روسی میزائل سسٹم سے پاکستانی فضائی حملے ٹالنے کا بھارتی خواب

0

عارف انجم
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان جمعہ کو ہونے والے تین بڑے دفاعی سودوں میں سب سے اہم ایس 400 میزائل دفاعی نظام ہے۔ اس معاہدے کے ساتھ ہی بھارتی حکومت اور تجزیہ نگاروں نے پاکستانی فضائیہ اور بیلسٹک میزائل، بھارت کے مقابلے میں غیرموثر ہونے کے خواب دیکھنا شروع کردیئے ہیں۔ بھارت نے روس کے ساتھ ایس 400 میزائل ڈیفنس سسٹم کی پانچ رجمنٹس خریدنے کا معاہدہ کیا ہے اور ان میں سے تین رجمنٹس پاکستانی سرحد کے ساتھ لگانے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ ایس 400 کے بعد بھارتی فضائی دفاع کا نظام تین پرتوں (layers) پر مشتمل ہوگا جس میں سے سب موثر پرت روسی ساختہ میزائل دفاعی نظام کی ہوگی۔ دوسری جانب پاکستان نے بھارت کو ملنے والے روسی ساختہ میزائل دفاعی نظام کا توڑ نکالنے کیلئے پہلے ہی کام شروع کردیا ہے اور پاکستانی ایٹمی میزائلوں کی رینج سے باہر ہونے کا بھارتی خواب ادھورا رہ جانے کے قوی امکانات روشن ہیں۔
بھارت اور روس کے درمیان میزائل دفاعی نظام کے معاہدے پر اتفاق رائے 2016ء میں ہی ہوگیا تھا۔ تاہم جولائی 2017ء میں امریکی کانگریس نے ’’امریکہ کے مخالفین کا مقابلہ پابندیوں سے کرنے کا ایکٹ‘‘ CAATSA منظور کرلیا۔ جس کے تحت روس پر امریکہ نے پابندیاں لگا دیں۔ امریکہ کی جانب سے بھارت کو خبردار کیا گیا تھا کہ وہ روس سے ایس 400 میزائل دفاعی نظام خریدنے سے باز رہے۔ تاہم رواں برس امریکی کانگریس نے ایک اور قانون منظور کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر روس کے کسی ملک کے دفاعی معاہدے سے امریکی سلامتی متاثر نہیں ہوتی تو مذکورہ ملک کو پابندیوں سے استثنیٰ دیا جا سکتا ہے۔ ستمبر میں امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کے اپنے بھارتی ہم منصبوں کے ساتھ ’’ٹو پلس ٹو مذاکرات‘‘ میں بھی اس پر بات ہوئی۔ بھارتی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ امریکہ، بھارت کو استثنیٰ دے دے گا۔ اس کے باوجود احتیاط سے کام لیتے ہوئے بھارت نے صحافیوں کے سامنے معاہدے پر دستخط نہیں کیے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی تقریب منعقد کی۔ البتہ روسی حکومت نے دستخط ہونے کی تصدیق کی ہے۔ مودی اور پیوٹن نے جمعہ کو تین بڑے دفاعی سودوں کے معاہدے پر دستخط کیے۔ ایک معاہدے کے تحت بھارت روس سے 4 جنگی بحری جہاز 2 ارب ڈالر میں خریدے گا۔ دوسرا معاہدہ 200 عدد چھوٹے Ka-226 ہیلی کاپٹروں کا ہے۔ تاہم سب سے بڑا اور اہم معاہدہ ایس 400 میزائل دفاعی نظام کا ہے جس کے تحت روس 5 ارب 43 کروڑ ڈالر کے بدلے بھارت کو 5 مکمل ایس 400 سسٹم فراہم کرے گا۔ ان سسٹمز سے بھارت پانچ میزائل دفاعی رجمنٹس قائم کر سکے گا۔
فارن افیئرز میگزین، بی بی سی، کرسچن سائنس مانیٹر اور کئی دیگر جرائد و نشریاتی اداروں کے لیے کام کرنے والے صحافی اور خارجہ امور کے ماہر فرانز اسٹیفن کے مطابق روسی ساختہ ایس 400 میزائل کی ایک بیٹری (دستے) میں لانچرز سے لیس چار ٹرالر نما گاڑیاں (ٹرانسپورٹر ایرکٹل لانچر یا ٹی ای ایل) ہوتی ہیں۔ ہر لانچر پر چار لانچنگ ٹیوبز ہوتی ہیں یعنی ہر لانچر سے چار میزائل چلائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر بیٹری (دستے) میں ایک گاڑی نگرانی کے ریڈار، ایک گاڑی فائر کنٹرول ریڈار اور ایک گاڑی کمانڈ پوسٹ کی ہوتی ہے۔ اس نظام میں دو قسم کے ریڈار ہوتے ہیں۔ پہلا ریڈار عمومی نگرانی کرتا ہے اور حملہ آور طیاروں یا میزائلوں کی نشاندہی کرتا ہے جسے ٹارگٹ اور ایکوزیشن ریڈار کہتے ہیں۔ جبکہ دوسرا ریڈار ایس 400 کے میزائل کو ہدف تک پہنچاتا ہے، اسے اینگیجمنٹ ریڈار یا فائر کنٹرول کہا جاتا ہے۔ فائر کنٹرول ریڈار کی تعداد بڑھا کر لانچرز کی تعداد 12 تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ ایس 400 کی ایک بٹالین دو بیٹریز (دستوں) پر مشتمل ہوتی ہے۔ جبکہ ایک رجمنٹ میں دو بٹالینز ہوتی ہیں۔ اس طرح ایک رجمنٹ میں مجموعی طور پر 16 لانچر گاڑیاں ہوتی ہیں جو کل 64 میزائل داغ سکتی ہیں۔ تاہم ایک رجمنٹ ایک وقت میں 36 اہداف کو نشانہ بنا سکتی ہے کیونکہ بیشتر صورتوں میں ایک ہدف کیلئے ایک سے زائد میزائل داغنا ہوتے ہیں۔ رینج کے اعتبار سے 4 اقسام کے میزائل اس نظام کا حصہ ہیں جو 40 سے 400 کلومیٹر تک مار کرتے ہیں۔ گاڑیوں پر مشتمل یہ نظام باآسانی نقل و حرکت کرسکتا ہے اور کسی بھی جگہ اسے نصب کرنے کا وقت پانچ سے 10 منٹ ہے۔ ایک میزائل بیٹری کی قیمت 25 کروڑ ڈالر کے لگ بھگ ہے۔
ایس 400 سسٹم کا ریڈار 600 کلومیٹر دور فضا میں بلند ہونے والے کسی بھی طیارے، میزائل یا ڈرون کا پتہ چلا سکتا ہے۔ جبکہ اس کے میزائل 40 کلومیٹر سے لے کر 400 کلومیٹرتک کسی بھی چیز کو 17 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار نشانہ بنا سکتے ہیں۔ روسی ساختہ یہ دفاعی نظام انتہائی کم اونچائی سے لے کر 30 کلومیٹر کی اونچائی تک طیاروں یا میزائلوں کو ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا بھارتی ماہرین دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس کے نتیجے میں پاکستان کے تمام بیلسٹک اور کروز میزائلوں کو مار گرانا ممکن ہوگا۔ دفاعی امور کے ماہر دو بھارتی صحافیوں پرنب دھل سمانتا اور راکیشن کرشنن نے دعویٰ کیا ہے کہ ایس 400 کی تنصیب کے بعد پاکستان کی فضائیہ، بھارت کے مقابلے میں غیر موثر ہو جائے گی۔ پرنب نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بھارتی حکومت روس سے خریدی گئی 5 رجمنٹس سے میں سے 3 پاکستانی سرحد کے قریب تعینات کرے گی، جبکہ دو دیگر چین کے ساتھ تعینات کی جائیں گی۔ بھارتی صحافیوں کا دعویٰ ہے کہ ایس 400 کے ذریعے جنگ کی صورت میں بھارت، پاکستان پر نو فلائی زون مسلط کرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔
بعض بھارتی حلقے اسے پاکستان کے نصر میزائل کا جواب قرار رہے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان نے 60 کلومیٹر تک مار کرنے والا ایٹمی میزائل نصر 2011ء میں تیار کیا تھا اور باور کیا جاتا ہے کہ 2013ء سے یہ پاک فوج کے حوالے کیا جا چکا ہے۔ نصر میزائل اور پاکستان کے دیگر چھوٹے ایٹمی ہتھیار، ممکنہ روایتی جنگ کیلئے تیار کیے گئے ہیں جن سے بھارت کو پریشانی لاحق ہے اور اسی بنا پر امریکہ پاکستان کے ٹیکٹیکل (چھوٹے) ایٹمی ہتھیاروں کی مخالفت کر رہا ہے۔ پاکستان کا کروز میزائل بابر بھی بھارت کے لیے درد سر ہے۔ راکیش کرشنن نے لکھا کہ صرف 3 میزائل سسٹمز تعینات کرنے کے بعد بھارت، پاکستان سے لاحق تمام تر فضائی خطرات کو غیرموثر کرنے میں کامیاب ہو جائے گا خواہ یہ طیارے ہوں یا میزائل۔
بھارت نے کم فاصلے تک مار کرنے والا میزائل دفاعی نظام آکاش پہلے ہی 2009ء سے تعینات کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور میزائل دفاعی نظام دو جہتی ہے۔ جس کا ایک حصہ پرتھوی ایئر ڈیفنس (پی اے ڈی) اور دوسرا ایڈوانس ایئر ڈیفنس (اے اے ڈی) کہلاتا ہے۔ اول الذکر بلندی پر میزائلوں کو نشانہ بنانے اور موخر الذکر کم اونچائی پر میزائلوں کو ہدف بنانے کیلئے بنایا گیا ہے۔ آکاش اور یہ دوسرا دفاعی نظام بھی روس کی مدد سے بنایا گیا ہے۔ تاہم ان نیم دیسی سسٹمز پر بھارت کو زیادہ اعتبار نہیں۔ لہٰذا روس سے جدید ترین نظام خریدا گیا جو پہلے سے موجود دونوں میزائل ڈیفنس سسٹمز کے ساتھ مل کر تین پرتیں یا layers قائم کرے گا۔ بھارتی فوج ایس 400 کے ٹارگٹ ریڈارز کو بھارتی فضائیہ کے انٹگریٹڈ ایئر کمانڈ اینڈ کنٹرول سے منسلک کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔
ایس 400 درحقیقت اس وقت روس سے باہر دنیا کا موثر ترین نظام ہے جس نے شام میں اپنی افادیت ثابت کی ہے۔ شام میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف روس نے اسے اپنی اتحادی شامی حکومت کی مدد کیلئے استعمال کیا۔ اس کی تنصیب کے بعد امریکہ اور اسرائیل کی فضائیہ پیچھے ہٹ گئی تھی۔ چین نے بھی یہ روسی ساختہ میزائل دفاعی نظام خریدنے کیلئے 2014ء میں معاہدہ کیا تھا اور رواں برس پہلی رجمنٹ اس کے حوالے کی جا چکی ہے۔ چین نے 3 ارب ڈالر میں روس سے 2 ایس 400 رجمنٹس خریدنے کا معاہدہ کیا ہے۔ ایس 400 سے بہتر میزائل دفاعی نظام ایس 500 ہے جو روس نے صرف اپنے لیے مختص کر رکھا ہے اور ماسکو کے دفاع کیلئے تعینات ہے۔ ایس 400 کا موازانہ عموماً امریکہ کے پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام سے کیا جاتا ہے لیکن پیٹریاٹ کی رینج صرف 150 کلومیٹر ہے۔
جمعہ کو بعض بھارتی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا کہ روس کی جانب سے نئی دہلی کو پورا میزائل دفاعی نظام 2020ء میں مل جائے گا۔ لیکن آزاد ذرائع کے مطابق تمام بیٹریز کی فراہمی میں ساڑھے 4 برس لگیں گے۔ اس کے باوجود معاہدہ کے ساتھ ہی بھارت میں پاکستان کی فضائیہ حدود جلد کنٹرول کرنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں۔ پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے روسی خبر رساں ادارے اسپوتنک کے ساتھ گفتگو میں بھارت کو میزائل دفاعی نظام کی فروخت پر تشویش کا اظہار کیا۔
دفاعی ذرائع کے مطابق پاکستان نے بھارت کے میزائل دفاعی نظام کا توڑ کرنے کیلئے کوششوں کا آغاز کئی برس پہلے ہی کر دیا تھا۔ بھارت کو مستقبل میں ملنے والے ایس 400 سسٹم کا پاکستانی جواب، ملٹی پل انڈی پینڈینٹ ری اینٹری وہیکل (ایم آئی آر وی) ٹیکنالوجی پر مبنی ابابیل میزائل ہے۔ یہ میزائل 2200 کلومیٹر تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم اس کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ کئی وار ہیڈ لے جا سکتا ہے۔ ایم آئی آر وی ٹیکنالوجی پر مبنی ایک میزائل پر پانچ کے لگ بھگ وار ہیڈز نصب ہوتے ہیں اور میزائل داغے جانے کے بعد یہ وار ہیڈز الگ الگ اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔ 24 جنوری 2017ء کو پاک فوج نے اس میزائل کے کامیاب تجربے کا اعلان کیا تھا۔ اس موقع پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’’خطے میں بیلسٹک میزائل دفاعی نظام کے بڑھتے ہوئے ماحول میں ابابیل میزائل سسٹم پاکستان کے بیلسٹک میزائلوں کی بقا یقینی بنائے گا اور ڈیٹرنس مضبوط ہوگا۔‘‘
ایم آئی آر وی میزائل عام طور پر فضا میں انتہائی اونچائی تک داغے جاتے ہیں جس کے بعد یہ واپس آتے ہوئے مرحلہ وار اپنے وار ہیڈز الگ کرتے ہیں۔ ہر وار ہیڈ ایک مختلف ہدف پر گرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایم آئی آر وی کو راستے میں روکنا میزائل دفاعی نظام کیلئے مشکل ہوتا ہے۔ میزائل دفاعی نظام کو شکست دینے کا ایک اور طریقہ بیک وقت درجنوں میزائل اور ڈرونز لانچ کرنا ہے۔ اس کے نتیجے میں میزائل دفاعی نظام ان تمام کو روکنے کیلئے حرکت میں آئے گا اور اپنے میزائل داغ دے گا۔ اسی دوران اصل اہداف کو پاکستان اپنے بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ ایم آئی آر وی میزائل بھی اسی وجہ سے موثر ثابت ہوتے ہیں۔ تاہم ایس 400 نے پاکستان کی دفاعی مشکلات بڑھا ضرور دی ہیں۔
1980ء کے عشرے میں بھارت نے پاکستان کے خلاف کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن اپنایا تھا۔ جس کے تحت جنگ کی صورت میں بھارت اپنے روایتی ہتھیاروں کے بل بوتے پر تیزی سے پاکستان میں گھستا اور اسے دو حصوں میں بانٹ دیتا۔ پاکستان نے نصر میزائل اور چھوٹے (ٹیکٹیکل) ایٹمی ہتھیار بنا کر بھارت کے اس نظریے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایس 400 کی بھارتی خریداری کے بعد پاکستان کو ایک بار پھر زیادہ بھرپور جواب دینا ہوگا۔ شاید اس کے لیے ابابیل میزائلوں سے آگے جانا پڑے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More