صحافی کی گم شدگی سے ترک سعودی تعلقات مزید کشیدہ

0

ایس اے اعظمی
خود ساختہ جلاوطن سعودی صحافی جمال خشوگی کی استنبول کے سعودی قونصل خانہ سے پر اسرار گمشدگی نے سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات میں مزید تلخی گھول دی ہے۔ اگرچہ ترک تفتیشی حکام کے حوالے سے واشنگٹن پوسٹ اور روئٹرز کا دعویٰ ہے کہ جمال خشوگی کو ایک 15 رکنی اسپیشل سعودی ٹیم نے قونصل خانہ میں قتل کرکے لاش کے ٹکڑ ے کر دیئے ہیں۔ یہ پندرہ رکنی ٹیم منگل کے روز صبح کے اوقات میں دو پروازوںکی مدد سے استنبول پہنچی اور اسی روز واپس چلی گئی تھی۔ قطر ٹریبون کی رپورٹ کے مطابق ترک تفتیش کار 15 رکنی سعودی ٹیم کی استنبول آمد کے حوالے سے تحقیقات کررہی ہے۔ ترک جریدے ینی شفق نے لکھا ہے کہ تفتیشی حکام نے کو شک ہے کہ جمال خشوگی کو قونصل خانے کے اندر قتل کرکے لاش کو ٹکڑوں کی شکل میں عمارت سے باہر بھیجا جاچکا ہے۔ دوسری جانب سعودی قونصل جنرل محمد العتیبی کا کہنا ہے کہ وہ ترک تفتیشی ٹیم کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ قونصل خانے کے اندر آکر تفتیش کرسکتے ہیں۔ سعودی قونصل جنرل کا کہنا ہے کہ ان کے قونصل خانے کی میں سی سی ٹی وی کیمرے موجود تو ہیں لیکن وہ ریکارڈنگ نہیں کرتے۔ جبکہ ترک تفتیشی ٹیموں نے سوال اٹھایا ہے کہ جب یہ کیمرے ریکارڈنگ نہیں کرسکتے تو ان کو نصب کیوں کیا گیا ہے؟ ترک میڈیا نے بتایا ہے کہ سعودی اور ترک تفتیش ٹیموں میں بنیادی اختلافی نکتہ جمال خشوگی کی قونصل خانہ سے روانگی کا ہے، جس کے بارے میں سعودی حکام بضد ہیں کہ خشوگی واپس قونصل خانہ کے باہر چلے گئے تھے۔ لیکن ترک تفتیشی ٹیم کا اصرار ہے کہ ایسا کوئی ثبوت سعودی سفارت کار نہیں دے سکے کہ جمال خشوگی قونصل خانے سے بحفاظت نکل گئے تھے۔ ادھر عالمی سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ جمال خشوگی کی گمشدگی ایک عالمی سازش ہوسکتی ہے جس کا مقصد سعودی، ترک سفارتی تعلقات کو مزید ابتر کرنا ہے۔ جبکہ ترک حکام کا کہنا ہے کہ جمال خشوگی کی گمشدگی ان کیلئے ایک چیلنج ہے جس کو وہ اپنی بہترین صلاحیتوں سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ برطانوی تجزیہ نگار مارک لووین نے کہا ہے کہ اگر سعودی قونصل خانے میں جمال خشوگی کے قتل کی تصدیق ہوجاتی ہے تو ترک سعودی تعلقات مزید خراب ہوجائیں گے۔ کیونکہ ترکی نے سعودی عرب کے مخالف ممالک قطر اور ایران کے ساتھ بہتر سفارتی و تجارتی تعلقات قائم رکھے ہوئے ہیں۔ یمنی صحافی اور نوبیل انعام یافتہ خاتون توکل کرمان نے بھی جمال خشوگی کی گمشدگی کیخلاف مظاہرے میں حصہ لیا ہے اور مطالبہ کیا کہ خشوگی کو جلد از جلد بازیاب کرایا جائے۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنے کالم نگار خشوگی کے کالم کی جگہ خالی چھوڑ کر جریدہ شائع کیا ہے اور اس خالی جگہ کو ’’گم شدہ آواز‘‘ قرار دیا ہے۔ ترک تفتیشی حکام کو جمال خشوگی کی ترک نژاد منگیتر ہاتیز نے بتایا ہے کہ ان کی خشوگی کے ساتھ رواں مہینے میں شادی طے تھی۔ لیکن ان کو اس شادی کیلئے متعلقہ سعودی حکام کو یہ بتانا تھا کہ ان کی پہلی زوجہ سے علیحدگی ہوچکی ہے اور وہ ترک منگیتر ہاتیز کے ساتھ دوسری شادی کر رہے ہیں۔ اس کیلئے ان کو قونصل خانے سے شادی کا اجازت نامہ اور پہلی زوجہ سے طلاق کی توثیق کا کاغذ درکار تھا جس کی وصولی کیلئے خشوگی وہاں گئے تھے۔ ترک تفتیشی حکام نے بتایا ہے کہ جمال خشوگی کی منگیتر نے تحریری بیان میں کہا ہے کہ وہ اور خشوگی گزشتہ منگل کو سعودی قونصل خانے گئے تھے۔ گاڑی پارک کرنے کے بعد خشوگی نے ہاتیز کو بتایا کہ وہ قواعد کے تحت اپنا موبائل فون اس عمارت میں نہیں لے جاسکتے۔ اس لئے و ہ اپنا لیپ ٹاپ اور موبائل فون اپنی منگیتر کے پاس کار پارکنگ میں چھوڑ کر قونصل خانے کی عمارت میں داخل ہوئے تھے۔ ہاتیز کا کہنا ہے کہ خشوگی نے ان کو ترک آق پارٹی کے رہنما اور صدارتی مشیر یاسین اوکتے کا فون نمبر دیا تھا کہ وہ اگر قونصل خانے سے واپس نہیں آتے تو یاسین اوکتے سے رابطہ کیا جائے۔ چنانچہ کئی گھنٹے گزر جانے کے باوجود جب خشوگی کی واپسی نہیں ہوئی تو اس نے یاسین اوکتے کو فون کرکے ساری صورتحال سے آگاہ کردیا۔ واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ سعودی قونصل خانے میں خشوگی کی گمشدگی یا ممکنہ قتل والے روز ہی سعودی عرب سے 15 رکنی ایک گروپ دو خصوصی پروازوں کے ذریعے استنبول پہنچا تھا اور شام کو واپس سعودیہ چلا گیا تھا۔ اس حوالے سے ترک حکام کو شبہ ہے کہ اس ٹیم کا جمال خشوگی کی گم شدگی سے گہرا تعلق ہے۔ جمال خشوگی کے بارے میں عالمی میڈیا نے بتایا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں سعودی حکومت کے انتہائی قریب تھے اور سعودی انٹیلی جنس کے مشیر بھی تھے۔ لیکن انہوں حالیہ سعودی بادشاہ اور بالخصوص ولی عہد محمد بن سلمان کے اقدامات کیخلاف آواز بلند کی تھی۔ بعد ازاں ممکنہ انتقامی کارروائیوں کے خوف سے خشوگی پہلے امریکہ اور بعد ازاں ترکی شفٹ ہوگئے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More