نجم الحسن عارف/ امت رپورٹ
مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو گرفتار کرنے کا فیصلہ تین روز پہلے ہی کرلیا گیا تھا، جب چئیرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال پنجاب کے صوبائی دارالحکومت پہنچے اور لاہور نیب کا اجلاس منعقد ہوا۔ نیب ذرائع کے مطابق دو اکتوبر کے اس اجلاس میں چیئرمین نیب نے چھپن کمپنیوں کے سلسلے میں جاری تفتیش پر اطیمنان کا اظہار کیا تھا۔ اور یہ کہ اسی بریفنگ کے نتیجے میں گزشتہ روز سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو صاف پانی اسکینڈل کے سلسلے میں انکوائری کے لئے بلانے کے بعد آشیانہ اسکینڈل میں گرفتار کیا گیا۔ جبکہ نون لیگی ذرائع کے مطابق پارٹی کیلئے یہ گرفتاری انتہائی غیر متوقع رہی۔ کوئی بھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کو نیب اس طرح ایک کیس میں تفتیش کے لئے بلا کر دوسرے میں گرفتار کر لیا جائے گا۔ شہباز شریف بھی چونکہ اپنے خلاف الزامات کی انکوائریوں میں جان نہیں سمجھتے تھے، اس لئے انہوں نے اپنی قبل از گرفتاری کا بندوبست بھی نہیں کیا تھا۔ نیز مسلم لیگ ’’ن‘‘ میں کوئی بھی نہیں سمجھ رہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں نرم پالیسی کے بیانیے کے حامی شہباز شریف کو اچانک گرفتار کر لیا جائے گا۔ دوسری جانب شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد نواز شریف نے پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کا سلسلہ شروع کر دیا ہے، جبکہ تمام مرکزی قائدین کو لاہور پہنچنے کی ہدایت کر دی گئی تھی۔ ذرائع کے مطابق مقدمات میں الجھے نواز شریف کا چودہ اکتوبر سے قبل سیاسی سرگرمیوں میں متحرک ہونے اور خاموشی توڑنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔ نواز لیگ کے مرکزی رہنما راجہ ظفرالحق نے شہباز شریف کی گرفتاری کو سیاسی انتقام اور ضمنی الیکشن میں اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق میاں شہباز شریف کی گرفتاری کا سبب سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کے نیب تفتیش کے دوران کیے گئے انکشافات بنے۔ ذرائع نے بتایا کہ میاں شہباز شریف کو اس کیس میں لمبا لپیٹنے کے لئے فواد حسن فواد کو وعدہ معاف گواہ بننا پڑے گا۔ بصورت دیگر کیس کا آگے بڑھنا مشکل ہوگا۔ نیب کے ایک ذمہ دار افسر نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات چیت میں دعویٰ کیا ہے کہ سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد نے عدالت کے سامنے بھی یہ بیان دیا کہ انہوں نے میاں شہباز شریف کے سامنے بیٹھ کر بھی کہا تھا کہ ’’میاں صاحب جو آپ کہتے رہے، وہ ہم کرتے رہے‘‘۔ سابق وزیر اعلیٰ کی گرفتاری کے تقریباً چار گھنٹے بعد سابق وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی خواجہ سلمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ دونوں بھائیوں کو بھی آشیانہ ہائوسنگ پروجیکٹ اسکینڈل میں تفیش کے لئے بلایا جا چکا ہے۔ اب سولہ اکتوبر کو دوبارہ خواجہ سعد رفیق کو بلایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کا امکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ نیب کے سابق پراسیکیوٹر اور سابق سیکریٹری سپریم بار بیرسٹر اسد منظور بٹ کے بقول سب سے اہم فرد جو اب تک نیب کے ہاتھ نہیں آسکا، وہ پیراگون ہائوسنگ پروجیکٹ کے اہم ذمہ دار اور خواجہ سعد رفیق کے مبینہ ساتھی ندیم ضیا ہیں۔ چند روز قبل نیب کی طرف سے حراست میں لیے گئے قیصر امین بٹ بھی اس سلسلے میں خواجہ سعد رفیق کے شراکت دار سمجھے جاتے ہیں۔ بیرسٹر اسد منظور بٹ کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’میاں شہباز شریف کے خلاف آشیانہ کیس کا کامیابی سے آگے بڑھنا بہت مشکل ہوگا۔ کیونکہ سرکاری زمین جو نجی کمپنی کو دی گئی، اس سے حقیقی معنوں میں سرکاری خزانے کا نقصان نہیں ہوا ہے۔ اس لیے کیس ثابت کرنا کافی مشکل ہوگا۔ اگر فواد حسن فواد وعدہ معاف گواہ کے طور پر سامنے نہیں آتے تو شہباز شریف کا بچ نکلنا اور آسان ہوگا‘‘۔ دوسری جانب نیب کا دعویٰ ہے کہ آشیانہ کیس میں حکومت کا چودہ ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ نیز پیپرا رولز کی خلاف ورزی کی گئی اور اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا۔ واضح رہے کہ آشیانہ اسکینڈل میں اب تک سابق ڈائریکٹر جنرل لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی احد چیمہ، سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد، قیصر امین بٹ، بلال قدوائی، شاہد شفیق اور اسرار سعید کو گرفتار کیا جا سکا تھا۔ البتہ اسرار سعید ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں۔ اسرار سعید نے نیب تفتیش کے دوران اپنے تمام فیصلوں کا ذمہ دار احد چیمہ کو قرار دیا۔ جبکہ فواد حسن فواد جنہیں ماہ جولائی میں نیب نے گرفتار کر کے حوالات میں بند کر دیا تھا، نے اپنے تمام تر فیصلوں کی وجہ سابق وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے احکامات کو قرار دیا۔ بظاہر میاں شہباز شریف کی گرفتاری کا باعث بھی فواد حسن فواد کا یہ بیان ہی بنا ہے۔ انہیں اب تک نیب میں بلائے جانے کے بعد عام طور پر ان تین الزامات کا سامانا کرنا پڑا تھا کہ آشیانہ ہائوسنگ پروجیکٹ میں ایک کمپنی کی جگہ اپنی پسند کی کمپنی بسم اللہ انجینئرنگ کو ٹھیکہ دے کر انہوں نے قومی خزانے کو گیارہ کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا۔ پنجاب لینڈ کمپنی کو تعمیراتی ٹھیکہ دینے کے بجائے ایل ڈی اے کو دیا۔ اسی طرح ایم اسی انجینئرنگ کو کنسلٹنسی دے کر کروڑوں کا نقصان کیا۔ ذرائع کے مطابق آشیانہ کیس کے علاوہ شہباز شریف کیخلاف صاف پانی اسکینڈل بھی ہے، جس میں ان کے داماد علی عمران یوسف بھی نیب کو مطلوب ہیں۔ تاہم وہ بیرون ملک جا چکے ہیں۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ میاں شہباز شریف نے انہیں صاف کہہ دیا تھا کہ وہ موجودہ حالات میں کچھ مدد نہیں کر سکیں گے۔ اس پس منظر میں علی عمران یوسف ای سی ایل میں نام آنے سے پہلے ہی بیرون ملک پرواز کر گئے۔ عدالت میں یہ مسئلہ ابھی زیر سماعت ہے۔ البتہ عدالت علی عمران یوسف کی جائیدادوں کو ضبط کرنے کا کہہ چکی ہے۔ نیب نے علی عمران کو اشتہاری قرار دیئے جانے کی عدالت سے درخواست کر رکھی ہے۔ اسی صاف پانی کمپنی اسکینڈل میں پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور میاں شہباز شریف کے صاحبزادے حمزہ شہباز کو بھی نیب لاہور میں بلایا جا چکا ہے۔ خود میاں شہباز شریف اس سے قبل بھی نیب میں چھ جولائی اور بیس اگست کو دو پیشیاں بھگت چکے تھے۔ اب یہ ان کی نیب میں تیسری پیشی تھی۔ ذرائع کے مطابق چھپن کمپنیوں کا اسکینڈل آشیانہ ہائوسنگ سکینڈل سے کہیں زیادہ بڑا کیس ہے، کہ اس میں اس سے زیادہ اختیارات کا غلط استعمال کیا گیا۔
ادھر شہباز شریف کی گرفتاری کے بعد نون لیگ کی قیادت شدید غم و غصے کا شکار ہے اور ساتھ ہی اس مخمصے میں بھی ہے کہ وہ اس گرفتاری کا ردعمل کس طرح ظاہر کرے۔ رانا ثناء اللہ سے لے کر راجہ ظفر الحق تک سب اسے انتقامی کارروائی اور ضمنی الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔ نواز شریف اور مریم نواز کی گزشتہ ماہ ضمانت پر رہائی کے موقع پر پی ٹی آئی کا یہی موقف تھا کہ ان کی رہائی سے نون لیگ کو ضمنی الیکشن میں فائدہ ہوگا۔ شہباز شریف کی گرفتاری پر پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے فوری طور پر تبصرہ کرنے سے معذرت کر لی، تاہم خورشید شاہ نے گرفتاری کے اس انداز کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ضمنی انتخابات پر اثر انداز ہونے کا تاثر مل رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن پارلیمنٹ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب بہت ضروری ہوگیا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر پارٹی اپنی قوت اور طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے۔ شہباز شریف اسمبلی کے اندر اور باہر افہام و تفہیم کی جس سیاسی حکمت عملی پر عمل پیرا تھے اور پی ٹی آئی حکومت کو نہ گرانے کی جو باتیں کر رہے تھے، اسے غالباً کمزوری سمجھا گیا ہے۔ اس لئے اب نواز شریف کو آگے بڑھ کر پارٹی کی عملاً قیادت خود کرنی چاہئے۔ اور اگر شہباز شریف چند ہفتوں بعد خدانخواستہ کسی کیس میں نا اہل قرار دے دیئے جاتے ہیں تو مریم نواز کو قائم مقام صدر بنا کر کارکنوں کو حوصلہ اور مستقبل کی امید دی جا سکے گی۔ لیگی ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف نے نواز لیگ کے تمام مرکزی رہنماؤں کو مشاورت کے لیے طلب کر لیا ہے۔ جبکہ حمزہ شہباز اور سلمان شہباز نے قانونی ٹیم سے مشاورت شروع کر دی ہے۔ اس لیگل ٹیم کی سربراہی امجد پرویز ایڈووکیٹ کر رہے ہیں اور یہ ٹیم آج نیب عدالت میں پیشی کے موقع پر موجود ہوگی۔
’’امت‘‘ نے اس سلسلے میں جب نواز لیگ کے مرکزی رہنما اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجہ محمد ظفر الحق سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ پارٹی میں مشاورت کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ قیادت باہمی مشاورت سے آئندہ کی حکمت عملی طے کرے گی۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’شہباز شریف کی گرفتاری سراسر انتقامی کارروائی اور ضمنی الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش ہے۔ اس گرفتاری سے سیاسی حالات خراب ہوں گے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام آئے گا اور جمہوریت کمزور ہوگی‘‘۔ راجہ محمد ظفرالحق نے کہا کہ ’’ہمارے ذہن میں قطعاً نہیں تھا کہ حکومت سیاسی مخالفت میں اس حد تک چلی جائے گی۔ حکومت اپنی نااہلی چھپانے کے لئے حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔ لیکن مسلم لیگ ’’ن‘‘ کو دبانے کی کوشش میں وہ ناکام ہوگی‘‘۔
٭٭٭٭٭
Next Post