عارف انجم
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان وہ پہلا بڑا خفیہ معاہدہ تھا۔ 1973ء میں اسرائیل کیلئے امریکی حمایت کے جواب میں عرب ممالک نے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے فروخت روک دی تھی۔ اکتوبر 1973ء میں تیل کی فروخت رکنے کے چند ماہ بعد ہی امریکہ کی اسٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں۔ بحران کا موازنہ امریکی ماہرین 1929ء کے کساد عظیم (گریٹ ڈپریشن) سے کرنے لگے۔ صدر نکسن نے اپنے وزیر خزانہ سائمن کو ایک خفیہ مشن پر بھیج دیا۔ بظاہر سائمن مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں کے ممالک کے دورے پر روانہ ہوئے تھے، لیکن ان کی اصل منزل سعودی عرب تھی۔ 1974ء میں سعودی عرب کے شاہ فیصل اور امریکی وزیر خزانہ میں مذاکرات ہوئے اور ایک سمجھوتہ طے پا گیا۔ سعودی حکومت تیل سے حاصل ہونے والی آمدن اقتصادی بحران کے شکار امریکہ میں رکھنے پر آمادہ ہوگئی تھی۔ اس مقصد کیلئے سعودی عرب نے امریکہ سے ٹریژری بلز خریدے۔ شاہ فیصل کی شرط یہ تھی کہ اس بات کو خفیہ رکھا جائے۔ لہٰذا امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹریژری بل نیلامی کے بجائے خفیہ طور پر فروخت کیے گئے۔ امریکہ نے اپنے عمومی ریکارڈ میں صرف اتنا دکھایا کہ یہ ٹریژری بل ’’تیل برآمد کرنے والے ممالک‘‘ نے خرید ے ہیں۔ کسی ملک کا نام نہیں درج کیا گیا۔ 41 برس تک یہ خفیہ انتظام چلتا رہا۔ 2016ء میں معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ نے سرکاری ریکارڈ سے معلومات نکلوا دیں تو دنیا کو خفیہ معاہدے کا علم ہوا۔ بلوم برگ کے مطابق 1977ء میں 20 فیصد امریکی ٹریژری بل سعودی عرب کے پاس تھے۔
امریکی حکومت بانڈز فروخت کرنے کے علاوہ نیلامی کے ذریعے ٹریژری بل جاری کرتی ہے، جو نجی افراد کے علاوہ مختلف ممالک کی حکومتیں بھی خرید سکتی ہیں۔ امریکہ زیادہ تر رقم ان ٹریژری بلز کی فروخت کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور بنیادی طور پر یہ امریکہ کا قرضہ حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ ٹریژری بلوں کا سب سے بڑا خریدار چین ہے۔ امریکہ کی جانب سے جولائی 2018ء میں جاری عام دستیاب معلومات میں دکھایا گیا ہے کہ ٹریژری بل کے ذریعے امریکہ نے 6251 ارب ڈالر کا قرضہ لے رکھا ہے۔ جبکہ سب سے زیادہ ٹریژری سیکورٹیز چین (1171 ارب ڈالر) اور جاپان (1035 ارب ڈالر ) کے پاس ہیں۔ ان سرکاری اعدادوشمار میں سعودی عرب کے پاس موجود ٹریژریز کی مالیت 167 ارب ڈالر دکھائی گئی ہے۔ تاہم حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ امریکی قرضہ سعودی عرب نے اپنے سر اٹھا رکھا ہے۔ اپریل 2016ء میں سعودی حکومت نے اشارہ دیا تھا کہ اس کے پاس موجود ٹریژری بل کی مالیت 750 ارب ڈالر سے زائد ہے۔ اس وقت سرکاری اعدادوشمار سعودی عرب کی ملکیت ٹریژری 113 ارب ڈالر ظاہر کر رہے تھے۔
سعودی عرب نے صرف امریکہ کے قرضے کا خاصا بوجھ ہی نہیں اٹھا رکھا، بلکہ ہتھیاروں کی خریداری کی وجہ سے وہ امریکی دفاعی صنعت کا بھی سب سے بڑا سرپرست ہے۔ اس کے باوجود منگل کو امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی شاہ سلمان کے خلاف ہرزہ سرائی پر سعودی عرب نے نہ تو کوئی ردعمل ظاہر کیا ہے اور نہ ہی وہ کوئی جوابی اقدام کرنے کی پوزیشن میں دکھائی دیتا ہے۔ ٹرمپ کے مطابق انہوں نے ایک حالیہ گفتگو میں شاہ سلمان کو بتا دیا ہے کہ ’بادشاہ، ہم تمہاری حفاظت کر رہے ہیں۔ ہمارے بغیر تم دو ہفتے بھی نہیں رہو گے‘‘۔ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی حکومت کو اپنے تحفظ کیلئے امریکہ کو معاوضہ ادا کرنا پڑے گا۔ اس ہتک آمیز بیان پر سعودی عرب کی خاموشی کے پیچھے بے بسی کی وہ داستان ہے، جس کا تعلق ریاض حکومت کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں سے ہے۔
سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان قریبی تعلقات 1945ء سے چلے آرہے ہیں۔ دفاعی اعتبار سے بڑی پیشرفت 1980ء کے عشرے میں شروع ہوئی جب سعودی عرب نے اربوں ڈالر سالانہ اسلحہ خریدنا شروع کردیا۔ انتھونی کورڈزمین اپنی کتاب ’’سعودی عربیہ انٹرز دی ٹوئنٹی فرسٹ سینچری‘‘ جلد ایک کے صفحہ 89 پر میں لکھتے ہیں کہ 1982ء کے بعد سعودی عرب کی اسلحہ خریداری میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 1982ء سے 1992ء تک سعودی عر ب نے 47 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدے۔ 1992ء سے 1999ء تک تقریباً 60 ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا گیا۔ اس میں سے 47 ارب ڈالر کے ہتھیار امریکہ سے خریدے گئے۔ دوسرا بڑا سپلائر برطانیہ تھا۔ 23 مارچ 2018ء کو امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں بتایا کہ سعودی عرب امریکہ سے 114 ارب ڈالر کا اسلحہ خرید چکا ہے۔ جبکہ مئی 2017ء میں 110 ارب ڈالر اسلحہ فروخت کے معاہدے پر اتفاق ہوا ہے، جس میں سے 26 ارب ڈالر کے ہتھیار سعودی عرب کو فراہم کیے جا چکے ہیں۔
سعودی عرب نے امریکہ سے جو ہتھیار خریدے ہیں، ان میں جدید جنگی طیاروں سے لے کر میزائل دفاعی نظام تک سب کچھ شامل ہے۔ سعودی عرب امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے اور اس طرح وہ امریکی دفاعی صنعت کا بڑا سرپرست بھی ہے۔ سعودی عرب نے اس کے علاوہ بھی امریکی فوج کو ادائیگیاں کی ہیں۔ پہلی جنگ خلیج کے دوران امریکہ نے آپریشن ’’ڈیزرٹ شیلڈ‘‘ کے تحت اپنے 5 لاکھ فوجی سعودی عرب میں تعینات کیے تھے۔ امریکی آرمی کور آف انجینئرز کی 1996ء میں شائع کردہ کتاب ’’سپورٹنگ دی ٹروپس‘‘ کے مطابق سعودی عرب میں اس تعیناتی کے بدلے امریکہ نے دو سے ڈھائی ارب ڈالر ابتدائی طور پر اور 30 کروڑ ڈالر ہر ماہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سعودی حکومت نے 30 کروڑ ماہانہ (3 اعشاریہ 6 ارب ڈالر سالانہ) کی منظوری دیدی۔ جبکہ ابتدائی ادائیگی کیلئے بعد میں مذاکرات پر اتفاق ہوا۔ سعودی عرب میں امریکی افواج کی بڑی تعداد 2003ء تک تعینات رہی۔ اس مد میں اربوں ڈالر امریکہ کو ادا کیے گئے۔ 2003ء کے بعد تربیتی مقاصد کیلئے 4 ہزار کے لگ بھگ امریکی فوج سعودی عرب میں موجود ہیں۔
ملک کے اندر موجود امریکی فوج کو ادائیگیوں کا سلسلہ بند ہوا تو مشرق وسطیٰ کا بحران شروع ہوگیا۔ جنوری 2016ء میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا کہ شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے عسکریت پسندوں کی تربیت کیلئے سعودی حکومت امریکی سی آئی اے کو بھاری رقوم ادا کر رہی ہے۔ ان عسکریت پسندوں کیلئے ہتھیار بھی سعودی رقم سے خریدے جاتے ہیں۔
سینکڑوں ارب ڈالر امریکی فوج اور اسلحہ ساز کارخانوں کے حوالے کرنے کے باوجود سعودی عرب کی اپنی افواج اور مقامی دفاعی صنعت کو مضبوط کرنے پر برسوں تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اگرچہ برسوں میں یہ رحجان تبدیل ہوا ہے اور سعودی حکومت اب اپنی افواج کو بہتر بنا رہی ہے۔ اس سلسلے میں پاک فوج کا تعاون بھی حاصل کیا گیا ہے۔2018ء کے بجٹ میں سعودی عرب نے 26 ارب ڈالر مقامی دفاعی صنعت کیلئے رکھے ہیں۔ لیکن کوششیں کافی تاخیر سے شروع ہوئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کو طعنے دینے کا موقع ملا۔
اپنے مقروض امریکہ پر ماضی میں سعودی عرب کچھ نہ کچھ اثر و رسوخ استعمال کرتا رہا ہے۔ نائن الیون کمیشن کی رپورٹ سے 28 صفحات امریکی حکومت نے نکال دیئے تھے۔ ایک عمومی تاثر ہے کہ ان صفحات میں سعودی عرب کو حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ تاہم ریاض کے دبائو پر واشنگٹن انتظامیہ نے اپنے حلیف کو بچالیا۔ اپریل 2016ء میں امریکی کانگریس نے نائن الیون حملوں پر سعودی عرب کے خلاف مقدمہ چلانے کی منظوری دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس پر سعودی عرب نے دھمکی دی کہ سعودی عرب کے خلاف مقدمہ بنایا گیا تو اپنے پاس موجود 750 ارب ڈالرز کے امریکی ٹریژری بلزبیچنا شروع کر دے گا، جس کے نتیجے میں امریکی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ یہ دھمکی کارگر ثابت ہوئی۔
تاہم وہ 2016ء کی بات تھی۔ اس وقت تک یمن کی جنگ شرو ع ہوئے ایک برس ہی ہوا تھا۔ سعودی عرب اس جنگ میں زیادہ دھنسا ہوا دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ داخلی صورت حال خراب نہیں تھی۔ سعودی حکومت برسوں سے شاہی خاندان کے افراد اور دیگر قبائل کو مراعات دے کر مطمئن رکھتی آرہی ہے۔2011ء میں وکی لیکس کے ذریعے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق سعودی بجٹ میں ہر برس 37 ارب ڈالر کے مساوی رقم شاہی خاندان کے افراد میں تقسیم کرنے کیلئے رکھی تھی۔ شاہ عبدالعزیز بن سعود کے ایک بیٹے کو دو سے ڈھائی لاکھ ڈالر ماہانہ دیئے جا رہے تھے۔ شاہ عبدالعزیز کے پوتوں کو 27 ہزار ڈالر ماہانہ، پڑپوتوں کو 13 ہزار ڈالر ماہانہ اور اسی طرح نئی نسل کے افراد کو 8 ہزار ڈالر فی کس ماہانہ دیئے جاتے تھے۔ دیگر قبائل کے لئے مراعات کا اپنا ایک تفصیلی نظام رائج تھا، جو اب بھی ہے۔ مراعات کے اس نظام نے سعودی شاہی خاندان اور دیگر قبائل کو برسوں ریاض حکومت کا وفادار رکھا۔ لیکن 2017ء میں محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد صورتحال تبدیل ہونے لگی۔ کرپشن کے نام پر ملک گیر کریک ڈائون شروع کیا گیا، جس کے دوران اہم شہزادوں سمیت 500 افراد گرفتار ہوئے۔ اس کریک ڈائون نے سعودی عرب میں سیاسی تقسیم گہری کر دی۔ ماضی میں سعودی حکومتوں کو محدود پیمانے پر بغاوتوں کا سامنا رہا۔ لیکن اس مرتبہ شاہی خاندان کے اندر دراڑیں پیدا ہوچکی ہیں۔
سعودی عرب کی مسلح افواج میں صرف فضائیہ ہی مضبوط ہے۔ زمینی افواج کی کمزوری یمن کے حوثی باغیوں کے مقابلے پر ظاہر ہوچکی ہے۔ سعودی عرب کی مسلح افواج کا ڈھانچہ از خود ملک کی تقسیم کا ثبوت ہے۔ یہاں مسلح افواج کی تعداد 4 لاکھ 40 ہزار ہے۔ یہ فوجی وزارت دفاع کے ماتحت ہیں۔ لیکن ڈھائی لاکھ افراد پر مشتمل نیشنل گارڈز (عربی میں الحَرَس الوَطنی) کے نام سے ایک علیحدہ فورس بھی موجود ہے، جس کی کمانڈ ایک وزیر کے پاس ہوتی ہے۔ اس فورس کا کام ملک کو داخلی خطرات سے بچانا اور شاہی خاندان کا تحفظ ہے۔ ’’سعودی عربیہ انٹرز دی ٹوئنٹی فرسٹ سینچری‘‘ کے مصنف انتھونی کے مطابق اس فورس کے قیام کا مقصد شاہی خاندان کو ملک کی دیگر افواج کی بغاوت سے محفوظ رکھنا تھا۔ شروع میں شاہ عبداللہ نے اس کی کمانڈ براہ راست اپنے ہاتھ میں رکھی اور پھر اپنے بیٹے کو اس کا کمانڈر بنا دیا۔
داخلی بحران اور یمن کی جنگ میں پھنسا سعودی عرب امریکی صدر کی توہین آمیز گفتگو کا جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں۔ 2017ء میں جب ٹرمپ اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب پہنچنے تو ان کے پاس ایک بڑا سا چارٹ تھا، جس پر امریکی ہتھیاروں کی معلومات درج تھیں۔ یہ بروشر نما چارٹ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو دکھاکر وہ انہیں ایک سیلزمین کی طرح بریفنگ دیتے رہے۔ اس پر سعودی عرب میں کئی کارٹون بنے۔ ایک کارٹون میں آل سعود کو ایک گائے کی شکل میں دکھایا گیا، جس کے پاس بیٹھا ٹرمپ دودھ نکال رہا ہے۔ ٹرمپ کی حالیہ دھمکی کے بعد کئی عرب شہریوں کا ٹوئٹر پر کہنا تھا کہ سعودی عرب امریکہ کیلئے دودھ دینے والی گائے بن گیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ داخلی پالیسیوں نے اس گائے کی ٹانگیں بھی باندھ دی ہیں۔
٭٭٭٭٭