سٹی کورٹ پولیس نے مزدور پر جھوٹا مقدمہ بنا دیا

0

کراچی (رپورٹ : سید علی حسن) سٹی کورٹ پولیس نے غریب مزدور کے خلاف گٹکا سپلائی کا جھوٹا مقدمہ بنا دیا ، پولیس نے غفلت برتتے ہوئے لاک اپ میں ہونے والے واقعے کی ایف آئی آر میں گرفتاری سٹی کورٹ کے گیٹ نمبر 2 سے ظاہر کردی، اہلخانہ کےاحتجاج پر پولیس نے ثاقب کو شخصی ضمانت پر رہا کردیا۔ ثاقب نے الزام عائد کیا ہے کہ سٹی کورٹ کے لاک اپ میں تعینات پولیس اہلکاراشرف رند نے غیر اخلاقی حرکت سے منع کرنے پر اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد جھوٹے مقدمے میں پھنسا دیا۔ تفصیلات کے مطابق تھانہ سٹی کورٹ پولیس نے 9 سال سے لاک اپ میں کام کرنیوالے مزدور محمد ثاقب کیخلاف گٹکا برآمدگی کا مقدمہ درج کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ سٹی کورٹ کے لاک اپ میں ثاقب کافی عرصے سے اہلکاروں کو باہر سے چائے وغیرہ لاکر دینے کام کررہا ہے، جس کے عوض پولیس اہلکار ثاقب کو روزانہ کی بنیاد پر دیہاڑی دیتے ہیں، سٹی کورٹ میں قائم لاک اپ کی دوسری منزل پر ہائی پروفائل مقدمات میں نامزد ملزمان کو پیشی کے موقع پر بند کیا جاتا ہے، جہاں ایس آئی اشرف رند کی بھی ڈیوٹی لگائی گئی ہے، جمعرات کے روز لاک اپ کی دوسری منزل سے شور شرابے کی آواز آئی تو اہلکاروں نے دیکھا تو اشرف رند ثاقب کو پیٹ رہا تھا، جس پر وہاں اہلکاروں نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی، اس دوران اشرف رند ثاقب کوزبردستی سٹی کورٹ تھانے لے گیا اور اسے مضر صحت گٹکا برآمدگی کے مقدمے پھنسادیا۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ واقعہ لاک اپ میں پیش آیا تھا مگر سٹی کورٹ پولیس نے غفلت برتتے ہوئے گرفتاری عدالت کے گیٹ نمبر 2 سے ظاہر کی ہے، اس کے علاوہ مقدمے کا مدعی اشرف رند کو بنانے کے بجائے تھانے کے ایس آئی عزیز اللہ کو مدعی بنایا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ پولیس نے مقدمہ الزام نمبر 150/2018 میں کہا ہے کہ ایس آئی عزیز اللہ کانسٹیبل زین العابدین اور کانسٹیبل عبدالوہاب کیساتھ سٹی کورٹ کے گیٹ نمبر 2 پر تعینات تھا کہ ملزم ثاقب تھیلا لئے دروازے سے داخل ہوا ، تلاشی لینے پر تھیلے سے 108 پیکٹ جے ایم گٹکا اور 180 پیکٹ رجنی گٹکا برآمد ہوا، اس کے علاوہ ملزم کی جیب سے 2770 روپے بھی برآمد ملے اور اسے گرفتار کیا گیا ۔ ثاقب کی گرفتاری کا اس کے اہلخانہ کو علم ہوا تو وہ سٹی کورٹ پہنچ گئے اور انہوں نے لاک اپ کے باہر احتجاج کیا، جس پر پولیس نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا اس کے بعد اہلخانہ نے تھانہ سٹی کورٹ میں احتجاج کیا۔ بعد ازاں اہلخانہ کے مسلسل احتجاج پر پولیس نے ثاقب کو شخصی ضمانت پر رہا کرکے پیشی پر عدالت میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔ اس حوالے سے ثاقب سے بات کی گئی تو اس کا کہنا تھا کہ میں گزشتہ 9 سال سے اہلکاروں کو چائے وغیرہ لاکر دینے کا کام کررہا ہوں ، ایس آئی اشرف رند کافی دنوں سے مجھے جنسی ہراساں کررہا ہے، جمعرات کے روز جب میں چائے دینے لاک اپ کی دوسری منزل پر گیا تو لاک اپ کے ایک کمرے میں قیدیوں کو رکھا ہوا تھا جبکہ دوسرا کمرا خالی تھا۔ اے ایس آئی اشرف رند میرا ہاتھ پکڑ کر خالی کمرے میں لیجانے لگا اور غیر اخلاقی حرکتیں کرنے لگا، میری مزاحمت پر اس نے مجھے تشدد کا نشانہ بنایا اور جھوٹے مقدمہ میں پھنسا دیا۔ ثاقب نے مزید بتایا کہ اشرف رند نے قیدیوں سے تلاشی کے دوران جمع کئے جانے والے مضرصحت گٹکے تھانے میں دیئے اور کہا کہ یہ ثاقب سے برآمد ہوئے ہیں اس کے علاوہ میرے پاس موجود 2770 روپے جو میں اپنی والدہ کی ادویات خریدنے کیلئے لیکر گیا تھا وہ بھی چھین لئے اور انہیں کیس پراپرٹی بناکر جھوٹا مقدمہ درج کرادیا، اس نے یہ سب غیر اخلاقی حرکت نہ کرنے دینے پر کیا ہے، مجھے لاک اپ میں تعینات تمام اہلکار و افسران جانتے ہیں اور کبھی کسی کو مجھ سے کوئی شکایت نہیں رہی ہے ۔اس حوالے سے ایس آئی اشرف رند سے بات کی گئی تو اس کا کہنا تھا کہ مجھے لاک اپ میں تعینات ہوئے 4 ماہ ہوئے ہیں ، میں نے ثاقب کے ساتھ کوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں کی ہے، ثاقب گزشتہ 5 سال سے قیدیوں کو مضر صحت گٹکا بیچ رہا ہے، آج بھی وہ قیدیوں کو گٹکا بیچ رہا تھا جس پر میں نے اسے پکڑ کر تھانے دیا تھا، اس سے 200 سے زائد مضر صحت گٹکے کے پیکٹ اور 2 ہزار روپے سے زائد رقم برآمد ہوئی جو میں نے خود ایس ایچ او سٹی کورٹ کے حوالے کیا ہے، میں نے کسی کیساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی ہے۔ اس حوالے سے سٹی کورٹ کے لاک اپ انچارج مظفر سے بات کی گئی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے واقعے کا کوئی علم نہیں ہے ، سب انسپکٹر اشرف رند نے ثاقب کو خود پکڑا اور تھانے لے گیا جبکہ اس نے مجھ سے نہ تو کوئی شکایت کی اور نہ ہی وہ میرے پاس آیا ۔ لاک اپ انچارج کا مزید کہنا تھا کہ ثاقب کافی عرصے سے کام کررہا ہے مگر کسی اہلکار نے کبھی مجھےاسکے حوالے سے کوئی شکایت نہیں کی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More