ملعونہ آسیہ کی سزائے موت کیخلاف اپیل پر فیصلہ محفوظ

0

اسلام آباد(اخترصدیقی ۔فیض احمد)سپریم کورٹ نےآسیہ ملعونہ سزائےموت کےفیصلے کےخلاف اپیل کی سماعت مکمل کرتےہوئےفیصلہ محفوظ کرلیاہے جوکسی بھی وقت سنایاجاسکتاہے ،عدالت نےنجی ٹی وی چینلوں پرآسیہ کیس پرہرطرح کاتجزیہ اورتبصروں پرپابندی عائدکردی اورسماعت سےمتعلق بھی پروگرام کرنےسےروک دیاہے۔ ملزمہ کےوکیل سیف الملوک نےساراملبہ گواہوں اورامام مسجد(درخواست گزار)پرڈالتےہوئےکہاکہ ان کی گواہوں میں سچائی نہیں ہے جبکہ مخالف وکیل غلام مصطفیٰ ایدووکیٹ نےدلائل میں موقف اختیارکیاہےکہ اس طرح کےمقدمات میں بین الاقوامی شہرت ملتی ہےاس لیےملزمہ آسیہ ملعونہ نےگستاخی کوبھری پنچایت میں تسلیم کیاتھااورمعافی مانگی تھی۔آسیہ ملزمہ نے قابل اعتراض جملےاداکیے۔جس پراس کےخلاف مقدمہ درج کیاگیا،ہائی کورٹ سمیت دیگرعدالتوں نے اسے سزائے موت سنائی ہے۔ اپیل 11دن تاخیر سے دائرکی گئی، وقوعہ کاکہیں انکارنہیں کیاگیا جبکہ ملزمہ اورگواہان کی موجودگی سےبھی انکارنہیں کیاگیا۔انہوں نےکہاکہ ملزمہ نےاپنےجرم کااعتراف کیاہے چیف جسٹس ثاقب نثار نےریمارکس دیئےکہ ایساکیاہوا کہ جھگڑا بھی آپ کےساتھ ہوا،سخت الفاظ بھی آپ کےخلاف استعمال ہوئےاورپھر مقدمہ بھی آپ کے خلاف ہی بنایاگیا،آسیہ کےوکیل سے کہاکہ آپ صرف وہی کچھ پڑھ رہے ہیں کہ جس میں ملزمہ کےحق میں باتیں جاتی ہیں وہ بھی پڑھیں جواس کے خلاف جاتی ہیں۔پیرکوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ دیگرارکان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی شامل تھے ۔وکیل صفائی سیف الملوک نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 14 جون 2009 کا واقعہ ہے اور 19 جون 2009 کورپورٹ درج ہوئی، گاؤں کٹاں والا کے امام مسجد نے ایف آئی آر درج کرائی جس کے مطابق آسیہ نے توہین رسالت کا اقرار کیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا ریکارڈ پر ایسی چیزیں ہیں’ جس پر وکیل صفائی نے کہا مدعی مقدمہ خود واقعے کا گواہ بھی نہیں ہے اوراس کےواقعہ نوٹس میں لیےجانےپربھی بیانات میں تضادہےجبکہ مدعی کا موقف ہےکہ ایف آئی آرکی درخواست کافیصلہ عوامی مجمع میں ہوا۔ وکیل نے کہا ڈی سی او اور ڈی پی او سے ایف آئی آر درج کرنےکی اجازت نہیں لی گئی، امام مسجد نےکہا گاؤں والوں نےآسیہ کو مارنے کی کوشش نہیں کی۔ جسٹس آصف سعیدکھوسہ نےوکیل صفائی کومخاطب کرتے ہوئےکہا ‘ہمیں آپ کی گفتگو سے جو بات پتہ چلی کہ امام مسجد براہ راست گواہ نہیں اوراس کےسامنے توہین آمیز الفاظ استعمال نہیں کیے گئے۔چیف جسٹس نےکہا امام مسجد کے بیان کےمطابق 5 مرلےکےمکان میں پنچایت ہوئی اور کہا گیا کہ پنچایت میں ہزار لوگ جمع تھے۔چیف جسٹس نے استفسارکیا ایف آئی آرمیں درج کرایا گیا آسیہ عیسائی مبلغہ ہے، کیا واقعی وہ مبلغہ ہے ؟ جس پر وکیل صفائی نے کہا جی نہیں آسیہ کبھی بھی مبلغہ نہیں رہی۔وکیل صفائی نے کہا کہ وجہ عنادآسیہ اورساتھی خواتین میں جھگڑے کاہوناہے،آسیہ بی بی نےبائبل پرحلف دیاکہ نبی پاک اورقرآن پاک کااحترام کرتی ہے،تفتیش کرنی والےایس پی جائے وقوعہ پرگئےہی نہیں، انہوں نےدفتربلواکرمتعددلوگوں کےبیان ریکارڈکیے،وکیل سیف الملوک نےکہاکہ انکوائری رپورٹ بھی ایس پی نےخودنہیں لکھی،آسیہ بی بی کےآباواجدادتقسیم کے بعدسے رہ رہے ہیں،اس سے قبل آسیہ بی بی کے خاندان پرایسا الزام نہیں لگایاگیا،وکیل صفائی نےکہا کہ الزام لگانے والی خواتین کاحلف پرجھوٹ پکڑاگیاہے،ساتھی خواتین نےآسیہ بی بی کےہاتھ سےپانی پینےسےانکارکیاتھا،آسیہ بی بی کبھی عیسائی مبلغ نہیں رہی،دیہاڑی دارمزدورہے،ایک ان پڑھ عورت بغیرمطالعہ کیسےاتنےسنگین ریمارکس دےسکتی ہے؟وکیل کا کہناتھا کہ حدکے مقدمات میں گواہ کاایک بھی جھوٹ پکڑاجائے تواسکی گواہی ساکت ہو جاتی ہے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ واقعہ اس وقت پیش آیاجب دوسری خواتین نےآسیہ کومذہب کاطعنہ دیا،سورة انعام میں کہاگیاہے کسی کےجھوٹے خداکوبرا نہ کہوتاکہ وہ تمہارےسچے خداکوبرانہ کہے،قرآن کہتاہےگواہی مت چھپاؤچاہےتمہارے خلاف ہی کیوں نہ جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ فوجداری مقدمات میں ایف آئی آراندراج میں تاخیرکافائدہ ملزم کوہی ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ ایسا کیا ہوا کہ جھگڑا بھی آپ کے ساتھ ہوا،سخت الفاظ بھی آپ کےخلاف استعمال ہوئے اور پھر مقدمہ بھی آپ کےخلاف ہی بنایا گیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آسیہ بی بی کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے درخواست گزار قاری اسلام کسی سے استعمال ہو رہے ہوں، وہ فرنٹ مین ہوں اور پیچھے کوئی اور ہو۔وکیل نے کہا کہ ممکن ہے کہ ایسا ہی ہوا ہو کیونکہ گواہ جھوٹ بول رہے ہیں۔وکیل غلام مصطفیٰ کاکہناتھا کہ اس طرح کےکیسز کوبین الاقوامی شہرت ملتی ہے۔اس پرچیف جسٹس نےکہا کہ توہین مذہب گھناوٴنا جرم ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جرم ثابت ہوایانہیں۔انہوں نےشکایت کنندہ کےوکیل کو شہادتوں سےثبوت پیش کرنےکی ہدایت کرتےہوئےکہاکہ اسلام کوبدنام کرنےکےلیےبہت کچھ کیاجارہا ہے جبکہ ہمیں بھڑکانے کےلیے یہ سب کیا جاتا ہے۔جسٹس ثاقب نثار نے سوال کیا کہ کیا توہین مذہب حدکے قانون میں آتا ہے؟آسیہ کےوکیل نے جواب دیا جی آتا ہے، ایف آئی آرمیں ان پڑھ خاتون کو مبلغہ کہا گیا، اس سے بدنیتی معلوم ہوتی ہے۔قاری اسلام کےوکیل کا کہناتھاکہ اپیل 11دن تاخیرسےدائر کی گئی، وقوعہ کا کہیں انکارنہیں کیا گیا جبکہ ملزمہ اور گواہان کی موجودگی سےبھی انکارنہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ ملزمہ نے اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ امام مسجد براہ راست گواہ نہیں تھا، بعد میں وہ خدائی فوجدار بن گیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کے بیانات میں بہت تضاد ہے۔عدالت نے آسیہ ملعونہ کی ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، چیف جسٹس ثاقب نثارنےریمارکس دیئےکہ کوئی چینل سماعت پرتبصرےنہیں چلائےگاعدالت نے سماعت سےمتعلق پروگرام کرنےسےبھی منع کردیا۔واضح رہےکہ آسیہ ملعونہ کونومبر2010 میں توہین مذہب کے الزام میں سزائےموت سنائی گئی تھی جبکہ ان کےوکلاءاپنی موکلہ کی بےگناہی پراصرارکیا۔مجرمہ پرالزام تھا اس نےجون 2009 میں ایک خاتون سےجھگڑےکےدوران حضرت محمدصلی اللہ وعلیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تھی۔ واقعےکےمطابق، آسیہ نے کھیتوں میں کام کے دوران ایک گلاس میں پانی پیا جس پر ایک خاتون نے اعتراض کیا کہ غیرمسلم ہونےکی وجہ سےآسیہ پانی کےبرتن کو ہاتھ نہیں لگا سکتی،جس پردونوں میں جھگڑا ہوگیا۔ واقعے کےکچھ دنوں بعدخاتون نےایک مقامی عالم سےرابطہ کرتے ہوئےان کےسامنے آسیہ کےخلاف توہین مذہب کےالزامات پیش کیے۔آسیہ کونومبر2010 میں جرم ثابت ہونےپرعدالت نےسزائےموت سنائی تھی۔ملزمہ کی سزائےموت کےخلاف مختلف عدالتوں میں متعدد اپیلیں مستردہوچکی ہیں جس کےعلاوہ 2016 میں اکتوبر کےمہینےمیں سپریم کورٹ نےبھی ان کی سزا برقراررکھی تھی۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More