صفی علی اعظمی
بھارتی ریاست ہریانہ کے گائوں ٹیٹولی کی ہندو پنچایت نے اسلامی نام رکھنے پر پابندی لگا دی۔ مقامی میڈیا کے مطابق ڈیڑھ ماہ قبل ایک بچھڑے کی لاش ملنے کے بعد سے ہندو پنچایت نے گائوں میں موجود سینکڑوں مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ پولیس کی مدد سے ہندوئوں کی جانب سے سماجی بائیکاٹ کرتے ہوئے مسلمانوں کو روزگار دینے اور ان سے سامان خریدنے کے ساتھ ساتھ سامان بیچنے پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ جبکہ ہریانہ ایڈمنسٹریشن، بی جے پی حکومت اور پولیس خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔ ادھر آٹھ سو سے زائد مسلمانوں کو گائوں سے نکالنے کی تیاریاں بھی مکمل کرلی گئی ہیں۔ مقامی مسلمانوں نے بتایا ہے کہ ان پر ہندو پنچایتی کمیٹی کی جانب سے ایک بچھڑے کی لاش ملنے پر نماز کی ادائیگی اور نومولود بچوں کے اسلامی نام رکھنے سمیت اسلامی شعائر پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ ہندو پنچایتی رہنمائوں نے مسلمانوں کو تحریری طور پر پابند کیا ہے کہ وہ سر پر ٹوپی یا عمامہ نہیں لگا سکیں گے اور گوشت پر مکمل پابندی ہوگی۔ جبکہ مسجد سے لائوڈ اسپیکر اتار دیا گیا ہے اور مقامی پولیس اور ڈپٹی کمشنر کی مدد سے مسلمانوں کی داڑھیوں کی پیمائش کئے جانے کا حکم بھی جاری کیا گیا ہے کہ کسی بھی مسلمانوں کی لمبی داڑھی نہیں ہونی چاہئے۔ ورنہ پولیس اور پنچایتی ممبران اس مسلمان کی داڑھی تراش دیں گے۔ ہزاروں کی آبادی والے اس گائوں میں 800 مسلمان موجود ہیں، جن کا کہنا ہے کہ نماز، اسلامی نام اور مدرسے سے دور رہنا انہیں کسی قیمت پر قبول نہیں ہے۔ ادھر بھارتی منارٹی کمیشن نے اس سلسلے میں مرکزی حکومت کو مطلع کرتے ہوئے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا ہے لیکن مودی سرکار نے مسلمانوں کی داد رسی سے یکسر اجتناب برتا ہے اور اس ضمن میں کوئی ایکشن نہیں لیا۔ برطانوی جریدے ٹیلیگراف نے بتایا ہے کہ جب اس نے اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر روہتک راکیش کمار سے استفسار کیا گیا تو انہوں نے ہندو پنچایت کے عمل کو غیر آئینی و غیر قانونی قرار دیا۔ لیکن اس سے لا علمی کا بھی اظہار کیا۔ دوسری جانب سیکولر تنظیم ایکتا منچ کے رہنما شہزاد خان نے بتایا ہے کہ بھارت میں مسلمان خوف کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان سے اسلامی شعائر پر عمل کرنے کی آزادی چھیننا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، لیکن ریاست کوئی ایکشن لینے پر تیار نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ’’ہندوتوا‘‘ سوچ کو لگام نہیں دی گئی تو مستقبل میں مزید کئی پاکستان جنم لے سکتے ہیں۔ اسکرول انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ٹیٹولی گائوں میں مسلمانوں کو 1947ء جیسی کیفیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان کی مذہبی شناخت اور عبادات پر پابندی عائد کردی گئی ہے اور اس کا سبب صرف یہ ہے کہ گائوں میں گائے کا بچھڑا مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔ اگرچہ اس بچھڑے کا گلا بھی نہیں کاٹا گیا تھا لیکن مقامی ہندوئوں نے اس بچھڑے کی ہلاکت کا الزام مسلمانوں پر عائد کیا۔ اس کے بعد نہ صرف مسلمانوں کو مارا پیٹا گیا، ان کی خواتین سے دست درازی کی گئی، بلکہ پولیس کی مدد سے یامین کھوکھر سمیت چار نوجوانوں کو گرفتار بھی کرا دیا گیا۔ اس پر بھی ہندوئوں کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو ہندو پنچایتی کمیٹی کا اجلاس بلا کر مسلمانوں کی بات سنے بغیر ان پر مختلف سزائیں لاگو کر دی گئیں۔ ٹیلیگراف نے لکھا ہے کہ اب گائوں میں مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہونے والے بچوں کے اسلامی نام نہیں رکھے جا سکیں گے۔ جبکہ مسلمانوں کیلئے سر ڈھانپنا بھی خلاف قانون ہوگا۔ نماز کی ادائیگی کھلے عام نہیں کی جائے گی۔ مسلمان کرتا پائجامہ کے بجائے دھوتی یا پینٹ پہنا کریں گے اورگوشت خوری ترک کردیںگے جبکہ اپنے قبرستان کیلئے گائوں سے دور جگہ بنائیں گے۔ برطانوی جریدے نے ٹیٹولی گائوں میں اس قسم کے اقدامات کو کھلی مسلم دشمنی قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ بھارتی مسلمان ایک بارپھر1947ء کی طرح پارٹیشن کے دور سے گزر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭