نجم الحسن عارف
بادشاہی مسجد سے چوری کی جانے والی نعلین مبارک کا 16 برس بعد بھی سراغ نہیں مل سکا ہے۔ اب تک ایڈمنسٹریٹر اوقاف اور دو خادمین کے سوا کسی کے خلاف کارروائی نہ ہونے کے باعث بادشاہی مسجد کے اعلیٰ ترین ذمہ دار سمجھتے ہیں کہ اب اس معاملے سے کچھ نہیں نکلے گا۔ انتظامیہ نے نعلین مبارک ملنے کی امید بھی چھوڑ دی ہے۔ کیونکہ جتنی بھی انکوائریز ہوئی ہیں، ان سے کوئی نتائج برآمد نہیں ہو سکے ہیں۔ ان ذمہ داران نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ بادشاہی مسجد کے خطیب مولانا عبدالخبیر آزاد نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار سے اس بارے میں قطعاً کوئی بات کی تھی نہ انہیں اس جانب متوجہ کیا تھا۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے 31 جولائی 2002ء کو جب بادشاہی مسجد لاہور سے نعلین مبارک چوری یا غائب ہوئے تھے، اس کے فوری بعد اس وقت کے گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول نے تحقیقات کرائی تھیں۔ ان تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان تبرکات کو چوری کئے جانے کے تقریباً دو ہفتے کے اندر ملک سے باہر اسمگل کر دیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بارے میں الگ الگ اطلاعات دی جاتی رہیں۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ نعلین مبارک بھارت منتقل کئے گئے۔ تاہم حتمی طور پر کوئی چیز سامنے نہیں آ سکی۔ واضح رہے کہ انکوائری کیلئے عام طور پر پولیس حکام کی خدمات ہی حاصل کی جاتی رہی ہیں۔
31 جولائی 2002ء کو بادشاہی مسجد سے مغرب کی نماز کے بعد کسی بدبخت نے نعلین مبارک چوری کئے تھے۔ ابتدا میں توجہ ان حکام اور عناصر کی جانب بھی مبذول رہی جو کچھ ہی روز قبل برونائی دارالسلام میں تبرکات مقدسہ کی نمائش کے بعد واپس آئے تھے۔ ان میں اس وقت کے سیکریٹری اوقاف، موجودہ ڈی جی اوقاف، خطیب شاہی مسجد مولانا علی اصغر کے علاوہ تبرکات سنبھالنے کے شعبے کے محکمہ اوقاف کے خادمین اور رینجرز و پولیس کے اہلکار بھی شامل تھے۔ ذرائع کے مطابق مذکورہ بالا حکام برونائی دارالسلام میں تبرکات کی نمائش کیلئے بطور خاص پاکستان سے تبرکات سمیت گئے تھے۔ ان تبرکات میں نعلین مبارک بھی شامل تھے۔ انہی دنوں یہ شبہ بھی ظاہر کیا گیا کہ بعض لوگوں نے ملی بھگت سے دونوں نعلین میں سے ایک غائب کر دی اور اس کی جگہ جعلی نعلین تیار کر کے رکھ دی۔ ذرائع کے مطابق نعلین کا ایک حصہ برونائی میں نمائش کے دوران غائب ہونے کے بعد اگلے چند دنوں میں بادشاہی مسجد میں یہ واردات ہوئی تھی۔ اس واردات کے فوری بعد میڈیا میں شور اٹھا تو حکومت نے انکوائری کمیٹی قائم کر دی۔
ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ جب بادشاہی مسجد میں رکھے گئے تبرکات میں شامل نعلین مبارک چرائے گئے، اس وقت میوزیم میں سی سی ٹی وی کیمرے نہیں لگائے گئے تھے۔ اس لئے بدبخت وارداتیوں نے آسانی سے اپنا کام دکھا دیا۔ تاہم اس عظیم نقصان کے بعد حکومت نے کیمرے نصب کر دیئے۔ بادشاہی مسجد سے حاصل معلومات کے مطابق شروع میں قائم کی گئی ایک کمیٹی کے سربراہ ڈی آئی جی ذوالفقار تھے، جبکہ اس میں مشہور زمانہ پولیس افسر عمر ورک بھی شامل ہوئے۔ لیکن کمیٹی کسی ٹھوس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکی۔ صرف اس وقت کے ایڈمنسٹریٹر اوقاف غلام قادر اور بادشاہی مسجد میں رکھے گئے تبرکات کی نگرانی پر مامور خادمین کو معطل کر دیا گیا۔ بعد میں دو خادمین کی ملازمت ختم کر دی گئی، لیکن کسی بڑے افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جا سکی۔
بادشاہی مسجد کے ذرائع کے مطابق اس معاملے پر ایک بار نہیں، بلکہ بار بار انکوائریاں ہو چکی ہیں۔ اب تو بس اللہ سے ہی امید کی جا سکتی ہے۔ ایس اے جعفری نامی شہری نے اس معاملے کو کافی برسوں سے میڈیا اور عدالتوں میں اٹھا رکھا ہے۔ ایس اے جعفری نے ہی سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر رکھی ہے، جس پر چیف جسٹس سپریم کورٹ نے سیکرٹری اوقاف ذوالفقار گھمن اور ڈی جی اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کو طلب کیا ہے۔ خیال رہے کہ اس طرح کی ایک درخواست پر لاہور ہائی کورٹ نے بھی پچھلے سال نومبر میں احکامات دیئے تھے کہ انتہائی عقیدت اور حساسیت کے حامل اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے کمیٹی قائم کی جائے۔ اب سپریم کورٹ نے محکمہ اوقاف کو اس سلسلے میں طلب کیا ہے کہ وہ اپنی کارکردگی کے بارے میں بتائیں کہ نعلین مبارک چرانے والوں کا پتہ چلایا جا سکا ہے یا نہیں۔
دوسری جانب بادشاہی مسجد کے اعلیٰ ترین ذرائع کا دعویٰ ہے کہ صرف ایک شخص ہے جو اس معاملے میں درخواستیں دیتا رہتا ہے، اس کے علاوہ کوئی اور نہیں۔ تاہم ایک سوال کے جواب میں ان ذرائع نے بتایا کہ بادشاہی مسجد کے خطیب اور امام کا نواردرات رکھنے کے حوالے سے کوئی کردار نہیں ہوتا۔ اس لئے ان عہدوں پر فائز کسی شخصیت کو کبھی شامل تفتیش کیا گیا ہے اور نہ ہی عدالتوں میں اس مسئلے کو بار بار لانے والے فرد سے کبھی کچھ پوچھا گیا ہے۔ اسی طرح محکمہ آثار قدیمہ کے کسی فرد کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ باوجود اس کے پچھلی حکومتیں بھی اس مسئلے کے زیر التوا ہونے سے آگاہ تھیں۔