پرخطر سیاحتی مقامات پر ’’نوسیلفی زون‘‘ بنانے کا مطالبہ

0

سدھارتھ شری واستو
پُرخطر سیاحتی مقامات پر ’’نو سیلفی زون‘‘ کے قیام کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ کینیڈین ادارے نے سیلفی جنون کو جان لیوا مرض قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک برس کے دوران صرف یورپ میں 259 اموات ہوئیں۔ عالمی جریدے ڈیلی ایکسپریس کے مطابق یورپ کے علاوہ اگر افریقہ، وسطی ایشیا، بھارت اور روس کا ڈیٹا بھی ملایا جائے تو سیلفی کی خاطر اپنی جان لے لینے والے افراد کی تعداد ایک ہزار سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ اسی لئے ماہرین اور عالمی اداروں نے سیاحتی مقامات پر خطرے کی درجہ بندی کے اعتبار سے ’’نو سیلفی زون‘‘ بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ، روس، چین، ترکی سمیت کئی سیاحتی مقامات پر حالیہ ایام میں نو سیفی زونز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، تاکہ دنیا بھر میں سیلفی اموات کے تناسب کو کم کیا جائے اور قیمتی جانوں کو محفوظ بنایا جائے۔وائس نامی جریدے نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ سیلفی سے متعلق تازہ تحقیق کینیڈین ادارے جرنل آف فیملی میڈیسن کے ماہرین نے مکمل کی ہے اور بتایا ہے کہ سیلفی ایک جان لیوا مرض بن چکا ہے جس نے یورپی ممالک میں گزشتہ ایک سال میں 259 شوقینوں کی جان لے لی ہے اور قاتل سیلفیوں کے باعث جزوی یا کلی طور پر معذور ہوجانے والوں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہوچکی ہے۔ ان میں اونچائی سے گر کر ہلاک ہونے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جو 45 فیصد بتائی جاتی ہے۔ جبکہ دوسرے نمبر پر زہریلے جانوروں اور جنگلی جانوروں کا شکار ہوجانے سمیت ٹرین کی ٹکر سے ہلاکتیں بھی ریکارڈ کی گئی ہیں۔ اس تحقیق میں مزید انکشاف کیا گیا ہے کہ 10 فیصد سیلفی اموات سمندر یا سیلابی پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے رونما ہوئی ہیں، جبکہ امریکہ میں سب سے زیادہ سیلفی اموات آتشیں اسلحہ سے گولیاں لگنے سے وقوع پذیر ہوئیں۔ چین اور بھارت میں خطرناک اونچائیوں اور دریائوں اور جنگلی جانوروں کے ساتھ سیلفیاں لینے کی کوششیں بھی موت کے منہ میں جانے کا سبب بنی ہیں۔ اس سلسلہ میں سعودی عرب کی بھی مثال پیش کی جاتی ہے، جہاں مقدس مقامات کی زیارت اور عمر و حج کے مقدس سفر میں بھی سیلفی لینے کا رجحان ختم نہیں ہوسکا ہے، حالانکہ سعودی حکومت نے اس ضمن میں سیلفی لینے کی سخت پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 2014ء کو سیلفی کا سال قرار دیا گیا تھا، جس سے اب تک سماجی رابطوں کی سائٹس پر 24 ارب سیلفی تصاویر اپلوڈ کی جاچکی ہیں، جن کا نصف یعنی 12 ارب سیلفیاں منفرد ظاہر کرنے کیلئے خطرناک ماحول اور انداز میں اُتاری گئی تھیں۔ ادھر بھارتی ماہر ڈاکٹر اگم بنسل ڈائریکٹر انڈین انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس نے بھی سیلفی کو ایک جان لیو امرض بتایا ہے جس میں مبتلا فرد ہر قیمت پر دوسروں سے خود کو منفرد دکھانے کیلئے انوکھے انداز میں سیلفیاں لینے اور ان پر داد وصولنے کی کوشش کرتا ہے اور نتیجہ ان کی درد ناک اموات کی صورت میں نکلتا ہے۔ بھارتی محقق کا استدلال ہے کہ وہ سیلفی جنون کے سبب اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ دنیا بھر میں تفریحی پارکس اور اونچے پہاڑی مقامات اور ریلوے اسٹیشنوں سمیت ہوائی اڈوں، بلند عمارات اور چڑیا گھروں میں سیلفیوں پر مکمل پابندی عائد ہونی چاہئے اور یہاں حکومتوں کو چاہئے وہ اموات کو روکنے کیلئے ’’نو سیلفی زون‘‘ کا قیا م عمل میں لائیں جہاں کیمروں اور سیلفیوں پر مکمل پابندی عائد ہو۔ سیلفی اموات کے رجحان کو تیزی سے بڑھتا دیکھ کر ماہرین نے اپنی سفارشات کو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم تک پہنچانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے تاکہ اس عالمی ادارے کے توسط سے اموات پر قابو پایا جاسکے۔ سیلفیوں کی تحقیق میں شامل بھارتی ڈاکٹر اگم نے بتایا ہے کہ یورپ میں 259 اموات وہ ہیں، جو رپورٹ کی گئی ہیں لیکن ایسی اموات کی حقیقی تعدادکہیں زیادہ ہے۔ ڈاکٹر اگم نے یاد دلایا ہے کہ گزشتہ ہفتے ہی چھتیس گڑھ میں ایک نوجوان کو اس وقت خونخوار ریچھ نے چیر پھاڑ ڈالا جو جنگل کے پاس ایک آوارہ گھومتے ریچھ کے ساتھ سیلفی لے کر دوستوں پر اپنا رعب جھاڑنا چاہتا تھا۔ اگرچہ کہ ریچھ نے اس وقت اس نوجوان کو کچھ وقت کیلئے اپنے پاس آنے دیا لیکن جب یہ نوجوان سیلفی لینے کیلئے اسمارٹ فون کے کیمرے کو سیٹ کررہا تھا تو اس کا دھیان ایک لمحہ کیلئے ریچھ پر سے ہٹ گیا اور اسی وقت ریچھ نے اس نوجوان کو تیز نوکیلے پنجوں اور دانتوں سے بھنبھوڑ کر شدید زخمی کردیا۔ اس کو اسپتال پہنچایا گیا لیکن اس وہ دم توڑ گیا۔ کینیڈین جریدے وائس نے سیلفی اسٹڈی کے حوالہ سے بتایا ہے کہ سیلفیوں کی اموات کے تناسب میں پاکستان، بھارت، امریکا اور روس زیادہ بدنام ہیں اور ان تمام ممالک کے انڈیکس میں بھارت سب سے زیادہ اوپر ہے جہاں دنیا بھر کی سیلفی اموات کا نصف 50 فیصد وقوع پذیر ہوتا ہے لیکن ایسی اموات کو درست طور پر رپورٹ نہیں یا جاتا۔ عالمی اسٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ سیلفی کوئی برا فعل نہیں ہے لیکن خود پرستی کی بیماری میں مبتلا افراد ایسی سیلفیاں لینے کی کوشش کرتے ہیں جو خطرناک مقامات پر محض اس لئے لی جاتی ہیں کہ ان کی مدد سے دوستوں پر دھاک بٹھائی جائے یا ان کو انسپائرڈ کیا جائے۔٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More