا تھا کہ ’’یہاں جو کچھ آتا ہے وہ ہدیتاً ہی آتا ہے۔ آپ یہاں پھول چڑھاتے ہیں، وہ آپ کا ہدیہ ہے‘‘۔ قبر پر کڑھائی والی چادر ڈالی گئی تھی، جو مکمل قبر کو نہیں ڈھانپ رہی تھی۔ اس لئے بچ جانے والے حصے پر سبز رنگ کی الگ سے چادر چڑھا دی گئی تھی۔ جب حاجی فضل سے اس حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا دعویٰ تھا کہ ’’یہ ایسی ہستی ہیں کہ یہاں بڑے بڑے لوگ فیتے لے کر آئے اور انہوں نے قبر کا ماپ لیا، لیکن جب اس ماپ پر چادر سلوائی گئی تو وہ چھوٹی نکلی۔ میں نے بائیس برس یہاں گزارے ہیں۔ کوئی دھاگے سے ناپ لیتا رہا، کوئی فٹ لے کر آتا، لیکن ہر بار چادر چھوٹی ہو جاتی ہے‘‘۔ ایک برس بعد جو چادر اتاری جاتی ہے، اس کا کیا کیا جاتا ہے؟ تو اس پر ان کا کہنا تھا کہ ’’جو چادر یہاں سے اتاری جاتی ہے، وہ قبر میں موجود ہستی کے حکم کے مطابق نو، نو گز کے ٹکڑوں میں کاٹ کر مختلف علاقوں میں موجود نو گزی قبروں پر چڑھا دی جاتی ہے‘‘۔
حضرت قنبیطؑ کی قبر کو پرانے دور میں ’’سچا پیر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ اس قبر کی حقیقت کیسے کھلی؟ اس بارے میں مختلف لوگوںکی مختلف رائے ہے۔ لیکن زیادہ تر لوگوں کا ماننا یہی ہے کہ یہ حضرت آدمؑ کے بیٹے حضرت قنبیطؑ ہی ہیں۔ یہ بات تو اکثر کتب میں درج ہے کہ حضرت آدمؑ جنت سے سرزمین ہند (سراندیپ) میں اتارے گئے اور سری لنکا میں حضرت آدمؑ کے قدم کا نو فٹ لمبا نشان بھی موجود ہے۔ تو کیا ان کی اولاد بھی اس خطے میں آکر آباد ہوئی؟ اس کیلئے حافظ شمس الدین گلیانوی کے علاوہ بقول ایم زمان ایڈووکیٹ کے ’’گجرات میں انبیائے کرام کے مزارات ہیں، جن کی تائید و تصدیق حضرت قاضی سلطان محمود آف اعوان شریف اور حضرت خواجہ گوہر الدین آف جینڈر شریف سمیت پیر نصب علی شاہ آف چھالے شریف نے بھی کی۔ گجرات میں آج بھی ان مزارات کے قریب تباہ حال بستیاں، ٹیلے اور ٹبے ہیں۔ ہزاروں برس پرانے برگد اور بوہڑ کے درخت ان تباہ حال بستیوں اور ٹیلوں میں پائے جاتے ہیں‘‘۔ اسی کتاب میں زمان ایڈووکیٹ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’قیام پاکستان سے قبل ہندو اس قبر مبارک کو بہت متبرک مانتے تھے‘‘۔ یہ تمام باتیں اس بات کی دلیل کے طور پر پیش کی جاتی ہیں کہ اس سرزمین پر حضرت نوحؑ کی آل اولاد آئی اور یہاں بسیرا کیا۔
اب یہاں ایک اور شخص کا ذکر بہت ضروری ہے، جس نے مزار کی تعمیر میں اپنی زندگی گزاردی اور اس کا نام حاجی عنایت مولا تھا۔ زمان کھوکھرایڈووکیٹ جن کی عنایت مولا سے ملاقاتیں رہی ہیں، وہ ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ ’’عنایت مولا 1971ء میں پاک آرمی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد انگلینڈ چلے گئے اور وہاں جاکر آباد ہوئے۔ حضرت قنبیطؑ سے روحانی رشتہ کیسے بنا؟ عنایت مولا بیان کرتے ہیں کہ انگلینڈ میں قیام کے دوران خواب دیکھا کہ ایک نور کی کرن روشن ہوئی، آسمان سے سفید کپڑے میں لپٹی ایک ڈولی اتری۔ ڈولی کے اردگرد کافی مخلوق تھی۔ حضرت قنبیطؑ ڈولی سے نیچے اترے تو قد مبارکہ ستّر گز تھا۔ تھوڑی دیر بعد قد عام انسان کے برابر ہوگیا۔ مخلوق سے کہا کہ ہٹ جائو اور عنایت مولا سے مخاطب ہوکر کہا کہ دنیا میں سب سے افضل عمل قرآن کریم کی تلاوت ہے۔ قرآن پاک دنیا کی سب سے افضل کتاب ہے۔ بارہ برس تک عنایت مولا قرآن کریم کی مستقل تلاوت کرتے رہے۔ پھر حضرت قنبیطؑ خواب میں ملے اور فرمایا کہ پاکستان جاکر دو برس تک ماں کی قبر پر قرآن کریم کی تلاوت کرو۔ چنانچہ وہ انگلینڈ کی آسائشیں ترک کرکے موضع بھدر، ماں کے پاس آگئے۔ دو برس تک عبادت کرتے رہے اور اپنا تمام مال و اسباب اللہ کی راہ میں لٹا دیا۔ حضرت قنبیطؑ خواب میں دوبارہ ملے اور کہا کہ ابھی بہت سی منازل طے کرنی ہیں۔ چنانچہ میلاد شریف کے روز سو دیگیں میٹھے چاولوں کی پکا کرغربا میں تقسیم کردیں۔ بعد میں ختم شریف کا سلسلہ بڑیلہ شریف مزار حضرت قنبیطؑ مبارک پر شروع کردیا۔ انہوں نے مزار شریف کی تعمیر بھی شروع کرادی تھی۔ اسی تعمیر کے دوران یہاں سے ایک پختہ تختی ملی، جس پر تحریر تھا، حضرت قنبیط ابن آدم، فیض علی درویش، غوث زمانہ حافظ شمس الدین گلیانہ 1905ء‘‘۔
غلام مصطفی کا دعویٰ تھا کہ ’’بظاہر یہ تمام باتیں ایک افسانہ دکھائی دیتی ہیں، لیکن اولیاء اللہ کااپنا نظام ہے، جو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ جس طرح عنایت مولا نے 1971ء سے لے کر 2005ء تک اس مزار کی تزئین نو کی، وہ خوبی کسی خاص انسان کو ہی ودیعت ہو سکتی ہے‘‘۔ عنایت مولا کہتے ہیں ’’مجھے ایک روز پھر خواب میں زیارت ہوئی اور فرمایا کہ بروز بدھ نو بجے میرے مزار پر حاضری دو۔ یہاں پہنچا تو جنگل بیابان تھا۔ درخت ہی درخت تھے۔ مجھ سے فرمایا کہ یہاں رہنا ہے یا جانا ہے۔ میں نے کہا کہ اپنے قدموں میں ہی رہنے دیں۔ چنانچہ پھر مجھے مزار کی تعمیر نو کا حکم ملا۔ میں نے ڈسکہ سے انجینئر بلوائے۔ انہوں نے بتایا کہ تعمیرات کا کام پانچ برس میں مکمل ہوگا۔ میں نے مزار حضرت قنبیطؑ کی جدید انداز میں تعمیرات کاکام شروع کرادیا۔ اللہ کے فضل سے مزار کی تعمیر نو ماہ میں مکمل ہوگئی۔ پورے مزار پر لینٹر ڈال دیا گیا اورگنبد بھی تعمیر کرادیا گیا۔ اس دوران میں شدید بیمار ہو گیا اور آٹھ نو ماہ سخت بیمار رہا۔ میری زندگی کی کوئی امید باقی نہیں تھی۔ لیکن اللہ نے فضل کیا اور میں ٹھیک ہوگیا۔ چنانچہ میں نے بعد میں دوبارہ کام شروع کرا دیا اور اب سنگ مرمر لگوانا تھا۔ بغیر کسی سے مانگے ستّر لاکھ روپے اس وقت تک مزار پر لگ چکے تھے‘‘۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد عنایت مولا بائیس برس انگلینڈ میں مقیم رہے۔ لیکن جب مزار پر آئے تو دوبارہ انگلینڈ پلٹ کر نہ دیکھا۔ مزار پر ابھی بہت کچھ باقی تھا، جس کے بارے میں فضل حسین نے بتایا کہ یہاں کسی طرح مرادیں پوری ہوتی ہیں اور اس مزار پر کیا انہونے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں؟ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭