کراچی اسٹرٹیجک ڈیویلپمنٹ پروگرام بلڈنگ اتھارٹی سے منسلک کرکے نوٹیفکیشن جاری
کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو) سندھ حکومت نے 2005 سے زیر التوا کراچی اسٹرٹیجک ڈیویلپمنٹ پلان 2020 پر عملدرآمد سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کر دیا ،تاہم پلان کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی آرڈیننس 1979 کی دفعہ 7 بی سے منسلک کر دیا گیا ہے، حکومت سندھ نے متبادل ماسٹر پلان کی تیاری کا کام شروع کر دیا۔پلان کے تحت متحدہ کی طرف سے کراچی کے انتظامی امور پر حکومت سندھ کی اختیارات کی گرفت کم کرنے کی دیرینہ کوششیں دم توڑ گئیں۔ پلان کے تحت کراچی کی زمینوں کی لیز، ٹرانسپورٹ، ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ، کچی آبادی، واٹر بورڈ اور صحت سمیت متعدد محکموں اور شعبوں پر حکومت سندھ کا کنٹرول ختم کرنا تھا۔صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی کا کہنا ہے کہ یہ پلان نا قابل عمل ہے۔ عدالت کے حکم پر نوٹیفائی کیا ہے ،ہم نئے ماسٹر پلان پر کام شروع کر چکے ہیں۔تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ نے 2005 میں متحدہ رہنماؤں کی سفارش پر اس وقت کے چیف ایگزیکٹو جنرل پرویز مشرف کی ہدایت پر تیار کئے جانے والے کراچی اسٹرٹیجک ڈیولپمنٹ پلان 2020 پر عملدرآمد کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔متحدہ کی طرف سے اس پلان کے تحت کراچی کے امور سے متعلق حکومتٰ سندھ کے اختیارات کم کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔حکومت سندھ نے باریک بینی سے اسٹرٹیجک پلان کے خد و خال کو سمجھنے کے بعد گزشتہ روز5اکتوبر کو وزیر اعلیٰ سندھ کی منظوری کے بعد سیکریٹری بلدیات سندھ سید خالد حیدر شاہ نے اس پلان کی منظوری کا نوٹیفکیشن NO:SO(G)/HTP/SBCA/7-63/18 جاری کر دیا ہے۔ جاری کئے جانے والے نوٹیفکیشن کے مطابق کراچی اسٹرٹیجک ڈیویلپمنٹ پلان 2020 کو سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈیننس 1979 کے سیکشن 7 بی سے منسلک کرتے ہوئے اختیارات کی منتقلی سے متعلق ابہام پیدا کر دیا گیا ہے۔نوٹیفکیشن اس وقت جاری کیا گیا ہے ،جب اسٹرٹیجک پلان کی تکمیل کی مدت میں صرف 2 سال رہ گئے ہیں۔اس نوٹیفکیشن کی کاپی 47 وفاقی حکومت کی مختلف وزارتوں، صوبائی محکموں، پاک فوج کے متعلقہ شعبوں، رینجرز حکام، کارپوریشنز،اتھارٹیز کو ارسال کیا گیا ہے۔جنرل مشرف دور سے متحدہ کی یہ کوشش تھی کہ انتظامی طور پر کراچی سے متعلق تمام اختیارات میئر کے پاس ہوں اور حکومت سندھ کا کنٹرول ختم ہو جائے۔پلان کے تحت کراچی میں ہاؤسنگ، رٹیل، اسکولز، دفاتر، انڈسٹریل، انڈسٹریل پورٹ، سوشل، ری کریئشنل، مذہبی، صحت، زراعت، یوٹلٹی اور سیکورٹی کے مقاصد کے لئے زمینوں کی الاٹمنٹ اور لیز سے متعلق تمام اختیارات میئر کے سپرد کئے جائیں۔ اس پلان کی آڑ میں بلدیہ عظمیٰ کراچی غیر ملکی مالیاتی اداروں سے معاہدے کرنے سے متعلق با اختیار ہوجائے۔ کچی آبادیوں کو ریگیولرائز کرنے کا اختیار بھی بلدیہ عظمیٰ کے پاس ہو ۔اس سلسلے میں بلدیہ عظمیٰ نے 539 غیر قانونی طور پر آباد ہونے والی کچی آبادیوں کواپ گریڈ کرنے کے نام پر ریگیولرائز کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ جبکہ زمینوں پر قبضوں کے کئی معاملات کو قانونی تحفظ فراہم کرنا تھا۔ متحدہ نے عالمی بنک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے قرض لے کر درجنوں منصوبے شروع کرنے تھے جن کا کنٹرول میئر کے پاس ہوتا۔ اس پلان کے تحت کے الیکٹرک سے توانانی کی پیداوار کراچی کو بجلی کی فراہمی سے متعلق تمام معاہدے اپنی مرضی سے کرنے کا اخیتار حاصل ہو جاتا۔واضح رہے کہ ماسٹر پلان کی تیاری کے حوالے سے ایک نجی فرم ای سی آئی ایل سے 8 اگست 2005 کو پرویز مشرف کے بلدیاتی امور سے متعلق مشیر وسیم اختر نے معاہدہ کیا۔ اس معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ اعلیٰ معیار کی غیر ملکی فرمز کی معاونت سے سے ایک جدید ماسٹر پلان تیار کیا جائے گا۔ اس منصوبے کے ماسٹر پلان کا اعلان 14 اگست 2007 کو کیا جانا تھا اور اس پلان میں شامل تمام مجوزہ منصوبے 15 برسوں میں مکمل کئے جانے تھے۔ اسٹرٹیجک ڈیولپمنٹ پلان کی منظوری سے قبل ہی اس کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست داخل کر دی گئی۔ 10 اکتوبر 2007 کو سپریم کورٹ نے اس کو جاری رکھنے کی منظوری دے دی۔جب یہ معاملہ پی پی کے سابقہ دور میں حکومت کے سامنے آیا تو اس وقت کے صوبائی وزیر ترقیات و منصوبہ بندی سعید غنی نے سے ناقابل عمل قرار دے دیا تھا۔ تاہم جب حال ہی میں دوسری بار اس معاملے کو اٹھایا گیا تو صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی اور سیکریٹری بلدیات سید خالد حیدر شاہ نے اسے ناقابل عمل قرار دے دیا تھا۔ صوبائی وزیر نے سمری پر لکھا تھا کہ 2005 کے منصوبے پر 2018 میں عمل کرنے سے بہتر ہے کہ نئے ماسٹر پلان پر کام کیا جائے ۔ حال ہی میں بلدیہ عظمیٰ کی طرف سے اس معاملے کو واٹر کمیشن کے روبرو اٹھایا گیا۔ جنہوں نے حکومت سندھ کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی ہدایات جاری کردیں۔ اس سلسلے میں محکمہ بلدیات حکومت سندھ کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ پلان موجودہ وقت اور حالات سے مطابقت نہیں کھتا اس کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے ۔اس واٹر کمیشن کی ہدایات کے پیش نظرہنگامی بنیادوں پر نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے تاہم اس سے متعلق آئندہ ایک اور سمری وزیر اعلیٰ کو ارسا کی جائے گی ،جس میں محکمہ انصاف کو بھی شامل کیا جائے گا ،جس کے تحت اس پلان کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا اور اختیارات سے متعلق فارمولا طے کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی نے ’’امت‘‘ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میں پہلے ہی اس منصوبے کو مسترد کر چکا ہوں ،اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے ،تاہم عدالت کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اس کو نوٹیفائی کیا ہے۔ انہوں نے کہا جس کے ڈی اے نے یہ پلان تیار کیا تھا ،اب وہ کے ڈی اے ختم ہو چکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نئے ماسٹر پلان پر کام شروع ہو چکا ہے ،موجودہ نوٹیفکیشن کے معاملے کا مزید جائزہ لیا جا رہا ہے۔