عارف انجم
توہین رسالت پر ماتحت عدالت اور ہائیکورٹ سے سزائے موت پانے والی آسیہ مسیح کی اپیل پر سپریم کورٹ میں فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد عیسائی تنظیموں نے پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے کہ محفوظ فیصلہ آسیہ مسیح کے حق میں ہے، اور جلد یا بدیر اسے رہا کر دیا جائے گا۔ سابق وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کے بھائی پال بھٹی نے اٹلی میں دیئے گئے اپنے کم ازکم دو انٹرویو میں کہا ہے کہ ممتاز قادری کی پھانسی اور نواز شریف کی نااہلیت کے مشکل فیصلے کرنے والے جج صاحبان سے انہیں پوری امید ہے۔ ایک پاکستانی پاسٹر کا دعویٰ ہے کہ سزائے موت عمر قید میں تبدیل کرنے کا آپشن بھی موجود ہے۔ پنجاب کے سابق وزیر اقلیتی امور طاہر خلیل سندھو کے حوالے سے ایک عیسائی تنظیم نے دعویٰ کیا کہ عدالت نے فوری طور پر فیصلہ اس لیے نہیں سنایا کہ آسیہ کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے۔ یہ دعوے اس کے باوجود کیے جا رہے ہیں کہ پیر 8 اکتوبر کو فیصلہ محفوظ کرتے وقت سپریم کورٹ نے اس حوالے سے تبصرے کرنے سے منع کیا تھا۔ اس قسم کے دعوے بعض ذرائع کے مطابق نہ صرف توہین عدالت پر مبنی ہیں، بلکہ ان کے نتیجے میں پاکستان کے مذہبی حلقوں میں سخت بے چینی پھیل رہی ہے اور تحریک لبیک پاکستان نے کل (جمعہ کو) ملک بھر میں ریلیوں اور پنجاب اسمبلی تک مارچ کا اعلان کیا ہے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار، جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے پیر کو آسیہ بی بی کی اپیل کی سماعت کی تھی اور فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ہدایات جاری کی تھیں کہ اس کیس پر تبصروں سے گریز کیا جائے۔ لیکن مغرب بالخصوص اٹلی میں قائم عیسائی تنظیموں اور ان سے وابستہ افراد نے ان عدالتی احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے آسیہ کی ممکنہ رہائی کا پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ سب سے پہلے برٹش ایشین کرسچین ایسوسی ایشن نامی تنظیم کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ ’’آسیہ بی بی کا فیصلہ ہوچکا ہے، لیکن اعلان نہیں کیا گیا۔ ہمیں یقین ہے کہ اسے رہا کر دیا جائے گا۔ تاہم اسے بیرون ملک پناہ لینے کی وجہ سے اپنے بچوں سے دور ہونا پڑے گا۔ 9 برس قید بھگتنے والی خاتون کے ساتھ یہ ناانصافی ہوگی‘‘۔ عدالتی سماعت کے کچھ ہی دیر بعد کی گئی اس ٹویٹ نے پاکستان کے مذہبی حلقوں میں بے چینی پھیلائی اور یہ بڑے پیمانے پر شیئر ہوئی۔ ایک اور ٹویٹ ایڈ ٹو دی چرچ ان نیڈ نامی تنظیم جو اپنے اطالوی مخفف اے سی ایس سے بھی جانی جاتی ہے کی طرف سے بھی کی گئی۔ 8 اکتوبر کو ہی اطالوی زبان میں کی گئی اس ٹویٹ میں پنجاب کے سابق وزیر اقلیتی امور طاہر خلیل سندھو کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ ’’ہمیں یقین ہے عدالت نے آسیہ کی بریت کا فیصلہ سنانے سے پہلے اسے محفوظ مقام پر منتقل کرنے کیلئے کچھ وقت لیا ہے‘‘۔ اس ٹویٹ کے ساتھ آسیہ بی بی کی بیٹی ایشام کی تصویر بھی ہے، جس میں اس کے آنسو بہہ رہے ہیں۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے طاہر خلیل سندھو اے سی ایس کے اہم رکن ہیں۔
عدالتی احکامات کو نظر انداز کرتے ہوئے سب سے بڑے دعوے سابق وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کے اٹلی میں مقیم بھائی ڈاکٹر پال بھٹی نے کیے ہیں۔ انہوں نے ماضی میں آسیہ کی سزائے موت کا فیصلہ سنانے والے ججوں پر دبائو کا الزام عائد کرتے ہوئے کھلی توہین عدالت بھی کی۔ 2011ء میں قتل کیے گئے شہباز بھٹی کے بھائی ڈاکٹر پال بھٹی طویل عرصے سے اٹلی کے شمالی شہر ٹریویسو میں مقیم اور معروف سرجن ہیں۔ انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی کے قتل کے بعد شہباز بھٹی کا مشن آگے بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔ ڈاکٹر پال بھٹی نے ویٹی کن نیوز نامی جریدے کو انٹرویو میں کہا کہ ’’مجھے امید اور یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آسیہ بی بی کے حق میں آئے گا‘‘۔ جریدے کے مطابق پال بھٹی کا کہنا تھا کہ انہیں یہ تو معلوم نہیں کہ آسیہ کو فوری رہا کیا جائے گا، تاہم فیصلہ آسیہ کی جلد رہائی میں اہم قدم ہوگا۔ پال بھٹی نے کہا کہ ’’میرے یقین کی بنیاد اس بات پر ہے کہ آسیہ ’’بے گناہ‘‘ ہے۔ پاکستان میں مسلمانوں سمیت کافی لوگ سمجھتے ہیں کہ اس پر جھوٹا الزام لگایا گیا اور چیف جسٹس آف پاکستان حال ہی میں بہت بولڈ اقدامات کر چکے ہیں۔ وہ بہت بہادر انسان ہیں۔ کیونکہ یہ مجرم ہونے یا نہ ہونے کا سوال نہیں۔ میرے خیال میں ماضی میں ججز انتہا پسندوں کے دبائو کی وجہ سے حوصلہ نہیں کر سکے۔ یہ بینچ تو نہیں، لیکن پچھلا بینچ سلمان تاثیر کے قاتل قادری کو سزائے موت سنا چکا ہے‘‘۔ پال بھٹی نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ حال ہی میں کرپشن الزامات پر نواز شریف کو سزا دینے جیسے ’’مضبوط فیصلے‘‘ بھی دیئے گئے ہیں۔ شہباز بھٹی کے بھائی کا کہنا تھا کہ اگرچہ وزیر اعظم عمران خان بعض ’’متضاد‘‘ بیانا ت دے چکے ہیں، لیکن اپنے کئی بیانات میں انہوں نے واضح کیا کہ اقلیتوں کا تحفظ ضروری ہے۔ پال بھٹی نے کہا کہ ’’اس سب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسے (آسیہ )کو رہا کر دیا جائے۔ اس کے بعد بین الاقوامی برادری اور سفارتی دبائو بھی اپنی جگہ اہم ہے۔ لیکن سب سے اہم پاکستانی عدلیہ ہے، جو میرے خیال میں انصاف کرے گی‘‘۔
پال بھٹی نے اسی قسم کی باتیں ایک اطالوی ویب سائٹ tempi.it. سے گفتگو میں بھی کیں۔ اس گفتگو میں پال بھٹی کا کہنا تھا کہ ’’چیف جسٹس پہلے ہی اپنے کیرئیر میں مشکل فیصلے کر چکے ہیں اور میرے خیال میں آسیہ بی بی کو رہا کردیا جائے گا‘‘۔ اس انٹرویو میں پال بھٹی سے سوال کیا گیا کہ آسیہ کے معاملے پر فیصلہ کیوں محفوظ کیا گیا ہے۔ جواب میں ان کا کہنا تھا ’’میں نہیں جانتا، لیکن حالات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ آسیہ بی بی پاکستان میں محفوظ نہیں۔ ہمیں اسے تحفظ دینا چاہیے۔ حکومت اور ججوں کو یہ بات معلوم ہے‘‘۔ پال بھٹی نے اس سلسلے میں رمشا مسیح کا حوالہ دیا، جسے 2013ء میں بریت کے بعد پاکستان سے بحفاظت باہر منتقل کرنے کیلئے حکومت نے گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر فراہم کیے تھے۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ بات واضح ہے کہ آسیہ کو پاکستان سے باہر منتقل کیا جائے گا۔ کیونکہ اس کی بریت کا اعلان ہوتے ہی پاکستان میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوں گے۔ لہٰذا احتیاط ملحوظ رکھنا ہوگی۔ یہاں ایک بار پھر پال بھٹی نے کہا کہ ’’حکومت اور ججز دکھا چکے ہیں کہ وہ مشکل فیصلوں کا حوصلہ رکھتے ہیں، جیسا کہ انہوں نے سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دیتے وقت دکھایا تھا‘‘۔ اسی انٹرویو میں پال بھٹی نے یہ تاثر مسترد کیا کہ آسیہ بی کی رہائی پاکستان میں تحفظ ناموس رسالت قانون کے خاتمے کی جانب پہلا قدم ہوگی۔ پال بھٹی کا کہنا تھاکہ ’’ایمانداری کی بات یہ ہے کہ مذکورہ قانون کوئی مسئلہ نہیں۔ کسی کو بھی اس سے پھانسی نہیں ہوئی۔ مسئلہ انتہا پسند ہیں، جو الزام لگتے ہی ملزم کو قتل کرنے پر تل جاتے ہیں‘‘۔
آسیہ کی ممکنہ رہائی کا پروپیگنڈہ چند ٹویٹس یا انٹرویوز تک محدود نہیں، بلکہ بڑے پیمانے پر مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ ان مضامین میں کھلی توہین عدالت کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ فیصلہ آسیہ کے حق میں آنے والا ہے۔ برٹش پاکستانی کرسچنز نامی تنظیم نے اپنے ایک مضمون کی سرخی لگائی، ’’اپیل (پر سماعت) ختم ہوگئی، لیکن ہمیں آسیہ بی بی، ججوں اور پاکستان کیلئے دعائیں جاری رکھنی چاہیئں‘‘۔ مذکورہ مضمون میں عدالتی سماعت پر براہ راست تبصرے کیے گئے، جو یہاں شائع نہیں کیے جا رہے۔ اس تنظیم کے چیئرمین ولسن چوہدری نے اپنے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ان کی برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانے کے حکام اور آسیہ کی رہائی کیلئے سرگرم برطانوی اراکین پارلیمنٹ اور لارڈز سے بات ہوئی ہے اور سب کو مثبت نتائج کی امید ہے۔ ولسن چوہدری کا کہنا تھا کہ فیصلہ محفوظ کرنے سے لگتا ہے کہ یہ اقدام آسیہ کو ’’انتہا پسندوں‘‘ کے انتقام سے بچانے کا موقع دینے کیلئے کیا گیا ہے۔ عیسائی مشنریز کی سرگرمیوں کے تشہیر کے ذمہ دار امریکی مشن نیوز نیٹ ورک نے ایک پاکستانی پاسٹر کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ آسیہ کیس پر فیصلہ سنانے کیلئے مناسب وقت کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ مذکورہ پاسٹر کی شناخت مخفی رکھنے کیلئے پاسٹر کا اصل نام نحمیاہ کے فرضی نام سے تبدیل کر دیا گیا۔ مشن نیوز نیٹ ورک سے گفتگو میں پاسٹر نحمیاہ کا کہنا تھا کہ آسیہ بی بی کے معاملے پر تین صورتیں ہو سکتی ہیں۔ اگر عدالت نے سزائے موت برقرار رکھی اور صدر نے رحم کی اپیل بھی مسترد کردی تو پہلی مرتبہ پاکستان میں کسی کو توہین رسالت پر پھانسی دی جائے گی۔ دوسری صورت میں اسے رہا کیا جا سکتا ہے، لیکن اسے پاکستان چھوڑنا ہوگا۔ پاسٹر نحمیاہ نے کہا کہ ایک تیسرا آپشن بھی موجود ہے۔ ہو سکتا ہے سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا جائے۔ پاکستان میں عمر قید 14 برس ہے۔ اس کے بعد سوال سزا شروع ہونے کی تاریخ کا ہوسکتا ہے۔ یا تو نئے سرے سے سزا شروع ہوگی یا اس کی سزا میں وہ عرصہ کم کر دیا جائے گا جو وہ جیل میں گزار چکی ہے۔ پال بھٹی اور دیگر کے برعکس پاسٹر نحمیاہ نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ آسیہ کو پھانسی دی جاسکتی ہے۔
تاہم اٹلی کے ایک مسیحی ٹی وی نیٹ ورک میجوگوریہ اتالیہ (italia medjugorje) نے اپنی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ میں کہا کہ آسیہ کی رہائی کا تاثر بن رہا ہے۔ لیکن فیصلہ سنائے جانے سے پہلے اسے محفوظ مقام پر منتقل کیا جائے گا۔ ٹی وی نے طاہر خلیل سندھو کے بیان کا بھی حوالہ دیا۔ گزشتہ روزشائع کی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں مظاہروں کی تیاری ہو رہی ہے اور ٹویٹر پر آسیہ کی پھانسی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اے سی ایل جی نامی ایک اور تنظیم نے آسیہ کی رہائی پر دبائو جاری رکھنے کیلئے آن لائن پٹیشنز بھی شروع کی ہیں۔
دوسری جانب آسیہ کی رہائی کے پروپیگنڈے نے پاکستان میں بے چینی بڑھا دی ہے۔ نہ صرف سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آرہا ہے، بلکہ تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے کل (جمعہ کو) تمام چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہروں اور داتا دربار سے پنجاب اسمبلی تک ریلی کا اعلان بھی اسی وجہ سے کیا گیا ہے۔ یہ اعلان منگل اور بدھ کی درمیانی شب تحریک لبیک کے اجلاس کے بعد کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک لبیک کے کارکن سخت مشتعل ہیں۔ غیر یقینی صورتحال نے غلط خبروں اور افواہوں میں بھی کردار ادا کیا ہے۔ منگل کو پاکستانی بشپس کے ایک وفد نے وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کی تھی۔ بدھ کو سوشل میڈیا پر اس ملاقات کی تصویر شیئر کرتے ہوئے یہ غلط دعوے کیے گئے کہ اس وفد میں آسیہ کے وکیل سیف الملوک بھی شامل تھے۔ تاہم حقیقت یہ ہے تصویر میں جن صاحب کو آسیہ کا وکیل قرار دیاجا رہا ہے، وہ پاکستان بائبل سوسائٹی کے جنرل سیکریٹری انتھونی لیموئل ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں اقلیتوں کے تحفظ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں انہیں مساوی مواقع دینے پر بات ہوئی۔
٭٭٭٭٭