جعلی اکاونٹس کیس میں سندھ پر دباو بڑھ گیا – سبسڈی تفصیلات طلب
کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو)حکومت سندھ منی لانڈرنگ کیس میں پارٹی قائدین اور اومنی گروپ کو بچانے کے لئے سخت دباؤ کا شکار ہو گئی۔ جے آئی ٹی نے شوگر ملز کو 2012 سے 2018 تک دی جانے والی سبسڈی کی تفصیلات بھی طلب کر لی ہیں جس سے انویسٹمنٹ بورڈ آف سندھ کے متعدد اعلیٰ افسران کے تفتیش کی زد میں آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ جے آئی ٹی کی طرف سے صوبے میں شوگر ملوں کو کسی بھی طرح کی دی جانے والی سبسڈی کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔دوسری جانب 2008 سے 2018 تک من پسند فرمز اور ٹھیکیداروں کو دئیے جانے والے کئی ٹھیکوں اور بیمار صنعتوں کے نام پر جاری ہونے والے فنڈز ریکارڈ بھی گم ہونے کا انکشاف ہوا ہے ریکارڈ کی عدم موجودگی کا ملبہ نیب اور اینٹی کرپشن پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ تفصیلات کے مطابق اومنی گروپ اور منی لانڈرنگ کیس میں نامزد پی پی کے شریک چیئرمین آصف زرداری ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، انور مجید ، حسین لوائی اور دیگر کو بچانے کے لئے سندھ حکومت سخت دباؤ کا شکار ہو گئی ہے۔ منی لانڈرنگ کیس میں جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات کے لئے تشکیل دی جانے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے حکومت سندھ سے 2012 سے 2018 تک صوبے کی تمام شوگر ملز کو دی جانے والی سبسڈی کی مکمل تفصیلات طلب کر لی ہیں ۔ جے آئی ٹی کی طرف سے چیف سیکریٹری سندھ کو لکھے گئے لیٹر میں مزید کہا گیا ہے کہ 2008 سے 2018 تک صوبے میں اگر کسی بھی شوگر مل کو کسی بھی طرح کی سبسڈی دی گئی ہے تو اس کی تفصیلات بھی فراہم کی جائیں۔ جے آئی ٹی نے پوچھا ہے کہ حکومت سندھ نے 2012 سے تاحال کتنی شوگر ملوں سے چینی خریدی اور انہیں ادا کی جانے والی سبسڈی کی منظوری کس نے دی جبکہ اس کی سمری اور ورکنگ پیپرز کے ساتھ تمام تفصیلات فراہم کئے جائیں۔نیب آرڈیننس کے تحت طلب کی گئی معلومات سے متعلق واضح طور پر ہدایت کی گئی ہے کہ پیش کیا جانے والا تمام ریکارڈ تصدیق شدہ ہونا چاہئے غیر تصدیق شدہ ریکارڈ قبول نہیں کیا جائے گا۔ لیٹر موصول ہونے کے بعد چیف سیکریٹری نے تین محکموں کے سیکریٹریز امپلیمنٹیشن ، ایگریکلچر اور انڈسٹریز کو ارسال کر کے معلومات کی فراہمی کے لئے ہدایات جاری کی تھیں ۔ جے آئی ٹی کو چار روز کے اندر تمام معلومات کی فراہمی کی ہدایت کی گئی تھی ،تاہم ذرائع کے مطابق ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود حکومت سندھ کی طرف سے تاحال ریکارڈ جے آئی ٹی کے سپرد نہیں کیا گیا۔اس سلسلے میں جب محکمہ انڈسٹریز کے حکام سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ریکارڈ کی مکمل چھان بین کی جا چکی ہے محکمہ انڈسٹریز کو سبسڈی کی ادائیگی کے تمام معاملات سے الگ رکھا گیا تھا ۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنی صفر رپورٹ چیف سیکریٹری کو ارسال کر دی ہے جس میں واضح کر دیا گیا ہے کہ ہمارے پاس ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انویسٹمنٹ بورڈ آف سندھ کے کچھ اعلیٰ حکام منی لانڈرنگ کیس کی تفتیش کی زد میں آنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں سبسڈی کی تمام رقم کی منظوری کے بعد انویسٹمنٹ بورڈ آف سندھ کی توسط سے سندھ بنکم اور سمٹ بنکا کو منتقل کی گئی تھی جہاں سے مختلف شوگر مل مالکان کو جاری کی گئی جن میں سے اکثریت اومنی گروپ کی ہیں ۔ دوسری جانب جے آئی ٹی کی طرف سے بیمار صنعتوں کے نام پر جاری کئے جانے والے فنڈز اور 2008 سے2018 تک مخصوص فرمز اور ٹھیکیداروں دئیے جانے اربوں روپے کے ٹھیکوں کے طلب کئے جانے والی تفصیلات سے متعلق معلوم ہوا ہے کہ اس سلسلے میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ ذرائع کے مطابق اربوں روپے کے ٹھیکوں کا ریکارڈ گم کردیا گیا ہے اور موجود ریکارڈ سے اہم دستاویزات گم ہیں جس کی وجہ سے ٹھیکیداروں کے کوائف مرتب نہیں کئے جا رہے۔ریکارڈ کی عدم موجودگی کا جواز نیب ، محکمہ اینٹی کرپشن کی تفتیش اور مختلف معاملات عدالتوں میں زیر التوا معاملات کو بنایا جا رہا ہے ۔ذرائع کے مطابق مختلف محکموں نے تاخیری حربے استعمال کرنا شروع کر دئیے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز سے ریکارڈ طلب کیا گیا ہے۔دوسری جانب حکومت سندھ نے جے آئی ٹی کو اکاؤنٹس کی تفصیلات کی فراہمی کا ٹاسک محکمہ خزانہ کے ان افسران کے سپرد کر دیا گیا ہے جو ایک اعلیٰ شخصیت کے قابل اعتبار تصور کئے جاتے ہیں۔