اسٹالن کی نشانی سات عمارتیں ماسکو کا غرور ہیں

0

سجاد عباسی
ماسکو آئے ہوئے ہمیں تین دن ہوگئے تھے مگر آفیشل ملاقاتوں اور پیشہ وارانہ مصروفیات کے باعث ہمیں ’’ماسکو‘‘ سے تفصیلی ملاقات کا موقع نہیں مل سکا تھا اور اس تشنگی کو ہم میں سے ہر ایک محسوس کررہا تھا۔ چنانچہ طے پایا کہ کل کا دن صرف ماسکو کیلئے مختص ہوگا کیونکہ اس سے اگلے روز ہمیں ’’محلات کے شہر‘‘ سینٹ پیٹرز برگ روانہ ہونا تھا۔ ماسکو، دریائے موسکا (یا ماسکو) کے کنارے آباد شہر ہے جس کی تاریخ تقریباً 900 برس پرانی ہے، جب اسے 1147ء میں دریافت کیا گیا تھا مگر تب اس کی حیثیت ایک قصبے کی سی تھی۔ آج کم و بیش کراچی جتنی آبادی کا حامل ماسکو شہر روس کا دارالحکومت ہے۔ یہ حیثیت اسے1917 ء کے انقلاب کے چند ماہ بعد حاصل ہوئی جب ولاد یمیر لینن نے مارچ 2018ء میں سینٹ پیٹرز برگ سے دارالحکومت ماسکو منتقل کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس اقدام کے پیچھے بیرونی جارحیت کا خوف کار فرما تھا۔ فوربز میگزین کے سروے میں ماسکو کو دنیا کا نواں مہنگا ترین شہر قرار دیا گیا ہے مگر اس کا سحرایسا ہے کہ ہر طرف سے سیاح امڈ ے چلے آ رہے ہیں۔ جیسا کہ ابتداء میں لکھا تھا کہ یہاں پانچ بین الاقوامی ہوائی اڈے اور بارہ ریلوے اسٹیشن ہیں جہاں دنیا کے ہر حصے سے آنے والوں کا میلہ لگا رہتا ہے۔ جب ہمیں بتایا گیا کہ ماسکو کی آبادی تقریباً کراچی جتنی ہے اور یہ ویسا ہی پھیلا ہوا شہر ہے البتہ یہاں سمندر کی جگہ دریا نے لے رکھی ہے تو اس مماثلت نے ہمیں غیر ارادی طور پر کراچی اور ماسکو کے موازنے پر مجبور کردیا۔ مگر مایوسی کے سوا کچھ نہ ملا کہ یہاں نہ تو گٹر ابل رہے ہیں، نہ بے ہنگم ٹریفک کا شور ہے اورنہ کسی دیوار پر پان کی پچکاری کا ڈیزائن، تو پھر یہ کیسا شہر ہوا! صفائی کا عالم یہ کہ کسی سڑک یا گلی میں ایک تنکا تک دکھائی نہیں دیتا۔ شاہراہیں ایسی شفاف جیسے ہمارے ہاں کے بڑ ے گھروں کے صحن چمکتے ہیں۔ مگر پھر ہمیں کراچی کی عظمت رفتہ یاد آ گئی جب پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں یہاں کی سڑکیں دھلا کرتی تھیں۔ وکٹوریہ بگھی، ٹرام اور ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھیں۔ کئی غیر ملکی سفارت کار اور دیگر اہم شخصیات چھٹیاں گزارنے فیملیز کے ساتھ یہاں آتی تھیں، تاریخ کے اس فلیش بیک نے ہمیں کچھ دیر کیلئے آسودہ و سرشار کردیا۔
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے باد نسیم جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے ماسکو کی خوبصورتی کا ایک اہم جزو یہاں کی شادابی ہے۔ شہر کا 40 سے50 فیصد حصہ سبزے کی چادر سے ڈھکا ہوا ہے۔ مستعد سرکاری عملہ سڑکوں کے کنارے اور گرین بیلٹس پر لگے پودوں، درختوں اور گھاس کی حفاظت اور نشوونما کیلئے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتا۔ عام شہری بھی ان کی حفاظت اپنی ذاتی ملکیت سمجھ کر کرتے ہیں۔ میونسپلٹی کے عملے کی فرض شناسی کا عالم یہ ہے کہ رات تین بجے برفباری شروع ہوتی ہے تو اگلے پانچ منٹ میں خصوصی مشینری پہنچ جاتی ہے جو سڑک سے برف ہٹاتی رہتی ہے تا کہ شہری زندگی میں خلل نہ آنے پائے۔ ہم نے پوچھا کہ جب سرما کے6 ماہ، موسم کی یخ بستگی عروج پر ہوتی ہے۔ اور بسا اوقات درجہ حرارت منفی چالیس تک پہنچ جاتا ہے، تب تو کاروبار حیات بھی منجمد ہوجاتے ہوں گے؟ مگر میز بان کی مسکراہٹ نے ہمیں اپنے سوال کے احمقانہ ہونے کا یقین دلا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گھروں، دفاتر اور بازاروں میں سینٹرل ہیٹنگ سسٹم نصب ہوتے ہیں اور اس کا خرچ سرکار نے اپنے ذمے لیا ہوا ہے۔ سو کڑاکے کے جاڑے میں بھی گھر کے اندر سردی کا احساس ہوتا ہے نہ دفتر میں۔ گاڑیوں میں ویسے ہی ہیٹر نصب ہیں۔
آج ہم صبح 10 بجے لابی میں جمع ہوگئے تھے اور ہماری منزل ریڈ اسکوائر تھا جسے ماسکوکے ماتھے کا جھومر کہا جاتا ہے۔ لیکن اب کی بار ہم کوسٹر کے بجائے میٹرو ٹرین کے ذریعے جا رہے تھے تا کہ شہر کے درو دیوار کو دیکھنے کے ساتھ محسوس بھی کر سکیں۔ میٹرو اسٹیشن کوئی دو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا اور تین دن کے اندر نہ صرف ہمیں واک کی خاصی پریکٹس ہو چکی تھی، بلکہ ہم اسے انجوائے بھی کرنے لگے تھے۔ اس میں ہمارے عزم سے زیادہ ماسکو شہر کی خوبصورتی اور دلکشی کا دخل تھا جس کا ہر منظر آنکھوں کے راستے دل میں اتر جاتا ہے۔ کشادہ سڑکیں، خوبصورت کاریں اور ان کے درمیان ہر سمت بھاگتے دوڑتے لوگ۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں ہر شخص جلدی میں ہے۔ حسن ایسا کہ کہیں دریا بہہ رہے ہیں تو کہیں شفاف چشمے ابل رہے ہیں۔ دراز قد بے داغ جلد اور پر کشش سفید رنگت۔ ہر سُو حسنِ بے پروا کی بہتات۔ کہاجاتا ہے کہ روسیوں کے حسن میں کچھ کردار تاتاری خون کی آمیزش کا بھی ہے۔ ہوٹل سے باہر آ کر صبح کی تازہ اور سرد ہوا کا سامنا ہوا تو چند سیکنڈ میں سرد لہر پورے جسم میں دوڑ گئی۔ وفد کے دیگر لوگ گرم کوٹ اور سویٹرز پہنے ہوئے تھے جبکہ ہم نے جینز اور شرٹ پر اکتفا کیا تھا۔ مگر ہم نے سردی کو رفتار کی مار دینے کی ٹھان لی اور واقعی چند قدم تیز چلتے ہی ٹھنڈ کا احساس جاتا رہا۔ ہم دو دو، تین تین کے گروپس میں چلے جا رہے تھے۔ ہماری قیادت قونصلر بلال وحید اور ان کے نائب اسرار محمود کر رہے تھے جو وفد کے ہر رکن کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیتے، راستہ دکھاتے اور اہم عمارتوں اور دفاتر کا تعارف بھی کراتے جاتے۔ بائیں جانب ایک پروقار اور بلندو بالا عمارت کا تعارف کراتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ ماسکو کی سیون سسٹرز عمارتوں میں سے ایک ہے۔ لینن کے بعد برسر اقتدار آنے والے روسی صدر جوزف اسٹالن کے دور میں ماسکو میں گر جا نما 7 عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ یہ تمام عمارتیں ایک جیسی ساخت اور بلندی کے ساتھ فن تعمیر کا شاہکار ہیں اور باہر سے آنے والے سیاحوں کی دلچسپی کا خصوصی مرکزی بنتی ہیں۔ ان عمارتوں کو ’’اسٹالنز ہائی رائزز‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ جنرل اسٹالن کی خصوصی ہدایت تھی کہ ان عمارتوں کو ٹاور کی شکل میں اوپر سے مخروطی گھیرائو دیا جائے تاکہ ان کو امریکی ہائی رائز عمارتوں (SKY CRAPERS) سے الگ اور منفرد شناخت دی جا سکے۔ واضح رہے کہ نیویارک اور شکاگو سمیت بعض امریکی شہروں میں انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران کئی کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں۔ ماسکو کی سیون سسٹرز بلڈنگز کی خوبصورتی اور فن تعمیر کے کمالات اپنی جگہ، ایک خاص بات یہ ہے کہ ان ساتوں عمارتوں کے نیچے بنکرز بنائے گئے ہیں جو جنگ کے دوران اچانک حملے کی صورت میں عمارت کے مکینوں کو پناہ دے سکتے ہیں۔ ان میں سے ایک عمارت میں روسی وزارت خارجہ کے دفاتر واقع ہیں جہاں کہا جاتا ہے کہ ہر قسم کے ’’کیل کانٹے‘‘ سے لیس کمانڈ بنکر میں موجود رہتی ہے۔ یوں جنگی امور کے ماہر اسٹالن نے سیون سسٹرز کے نام سے ایک منفرد اور انوکھا فن تعمیر روشناس کرایا۔ ان میں سے بعض عمارتیں رہائشی اور بعض کمرشل مقاصد کیلئے استعمال کی جا رہی ہیں۔ جن میں ماسکو کی اسٹیٹ یونیورسٹی، ریڈسن ہوٹل اور دریائے ماسکو کے کنارے واقع ہوٹل یو کرینیا شامل ہیں۔ماسکو اپنی خوبصورتی اور جدت کے لحاظ سے جنوبی یورپ کے کسی بھی بڑے شہر کا مقابلہ کر رہا ہے۔ یہاں ارب پتی افراد کی تعداد اب سینکڑوں میں بیان کی جاتی ہے۔ یورپی کلچر نے یہاں اس تیز رفتاری سے ترقی کی ہے کہ عملاً اشتراکی کلچر کو نگل لیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ماسکو میں پہلا میکڈونلڈ کھلا تو اس کے سامنے لگنے والی قطار کوئی پانچ کلو میٹر طویل تھی اور اب یہ عالم ہے کہ انٹرنیشنل فاسٹ فوڈ چینز نے ہر طرف اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ مگر دوسری طرف روس صنعتی، تعلیمی اور سائنسی میدان میں بھی بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے ۔ شہر میں2 ہزار سے زائد ہائی اسکول ، سو سے زائد اعلیٰ معیار کے کالج اور اعلیٰ تعلیم کے ڈھائی سو کے قریب ادارے ہیں جن میں سے60 صرف جامعات ہیں جہاں پاکستان اور بھارت سمیت کئی ملکوں کے طلبا و طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جامعہ ماسکو کی لائبریری میں 90 لاکھ کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔ مئورخین کے مطابق انیسویں صدی میں ماسکو کے عروج کا آغاز اس وقت ہوا، جب یہاں پہلی یونیورسٹی قائم ہوئی، میوزیم تعمیر کیا گیا اور پہلا اخبار شائع ہوا۔ پیٹر دی گریٹ کے بعد اس کی بیٹی الزبتھ اور پھر کیتھرائن حکمران بنی جس کا دور اصلاحات اور روشن خیالی کا تھا۔ انیسویں صدی کے آغاز میں جب نپولین نے ماسکو پر فوج کشی کی تو اس کی افواج کو ماسکو سے کوئی سو میل دور روکنے کی کوشش کی گئی۔ اگرچہ اس جنگ میں کام آنے والے روسی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی مگر پسپا ہوتی روسی افواج ماسکو کو برباد کرگئیں۔ نتیجتاً نپولین، کریملن کو فتح نہ کرسکا اور اس کی فوجیں انتقاماً آدھے سے زائد شہر کو آگ لگا کر لوٹ گئیں۔ یہ انوکھا واقعہ ہے جس میں حملہ آور اور دفاعی افواج دونوں ہی نے شہر کو تاراج کیا۔ اس کے بعد تباہ حال ماسکو کی تعمیر نو کا آغاز کیا گیا اور چند برس کے اندر شہر کو خوبصورت عمارتوں، نئی شاہراہوں، دیدہ زیب گرجا گھروں سے مزین کردیا گیا۔ انیسویں صدی کے وسط میں ماسکو میں صنعت کاری کا آغاز ہوا اور وسط ایشیا کی اہم ترین پیداوار کپاس نے اسے ٹیکسٹائل انڈسٹری کا کنگ بنا دیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More