مولانا اسمٰعیل درویش کو ریکی کے بعد قتل کیا گیا

0

امت رپورٹ
صوبائی دارالحکومت پشاور میں ایک بار پھر فرقہ واریت نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ اہلسنت و الجماعت کے ممتاز رہنما مولانا اسمعیل درویش کی ٹارگٹ کلنگ پولیس کیلئے چیلنج بن گئی ہے۔ جبکہ دہشت گردی کے واقعے کے بعد شہر میں کشیدگی پائی جاتی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا اسمعیل درویش کو ریکی کے بعد قتل کیا گیا۔ جس جگہ انہیں نشانہ بنایا گیا، وہاں سیکورٹی کیمرے نصب نہیں تھے۔ مولانا اسماعیل ماضی میں سپاہ صحابہ پاکستان کے ممتاز رہنمائوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کیخلاف کئی مقدمات قائم کئے گئے۔ وہ متعدد مرتبہ جیل گئے اور کئی سال قید رہے۔ تاہم بعد ازاں انہوں نے سپاہ صحابہ سے ناطہ توڑ دیا تھا۔ مولانا درویش نے 2008ء ،2013ء اور 2018ء کے انتخابات میں صوبائی نشستوں پر الیکشن بھی لڑا، لیکن ناکام رہے۔ وہ انتہائی شعلہ بیان مقرر ہونے کی وجہ سے لوگوں میں بہت پسند کئے جاتے تھے۔ ماضی میں کئی اہل تشیع رہنمائوں کے قتل کے الزامات بھی مولانا اسماعیل درویش پر لگے، تاہم عدالتوں میں ان کیخلاف کچھ ثابت نہ ہو سکا اور وہ بری ہوتے رہے۔ مولانا اسماعیل درویش کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد پشاور میں فرقہ واریت کے مسائل پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ مولانا درویش کے قتل کے بعد اہلسنت والجماعت کے کارکنوں کی بڑی تعداد لیڈی ریڈنگ اسپتال پہنچ گئی تھی اور بعدازاں بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق پولیس ماضی کی طرح روایتی انداز میں مفروضوں پر تفتیش کررہی ہے۔ جائے وقوعہ دورہ چوک میں رات کو بہت رش ہوتا ہے۔ اس کے باوجود قاتل کے فرار ہو جانے اور سیکورٹی کیمرے نہ ہونے کی وجہ سے پولیس کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں تحریک انصاف کی حکومت نے سیف سٹی کے نعرے بلند کئے، لیکن پشاور کے گنجان آباد علاقوں میں کیمرے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پشاور کینٹ میں کیمرے کینٹ انتظامیہ نے لگائے ہیں، جبکہ قصہ خوانی بازار اور دیگر علاقوں میں تاجروں کے قتل کے بعد کیمرے لگائے گئے۔ تاہم پشاور کے گرد و نواح میں کیمرے نہیں ہیں۔ مولانا اسماعیل درویش کو ایسی جگہ نشانہ بنایا گیا جہاں سیکورٹی کیمرے نہیں ہیں۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا اسماعیل درویش کو ماضی میں بھی دھمکیاں ملتی رہی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں سیکورٹی گارڈ فراہم کیا گیا تھا۔ انہیں باقاعدہ ریکی کے بعد نشانہ بنایا گیا۔ پولیس نے فرقہ واریت سمیت دیگر آپس کے اختلافات کے حوالے سے تفتیش شروع کر دی ہے۔ تاہم مولانا اسماعیل کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا اسماعیل کے تنظیمی اختلافات نہیں تھے اور انہوں نے ہمیشہ تنظیمی اختلافات ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ نہ صرف فرقہ واریت کے خلاف رہے، بلکہ انہوں نے پشاور میں امن کے قیام میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان کے قتل سے شہر میں کشیدگی پھیل گئی ہے۔ پولیس کے مطابق پشاور کے علاقہ پھندو روڈ پر چیئرمین چوک کے قریب رات تقریباً دس بجے مولانا اسماعیل درویش قاتلانہ حملے میں محافظ سمیت جاں بحق ہوگئے۔ ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل سواروں نے ان کی گاڑی کو گولیوں کا نشانہ بنایا۔ اسماعیل درویش اپنی گاڑی میں محافظ کے ہمراہ بیری باغ میں واقع اپنے دواخانے سے دورہ روڈ کے قریب اخون آبا د میں واقع اپنے گھر جار ہے تھے۔ وہ خود اپنی سوزوکی خیبر کار نمبر 2686 چلارہے تھے۔ نامعلوم موٹرسائیکل سواروں کی فائرنگ سے گاڑی بجلی پول سے ٹکرا گئی تھی۔ گولیاں لگنے سے اسماعیل درویش اور ان کا محافظ کانسٹیبل ایوب شدید زخمی ہوگئے، جنہیں طبی امداد کیلئے لیڈی ریڈنگ اسپتال پہنچایا گیا، تاہم وہ دونوں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راستے میں ہی دم توڑ گئے۔ جبکہ حملہ آور موٹر سائیکل سوار بآسانی فرار ہوگئے۔ لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ترجمان ذوالفقار بابا خیل کے مطابق مولانا اسمعیل درویش کی گردن پر صرف ایک گولی لگی، جس سے ان کی موت واقعہ ہوئی۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ پشاور میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی کے 78 پر ضمنی الیکشن شیڈول کے مطابق ہوگا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز نامعلوم افراد کے ہاتھوں مولانا اسماعیل کی شہادت کے بعد پی کے 78 پر ضمنی الیکشن ایک مرتبہ پھر ملتوی ہونے کی افواہیں شروع ہو گئی تھیں۔ کیونکہ مولانا درویش اس حلقے سے الیکشن میں حصہ لے رہے تھے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پی کے 78 پر ضمنی الیکشن 14 اکتوبر کو ہی ہو گا۔ کیونکہ مولانا اسماعیل درویش نے 25 ستمبر کو الیکشن سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے تھے۔ واضح رہے کہ عام انتخابات سے قبل اس حلقے میں خودکش حملے میں اے این پی کے امیدوار ہارون بلور جاں بحق ہوگئے تھے، جس کے بعد الیکشن ملتوی کردیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا اسماعیل درویش اور ان کے گارڈ کے قاتلوں کی گرفتاری پولیس کیلئے چیلنج بن گئی ہے۔ اگر پولیس قاتلوں کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی تو پشاور کی پرامن فضا خراب ہو سکتی ہے۔ اس سے قبل بھی پشاور میں اہل تشیع اور سنی رہنما قتل ہوتے رہے ہیں جس سے شہر میں تنائو پیدا ہوا۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More