اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )قومی احتساب بیورو (نیب )نے سابق وزیر اعظم نواز شریف ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر)صفدر کی ایون فیلڈریفرنس میں ضمانت کے ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل تیار کر لی ہے جس میں موقف اختیار کیا ہے کہ میاں نواز شریف ، اْن کے زیر کفالت افراد اور بے نامی دار اعلانیہ آمدن سے بڑھ کر وسائل اور اثاثے رکھتے ہیں، جبکہ میاں نواز شریف کے زیر کفالت افراد اور بے نامی دار تحقیقات سے پہلے یا ان کے دوران اپنے اثاثوں کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے ، اس لیے میاں نواز شریف پارلیمنٹ کی رکنیت سے نااہل ہے۔ موزیک فونسیکا اینڈ کو (برٹش ورجن آئی لینڈ) لمیٹڈ کے ڈائریکٹر فنانشل انوسٹی گیشن ایجنسی اور اینٹی منی لانڈرنگ آفیسر، مسٹر ایرول جارج کی خط و کتابت کی حاصل کردہ تصدیق شدہ نقول ثابت کرتی ہیں کہ مریم نواز ہی ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے فائدہ اٹھانے والی مالکن ہے ، چنانچہ جو دستاویزات اْسے ٹرسٹی ظاہر کرتی ہیں وہ من گھڑت اور جعلی ہیں۔کیپٹن (ر)صفدر بھی ان معاملات میں خود کوالگ تھلگ نہیں رکھ سکے اور انہوں نے حقائق چھپانے کی کوشش کی ۔ذرائع نے روزنامہ امت کو بتایا ہے کہ قومی احتساب بیورو نے ہفتہ کو میاں نواز شریف اور دیگر کی ہائی کورٹ اسلام آباد کی جانب سے ضمانت پر رہائی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کرنے کے لیے اپیل تیار کر لی ہے جس میں غیر ملکی فرموں سے کی گئی خط و کتابت ،میاں نواز شریف کی جانب سے لی گئی تنخواہوں کے شواہد اور مریم نواز کے بینی فیشل ہونے کے معاملات بارے دستاویزات بھی درخواست کے ساتھ لگائی جا رہی ہیں ۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت عالیہ نے پراسیکیوٹرجنرل نیب سمیت دیگر کے دلائل کو پوری طرح سے سنے بغیر ہی فیصلہ دیا ہے نیب کو دلائل کے لیے درکار مناسب وقت بھی نہیں دیا گیا،کیس کو یکطرفہ انداز میں سن کر فیصلہ کیا گیا،شواہد،دستاویزات ،گواہوں کے بیانات اور دیگر اہم ترین دستاویزات کا جائزہ بھی پوری طرح سے نہیں لیا گیا،اور صرف ایک نکتے پر رہتے ہوئے ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم ترین نکات پر بھی غور کرنے کی بجائے ملزمان کے وکلاء کے دلائل پر اکتفا کیا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ نیب نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلے کی مصدقہ نقل حاصل کر لی ہے۔نیب حکام کی جانب سے پراسیکیوشن کوکیس بھرپور طریقے سے لڑنے کی ہدایت کی گئی ہے اور ہائی کورٹ فیصلے کیخلاف رواں ہفتے ہی درخواست دائر کیے جانے کا امکان ہے جس میں سپریم کورٹ سے نواز شریف و دیگر کی ضمانت منسوخی کی استدعاکی جائے گی۔موقف میں مزید کہا گیا ہے کہ مریم نواز کے خلاف جودستاویزات موجود ہیں اور جو انہیں ٹرسٹی ظاہر کرتی ہیں وہ من گھڑت اور جعلی ہیں کہ جعلی دستاویزات استعمال کرنے کی پاداش میں مریم نواز کے خلاف احتساب عدالت کی جانب سے کی گئی کارروائی ک درست تھی اور کیلی بری فونٹ کو فروری 2006 ء میں دستاویزات کی تیار ی کے لیے استعمال کیا گیا حالانکہ مذکورہ فونٹ 2007 ء میں دستیاب تھا۔ اس بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے جعل سازی کی۔ نیز اہلی سٹیل ملز، سابق گلف سٹیل ملز کے 25 فیصد شیئرز فروخت کر کے بارہ ملین یو اے ای درہم حاصل کرنے کا طارق شفیع کا بیان بھی غلط معلوم ہوتا ہے، اور جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی اس جھوٹ کی تصدیق کرتی ہے۔ قطری خطوط میں بیان کردہ شہادت بے بنیاد تھی کیونکہ قطری شہزادہ نہ تو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوا اور نہ ہی اْس نے کسی بھی قانونی طور پر قابل ِ قبول ذریعے سے اپنا موقف پیش کیا۔مدعا علیہان کو عدالتی حکم نامے میں پوچھے گئے سوالات کے جواب دینے کے کافی مواقع فراہم کیے گئے ، لیکن انہوں نے اس سے گریز کی راہ اپنائی۔ نیز قطری کے پہلے خط اور مسٹر طارق شفیع کے بیان ِ حلفی کے درمیان تضاد سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی بھی قابل ِ اعتماد نہیں ہے۔ نیز دوسرے قطری خط کے ساتھ منسلک اضافی شیٹ بھی مدعا علیہان کے موقف کو ثابت کرنے میں ناکام رہی کیونکہ اس پر نہ دستخط ہیں اور نہ ہی کسی دستاویز سے اس کی تصدیق ہوتی ہے ، نیز یہ کہ رقم کی ترسیل کی تمام کہانی تضادات کا مجموعہ ہے جو مدعا علیہان نے جے آئی ٹی کے سامنے دیے ، نیز یہ کہ دوبئی سے جدہ مشینری منتقل کرنے اور عزیزیہ سٹیل کمپنی قائم کرنے کی کہانی کی تاحال تصدیق نہیں ہوسکی ہے ، اور نہ ہی پتا چلا ہے کہ مدعا علیہ نمبر 7 کے پاس 63.10 ملین سعودی ریال کہاں سے آئے ، قطع نظر اس کے کہ وہ 1/3 حصے کا حقدار تھا، چنانچہ ہل میٹلز اسٹبلشمنٹ قائم کرنے کے ذرائع بھی ثابت نہیں ہوتے ہیں۔ نیز میاں نواز شریف نے اپنے ظاہر کردہ اثاثوں میں یہ نہیں بتایا کہ وہ ایف زیڈ کے کا چیئرمین بھی ہیں ، چنانچہ وہ نااہل قرار دئیے جانے کا مستحق ہ ہونے کی وجہ سے انہیں نااہل قرار دیا گیا اور احتساب عدالت نے کیس کے تمام تر ثبوتوں اور شواہد کو مدنظر رکھ کر سزائیں سنائی تھیں جنھیں عدالت عالیہ نے بعض ایسے فیصلوں کے حوالوں کے ذریعے مستردکیاہے جن کااس کیس سے تعلق نہیں بنتا ہے اور یہ فیصلے ان مقدمات میں دیے گئے حقائق اور واقعات پر دلالت کرتے ہیں ۔