احمد خلیل جازم
حضرت قنبیطؑ کے مزار پر زائرین عموماً منت کے طور پر میٹھا تقسیم کرتے ہیں اور میٹھے میں بھی زیادہ تر لوگ اپنی منت پوری ہونے پر میٹھے چاول لوگوں کو کھلاتے ہیں۔ یوں تو یہاں بکرے ذبح کر کے دیگیں بھی بانٹی جاتی ہیں، لیکن منت مانگنے والے صرف میٹھے چاولوں کی ہی منت چڑھاتے ہیں۔ تین جمعرات میٹھے چاول پکا کر تقسیم کر کے منت مانگنے والے افراد کی منت پوری ہو جاتی ہے۔ حاجی فضل حسین کا کہنا ہے کہ ’’اللہ کے جتنے ولی بھی ہیں، وہاں دیگر مخلوق کی انسانوں سے زیادہ ڈیوٹی ہوتی ہے۔ اس مزار پر صوبیدار خان بہادر کی زیر نگرانی اٹھارہ لوگوں کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے، جن میں گزشتہ بائیس برسوں سے میں بھی شامل ہوں۔ یہاں سے میری مختلف ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں۔ مثلاً پانچ بار مجھے یہاں سے حضرت داتا گنج بخشؒ کے مزار پر حاضری کا حکم ہوا، چنانچہ پانچ جمعرات میں وہاں حاضری دیتا رہا۔ یہ حاضری خواب میں بھی بتائی جاتی ہے اور کوئی نہ کوئی اشارہ بھی ملتا ہے۔ اس مزار پر اکثر جنات ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں‘‘۔ بابا فضل کا مزید دعویٰ ہے کہ ’’میری عمر اب ستّر برس سے زیادہ ہو رہی ہے۔ میں اسی علاقے کا رہائشی ہوں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے یہ قبر یہیں موجود تھی۔ اس وقت یہ پختہ تو نہیں تھی، اور آس پاس بہت زیادہ ویرانہ تھا۔ لیکن اس قبر کی لمبائی اس وقت بھی اتنی ہی تھی جتنی اب ہے۔ کوئی یہ کہے کہ کسی نے بعد میں اسے لمبا کیا ہے تو یہ بات غلط ہے۔ ہمارے بزرگوں نے بھی اسے اسی طرح لمبا دیکھا ہے، اور وہ اسے پیر سچا کہتے تھے۔ یعنی یہاں مدفون ہستی اس قدر سچی ہے کہ اس کا نام بھی پیر سچا معروف ہوگیا۔ آپ کو بچپن کا ایک واقعہ سناتا ہوں۔ جن دنوں یہ قبر کچی تھی، اس وقت یہاں گھنے درخت تھے اور زیادہ تر یہاں سے اونٹوں والے گزرتے تھے۔ یہ لوگ دور دراز اپنی زمینوں پر مال مویشی بھی لے کر جاتے اور گندم وغیرہ کی بیجائی اور کٹائی بھی کرنے جاتے۔ ایک مرتبہ یہاں سے گزرتے ہوئے ایک قافلے کو یہیں پر رات پڑ گئی اور انہوں نے سوچا کہ رات یہیں بسر کرلی جائے۔ اس وقت یہاں کسی کا آنا جاتا نہیں تھا۔ اب تو کمرے بن گئے ہیں، درس کھل گیا ہے، لنگر کی تقسیم تین وقت جاری رہتی ہے۔ لیکن ہمیں یاد ہے کہ ایک وقت تھا کہ اس جگہ پر کوئی جانا پسند نہیں کرتا تھا۔ بس قافلے یہاں آتے اور گزر جاتے تھے۔ اس قافلے کو بھی اتفاق سے یہاں رات پڑی۔ ان دنوں یہاں پیپل کے ساتھ ساتھ کیکر کے درخت بھی وافر موجود تھے۔ قافلے والوں نے اپنے اونٹ انہی درختوں کے ساتھ باندھ دیئے۔ ایک اونٹ اس قبر مبارکہ کے ساتھ اگے کیکر کے درخت کے ساتھ بھی باندھ دیا گیا۔ اب جانور کو کیا معلوم کہ قبر کس کی ہے۔ وہ تو ہمہ وقت خوراک کی طلب میں رہتا ہے۔ اونٹ بکری ایسے جانور ہیں جو ہر لمحہ کہیں بھی انہیں کھانے کو کچھ دکھائی دے، اس پر ضرور منہ مارتے ہیں۔ کیکر کی شاخیں جب بہت گھنی ہو جائیں تو پتے اور شاخیں جھک جاتی ہیں۔ وہ درخت بھی خاصا گھنا تھا۔ اونٹ نے جیسے ہی جھکی ہوئی ڈالیاں دیکھیں، اس نے فوری طور پر ایک شاخ کو منہ میں ڈال لیا۔ لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کا منہ وہیں بند ہوگیا۔ شاخ اس کے اندر پھنس کر رہ گئی۔ اب وہ اسے نہ اگل سکتا تھا اور نہ ہی نگل سکتا تھا۔ اونٹ کا منہ مکمل طور پر بند ہوگیا۔ قافلے والوں نے جب یہ عالم دیکھا تو انہیں بہت پریشانی ہوئی۔ انہوں نے دیکھا کہ اونٹ نہ منہ نیچے کرسکتا ہے اور نہ ہی منہ کو کھول کر اس ڈالی سے جان چھڑا سکتا ہے۔ وہ بہت گھبرا گئے۔ قافلے میں کچھ سمجھدار بزرگ بھی موجود تھے۔ انہوں نے جب قبر دیکھی تو انہیں خیال آیا کہ یہاں کوئی اللہ کا برگزیدہ بندہ دفن ہے، جس کو جانور کی یا ہماری یہ حرکت پسند نہیں آئی کہ ہم نے ایک جانور کو ان کی قبر کے ساتھ اُگے درخت کے ساتھ باندھ دیا ہے، جس نے قبر پر سایہ کیا ہوا تھا۔ چنانچہ قافلے والوں نے مل کر قبر پر جاکر معافی کی خواستگاری کی۔ تما م قافلہ جب معافی کا خواستگار ہوا تو جب جاکر کہیں اونٹ کا منہ کھلا اور ان لوگوں نے اونٹ کو کھول کر اسی وقت یہاں سے رخصت ہوگے‘‘۔
فضل حسین باتیں کرتے جارہے تھے اور ساتھ ساتھ زائرین کو مزار کی حرمت کی تاکید بھی کرتے جارہے تھے۔ مزار کے تعویذ کے پیچھے حاجی عنایت مولا کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی۔ اگرچہ مزار کے دونوں اطراف دیواروں میں روشنی کے لیے کھڑکیاں لگی ہوئی تھیں، اس کے باوجود اندر کا ماحول کافی خوابناک تھا۔ مزار کے اوپر سر کی جانب ایک بڑا، نفیس اور قیمتی فانوس جل رہا تھا، جس کی روشنی چاروں جانب چھن رہی تھی۔ کچھ زائرین قبر مبارکہ کے پاس بیٹھ کر قرآن پاک کے پارے ساتھ رکھی کھڑکیوں سے اٹھا کر پڑھ رہے تھے اور بعض لوگ فقط دعا مانگنے میں مصروف تھے۔ عورتیں مزار کے پاس آنکھیں بند کر کے بیٹھی دعا مانگنے میں مصروف تھیں۔ الغرض یہاں ہر بندہ اپنی غرض پیش کرنے کو حاضر تھا۔ مزار کی صفائی ستھرائی کا عالم دید کے قابل تھا۔ قبر کے ساتھ بنی ڈیوڑھی میں سنگ مرمر کا فرش چمک رہا تھا، اور قبر کے ساتھ پانچ سات فٹ اونچائی پر سنگ مرمر کا دونوں طرف ستّر گز چبوترہ بنایا گیا تھا۔ اس چبوترے پر ہر کسی کا چڑھنا منع تھا، لیکن آج چونکہ عرس کا موقع تھا، اس لیے زائرین اس چبوترے پر چڑھ کر قبر پر پھول چڑھا رہے تھے۔ ہم نے اب جھجھک جھجھک کر تصاویر لینا شروع کردی تھیں۔ لیکن انتظامیہ میں موجود لڑکے ہمیں بار بار آکر تصویر بنانے سے روکنے لگے۔ آخر فضل حسین نے تنگ آکر انہیں منع کر دیا اور کہا ’’انہیں تصاویر کھینچے دو، یہ خود نہیں آئے، بھیجے گئے ہیں‘‘۔ ہمیں حیرت کا جھٹکا لگا، اور ہم نے فضل حسین کی جانب استفساری نگاہوں سے دیکھا تو انہوں نے مسکراکرکہا ’’مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ آپ آنے والے ہیں۔ آپ تو دو روز قبل آنا چاہتے تھے، لیکن حکم نہیں تھا، کیونکہ صاحب نے آپ کو عرس کے موقع پر بلانا تھا، اس لیے آپ آج آئے‘‘۔ ہمیں یوں محسوس ہوا جیسے ہمارے پائوں کے نیچے سے زمین کھسک گئی ہو۔ واقعی ہم دوروز قبل آنا چاہتے تھے، لیکن بوجوہ پروگرام لیٹ ہوگیا اور ہمیں قطعی اندازہ نہ تھا کہ آج سے عرس شروع ہو رہا ہے۔ یہ ایسی چونکنے والی ہی بات تھی، کیونکہ فضل حسین کو یہ معلوم نہ تھا کہ دو دن سے ہمارا پروگرام مسلسل بن رہا تھا لیکن حکم ربی نہیں ہو رہا تھا۔ خیر دماغ سے اس بات کو جھٹک کر فضل حسین کی جانب متوجہ ہوئے اور کہا ’’آپ نے بڑے یقین سے کہہ دیا ہے کہ ہم آنے والے تھے، کیا اس کا بھی کوئی اشارہ ملا تھا۔ تو انہوں نے دعویٰ کیا ’’مجھے بتائیے یہاں کتنے انتظامیہ کے لوگ موجود ہیں۔ لیکن آپ نے کسی اور سے بات نہیں کی، صرف میری جانب ہی لپکے۔ یہ میری ڈیوٹی ہے کہ کسی خاص موقع پر کسی سے ملاقات میری ہی کرائی جاتی ہے۔ جب آپ نے مجھے متوجہ کیا تو اس وقت میرا دھیان قطعی آپ کی جانب نہیں گیا، کیونکہ ہزاروں لوگ آکر مجھ سے بات کرتے ہیں۔ لیکن جس طرح آپ نے میرے ساتھ کلام شروع کیا، مجھے تھوڑی دیر بعد اس کا اندازہ ہوگیا کہ آپ سے بات کرنی ہے۔ اسی لیے میں نے آپ کو تصاویر لینے سے منع نہیں کیا، ورنہ کوئی دوسرا انتظامیہ کے سامنے تصویر لے کر تو دکھائے۔ ہاں لڑکے چھپ کر تصاویر بنا رہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں معلوم نہیں کہ وہ تصاویر بنا رہے ہیں، بلکہ ہم جان بوجھ کر توجہ نہیں دیتے۔ آخر ان کی بھی خواہشات ہیں۔ جب صاحب مزار کو اعتراض نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں روکنے والے۔ ایک حد تک روکتے ہیں، کیونکہ یہ تصاویر بناتے بناتے بے ادبی کر بیٹھتے ہیں اور صاحب کی ناراضی کا خطرہ رہتا ہے‘‘۔
حضرت قنبیطؑ کی قبر کے حوالے سے ایک اہم تحریر ریاض بٹالوی کی ہے، جو 1988ء میں ایک معاصر اخبار میں لکھتے ہیں کہ… ’’ایک روایت کے مطابق حافظ شمس الدین گلیانوی دورانِ سفر بڑیلہ شریف میں رکے اور اپنے مریدین سے کہنے لگے کہ انہیں درختوں کے جھنڈ میں عجیب سی خوشبو محسوس ہو رہی ہے۔ یقیناً یہاں کسی نبی کی قبر ہے۔ انہوں نے گائوں سے ایک فرلانگ سے اسے محسوس کرکے مذکورہ مقام پر حاضری دی اور گلوگیر لہجے میں کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ یہ قیمتی خزانہ اس وقت ملا، جب میں دنیا سے رخصت ہونے والا ہوں۔ اس واقعے کے چند ماہ بعد آپ وصال فرما گئے۔ ان دنوں خشک سالی سے لوگ پریشان تھے اور علاقے میں قحط کے آثار پیدا ہو رہے تھے۔ حافظ صاحب نے اہل دیہہ کو ساتھ لیا، مدفن (قبر) حصہ پر مٹی ڈلوا کر اسے اور نمایاں کرایا۔ اس نیک کام میں ہندوئوں اور سکھوں نے بھی حصہ لیا۔ قبر مکمل ہونے کی دیر تھی کہ بادل آناً فاناً گھر آئے اور برسوں بعد اتنے زور سے بارش ہوئی کہ ہر طرف جل تھل ہوگیا۔ روایات میں ہے کہ احترام نبی اور رسل کے توسط سے رحمت باراںکے لیے دعائیں شرف قبولیت حاصل کر لیتی ہیں‘‘۔ فضل حسین ہمارے ساتھ تھے، اور ہم ابھی فضل حسین کو مزید کریدنا چاہتے تھے۔ ہم نے انہیں کہا کہ آپ کا کہنا ہے کہ مزارات پر اور خاص طور پر اس مزار پر جنات کا قیام رہتا ہے اور وہ آتے جاتے رہتے ہیں۔ کیا آپ کے مشاہدے میں کچھ ایسے واقعات آئے ہیں۔ ان کے جواب میں فضل حسین نے ہمیں کچھ واقعات سے آگاہ کیا، جو خود ان کے ساتھ پیش آئے تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭