غفار ذکری نے 4 سالہ بیٹے کو ڈھال بناکر فرار کی کوشش کی

0

امت رپورٹ
سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں لیاری میں ذکری گروپ کے سرغنہ غفار ذکری کی ہلاکت کے بعد لیاری گینگ وار کا خاتمہ ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق غفار ذکری کی لیاری میں موجودگی کی اطلاع پر رینجرز اور پولیس نے جمعرات کو علی الصباح لیاری کے علی محمد محلہ میں کارروائی کی تھی۔ غفار ذکری نے چھاپے کے دوران اپنے چار سالہ بیٹے کو ڈھال بنا کر فرار ہونے کی کوشش کی۔ تاہم فائرنگ کے نتیجے میں معصوم بچہ بھی ہلاک ہوگیا۔ جبکہ غفار ذکری کا کمانڈر زاہد چھوٹا بھی اپنے گینگ کمانڈر کا دفاع کرتے ہوئے مارا گیا۔ کارروائی میں پولیس سب انسپکٹر سمیت 3 اہلکار شدید زخمی ہوئے۔ زاہد چھوٹا کے گھر میں ہونے والے پولیس مقابلے کے حوالے سے زاہد کی رشتے دار خواتین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ غفار ذکری اپنے گھر میں چھاپے کے بعد فرار ہوکر اپنے بچے کو لے کر زاہد کے گھر پناہ کیلئے آیا تھا۔ تاہم اس نے بیٹے کی ہلاکت اور فرار کے راستے بند ہونے پر خود کو گولیاں مار لی تھیں۔ غفار کی ہلاکت کے بعد پولیس اور رینجرز اہلکار گھر میں داخل ہوئے تھے، جنہوں نے غفار کو مارنے کا کریڈٹ لیا۔ ذرائع کے مطابق علاقے میں اب بھی شدید کشیدگی پھیلی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ سندھ حکومت نے غفار ذکری کے سر کی قیمت 25 لاکھ روپے مقرر کی ہوئی تھی۔ کراچی آپریشن کے دوران وہ بلوچستان کے علاقے ساکران میں روپوش ہوگیا تھا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق غفار ذکری گزشتہ روز والدین سے ملنے لیاری میں آیا تھا کہ سیکورٹی اداروں اطلاع مل گئی۔ گینگسٹر ارشد پپو اور بابا لاڈلہ کی ہلاکت اور عزیر بلوچ کی گرفتاری کے بعد غفار ذکری کراچی میں اپنا گروپ اپنے بھائی شیراز ذکری کے ذریعے چلا رہا تھا۔ غفار ذکری کے خلاف لیاری سمیت مختلف تھانوں میں قتل، اقدام قتل، بم دھماکوں، رینجرز اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور مخالف گروپوں پر حملوں سمیت دیگر سنگین جرائم کے 200 سے زائد مقدمات درج تھے۔ آئی جی سندھ نے چھاپہ مارنے والی پولیس پارٹی کو 5 لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔ غفار ذکری کے ہمراہ مارا جانے والا زاہد عرف چھوٹا بھی درجن سے زائد سنگین مقدمات میں ملوث تھا۔ کراچی آپریشن کے آغاز کے بعد ستمبر 2013ء سے اب تک لیاری گینگ وار گروپوں کیخلاف سینکڑوں کارروائیاں ہوئیں۔ جبکہ چھوٹے بڑے دہشت گردوں کے خلاف لیاری سمیت دیگر آبادیوں میں روزانہ کی بنیاد پر کارروائیاں اب بھی جاری ہیں۔ جمعرات کو علی الصباح لیاری کے علی محمد محلے کو پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ اس دوران علاقہ شدید فائرنگ اور دستی بم دھماکوں سے گونجتا رہا۔ ذرائع کے مطابق سیکورٹی اہلکاروں نے جس مکان کو گھیرا تھا، اس کے اندر اور اطراف کی عمارتوں سے اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی۔ شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد رینجرز اور پولیس مکان کے اندر داخل ہوئی تو گھر کے گیٹ پر چار سالہ بچے کی لاش موجود تھی، جبکہ قریب ایک شخص کی گولیوں سے چھلنی لاش پڑی تھی، جس نے کمانڈو جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور جدید گن اس کے ہاتھ میں تھی۔ گھر کے اندر دوسری منزل کی سیڑھیوں پر ایک اور شخص کی لاش ملی۔ پولیس نے گھر کی تلاشی کے دوران اسلحہ، گولہ بارود، راکٹ لانچر اور ایس ایم جی رائفل سمیت دیگر اسلحہ برآمد کرلیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں پولیس کا سب انسپکٹر اللہ دتہ پیٹ میں گولی لگنے سے شدید زخمی ہوا۔ جبکہ دو اہلکار بھی گولیاں لگنے سے زخمی ہوئے تھے۔ پولیس نے گھر کے قریب سے ظہیر بلوچ، شاہد ملا اور دیگر کو حراست میں لے لیا تھا۔ بعدازاں مرنے والوں کی شناخت غفار ذکری، اس کے بیٹے محمد علی اور زاہد عرف چھوٹا کے نام سے ہوئی۔ ایس ایس پی سٹی سمیع اللہ سومرو کا کہنا ہے کہ غفار ذکری کی لیاری میں موجودگی کے بارے میں حساس ادارے نے اطلاع دی تھی۔ پولیس نے کارروائی سے قبل علاقے کا نقشہ دیکھ کر پلاننگ کی تھی۔ کیونکہ گنجان آبادی کی وجہ سے پولیس کا زیادہ جانی نقصان ہو سکتا تھا۔ غفار ذکری نے اپنے 3 سالہ بیٹے کو ڈھال بنا کر فرار ہونے کی کوشش کی تھی اور بیٹے سمیت مارا گیا۔ جس گھر میں ملزمان مارے گئے وہ غفار ذکری گروپ کے کمانڈر زاہد عرف چھوٹا کا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ غفار ذکری نے لیاری میں 2002ء میں اپنا گینگ بنایا تھا۔ اس سے قبل وہ لیاری میں منشیات، جوئے سٹے اور دیگر جرائم میں ملوث تھا۔ وہ پاک کالونی میں جہاں آباد کے علاقے کے ڈان لال محمد عرف حاجی لالو کے گینگ میں بھی شامل رہا تھا اور اس کے بیٹے ارشد پپو کے گروپ کا حصہ بھی رہا۔ بعدازاں اپنا گروپ الگ بنالیا تھا۔ اس کے دو بھائی عارف ذکری اور شیراز ذکری بھی گروپ کا حصہ تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ کے عروج کے دور میں غفار ذکری کا غدار وطن الطاف حسین سے بھی الحاق رہا تھا۔ جبکہ وہ بلوچ لبریشن آرمی کے نیٹ ورک میں بھی سرگرم تھا۔ اس کا بھائی عارف ذکری کراچی آپریشن سے قبل مارا جاچکا ہے۔ لیاری گینگ وار کا ارشد پپو، بھائی سمیت عزیر بلوچ کے ہاتھوں مارا گیا۔ جبکہ عزیر بلوچ آپریشن میں گرفتار ہوا۔ بعدازاں نور محمد عرف بابا لاڈلہ سیکورٹی اداروں کے ہاتھوں مارا گیا۔ اب ذکری گروپ کا غفار ذکری ہی باقی بچا تھا اور کراچی میں اس کا سیٹ اپ شیراز ذکری چلا رہا تھا۔ غفار ذکری لیاری اور پاک کالونی میں دہشت کی علامت بنا ہوا تھا اور بلوچستان کے علاقوں ساکران اور حب میں روپوش ہوکر نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ اس کے بی ایل اے اور بھارتی ’’را‘‘ سے روابط کے بارے میں بھی حساس ادارے تحقیقات کررہے تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں جاری آپریشن کے دوران گینگ وار کے اہم دہشت گردوں کے کوائف جمع کرکے ان نگرانی کی جارہی ہے۔ گزشتہ روز حساس ادارے کو اطلاع ملی کہ غفار ذکری لیاری میں اپنے والدین کے گھر بیٹے سمیت آیا ہوا ہے، جس پر کارروائی کی گئی۔ ذرائع کے بقول غفار ذکری کی ہلاکت کے بعد لیاری گینگ وار کا چیپٹر کلوز ہوگیا۔ اب مختلف گروپوں کے کارندے ہی بچے ہیں، جو بلوچستان میں روپوش ہیں یا ایران اور دیگر خلیجی ممالک فرار ہوگئے ہیں۔ ’’امت‘‘ نے لیاری کے علی محمد محلہ میں جاکر صورتحال معلوم کی تو علاقہ مکینوں نے بتایا کہ رینجرز اور پولیس علی الصبح آئی تھی۔ لیکن غفار ذکری اپنے بیٹے کو لے کر نکل گیا تھا۔ بعدازاں علاقے میں شدید فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں۔ پھر پتا چلا کہ غفار ذکری بیٹے سمیت مارا گیا ہے۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ غفار ذکری نے میت بس لے کر دی ہوئی تھی اور وہ علاقے میں سماجی کام کراتا تھا۔ غفار ذکری کے گھر کے باہر ٹینٹ لگا ہوا تھا اور وہاں علاقے کی خواتین اور رشتے دار خواتین موجود تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ مرد رشتہ دار غفار ذکری اور اس کے بیٹے کی میت لینے کیلئے سردخانے گئے ہوئے ہیں۔ تدفین کراچی کے میوہ شاہ قبرستان یا بلوچستان میں کریں گے۔ اب حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق غفار ذکری اپنے چار سالہ بیٹے محمد علی کو لیکر اپنے گروپ کے کمانڈر زاہد عرف چھوٹا کے گھر چھپ گیا تھا اور وہیں وہ بیٹے سمیت مارا گیا۔ زاہد کا دو منزلہ گھر مین روڈ کے قریب چھوٹی چھوٹی گلیوں کے درمیان واقع ہے۔ ’’امت‘‘ جائے وقوعہ پر موجود افراد سے بات کی تو اپنے گھر کے قریب سے گرفتار کئے گئے شیخ مسجد کے موذن شاہد ملا کے بھائی عاشق علی نے بتایا کہ اس کا بھائی صبح اذان دینے جارہا تھا کہ اس کو بھی پولیس پکڑ کر لے گئی۔ مارے جانے والے زاہد عرف چھوٹا کے گھر میں موجود خواتین غم سے نڈھال تھیں۔ ایک رشتے دار خاتون فاطمہ نے بتایا کہ زاہد رکشہ چلاتا تھا۔ جمعرات کی علی الصباح ان کے گھر پر غفار ذکری اپنے بیٹے کے ساتھ آیا اور کہا کہ اس کے پیچھے پولیس اور رینجرز لگی ہوئی ہے اس کے ہاتھ میں اسلحہ تھا۔ وہ اتنا غصے میں تھا کہ گھر کی خواتین کو ڈر تھا کہ اگر اس کو پناہ نہ دی گئی تو وہ سب کو مار ڈالے گا۔ ابھی گھر والے سنبھل نہیں پائے تھے کہ باہر سے فائرنگ شروع ہوگئی۔ غفار ذکری نے زاہد کو کہا کہ مجھے فرار کرانے میں مدد دو۔ اسی دوران گھر کی دیواریں کود کر پولیس اور رینجرز اہلکار اندر آگئے اور شدید فائرنگ کی۔ گھر کی خواتین فرش پر لیٹ گئی تھیں۔ جبکہ زاہد کو سیٹرھیوں پر گولیاں ماری گئیں۔ زاہد کی رشتے دار خواتین صغریٰ اور بلقیس کا کہنا تھا کہ غفار ذکری اپنے بیٹے کو گود میں لے کر سامنے سڑک والے دروازے کی طرف بھاگا، کیونکہ پولیس والے عقبی حصے سے آرہے تھے۔ جب غفار نے دیکھا کہ زاہد مارا گیا ہے تو اس نے بچے کو اٹھا کر بھاگنے کی کوشش کی۔ اسی دوران بچے کو گولیاں لگ گئیں۔ خواتین کا کہنا تھا کہ غفار ذکری نے جب دیکھا کہ فرار کے راستے بند ہوچکے ہیں تو اس نے پستول سے خود پر گولیاں چلائیں اور گیٹ کے پاس گر گیا۔ جب وہاں موجود خواتین شدید زخمی بچے کو سنبھال رہی تھیں تو پولیس اور رینجرز وہاں پہنچی تھی۔ خواتین نے کہا کہ بچے کو بچالو، اسپتال لے جاؤ۔ لیکن وہ لوگ گھر کی تلاشی میں لگ گئے۔ اس دوران گھر کے باہر سے فائرنگ کی آوازیں آتی رہیں۔ جب رینجرز اور پولیس اہلکار غفار ذکری اور زاہد کی لاشیں اور زخمی بچے کو لے گئے اس کے بعد بھی باہر موجود پولیس اہلکار وہاں موجود خواتین کو باہر نہیں نکلنے دے رہے تھے۔ بعد میں خواتین بغدادی تھانے پر جاکر احتجاج کرتی رہیں کہ بچے کو فوری طور پر طبی امداد کیلئے اسپتال کیوں نہیں بھیجا گیا۔ پولیس نے غفار ذکری اور اس کے بیٹے کی لاشیں ایدھی سردخانے سے وصول کرنے کی اجازت دیدی تھی۔ لیکن زاہد چھوٹا کی لاش دینے سے انکار کردیا تھا۔ خواتین کا کہنا تھا کہ گھر میں موجود ظہیر بلوچ نامی رشتے دار کو بھی پولیس لے گئی اور علاقے کے کئی افراد کو پکڑا گیا ہے۔ خواتین گراؤنڈ فلور پر مین گیٹ سے سیڑھیوں تک اور اوپری منزل کے کمرے اور بالکونی پر خون دکھاتی رہیں۔ اب بھی علاقے میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More