محمد زبیر خان
آئی جی پنجاب کے تبادلے کا معاملہ لٹک گیا۔ الیکشن کمیشن میں حکومت کی جانب سے آئی جی پولیس کا تبادلہ نہ روکنے کی درخواست پر کوئی بھی کارروائی نہیں ہو رہی ہے۔ محمد طاہر نے تبادلے کی ا طلاع ملتے ہی اپنا دفتر چھوڑ دیا تھا، تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے تبادلہ روکے جانے کے بعد وہ اپنے دفتر میں موجود تو ہوتے ہیں، مگر کوئی بھی معمول کے فرائض ادا نہیں کر رہے۔ جس کی وجہ سے پنجاب پولیس میں بے یقینی پھیلی ہوئی ہے۔ حکومت اور آئی جی پنجاب کے درمیان اختلافات کا آغاز دو ڈی ایس پیز کے تبادلے پر اس وقت ہوا جب حکومت نے پولیس کو ارکان اسمبلی کے ساتھ غیر مشروط تعاون کی ہدایات کی تھی۔ پولیس ریفارم کمیٹی کے انچارج سابق آئی جی خیبر پختوں ناصر درانی نے حکومت کو محمد طاہر کے تبادلے سے روکنے کی کوشش کی تھی۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق الیکشن کمیشن کو حکومت کی جانب سے خط لکھا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب کے انسپکٹر جنرل کے تبادلے کو روکا نہ جائے اور یہ کہ الیکشن کمیشن کے پاس یہ اختیار موجود نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن میں موجود ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ابھی تک اس خط پر کوئی بھی کاروائی نہیں کی ہے، اور اس پر صلاح مشورے جاری ہیں۔ جبکہ الیکشن کمیشن میں یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ حکومت کو اس خط کا جواب ہی نہ دیا جائے، کیونکہ انتخابات میں چند دن باقی ہیں اور انتخابات کے بعد الیکشن کمیشن کے پاس آئی جی کا تبادلہ روکنے کا استحقاق نہیں ہوگا۔ ذرائع کے مطابق قوی امکان یہی ہے کہ الیکشن کمیشن اس پر کوئی جواب نہیں دے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن میں موجود اعلیٰ اہلکاروں کو مکمل یقین ہے کہ ان کا حکم غیر قانونی نہیں، کیونکہ حکومت کے پاس انتخابی مہم کے دنوں میں کسی بھی سرکاری اہلکار کے تبادلے کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ یہی سبب ہے کہ الیکشن کمیشن میں حکومت کے خط کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جارہا ہے۔
’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ حکومت اور آئی جی پنجاب محمد طاہر خان کے اختلافات اس وقت شدید تر ہوگئے تھے جب طاہر خان نے شکایات پر دو ڈی ایس پیز کو پہلے چارج شیٹ کیا اور بعد ازاں ان کو پولیس لائن رپورٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس پر تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں سے تعلق رکھنے والی سیاسی شخصیات نے گجرات زون کے افسران سے رابطہ کر کے کارروائی روکنے کی سفارش کی تو انہیں بتایا گیا کہ یہ معاملہ براہ راست صوبے کے پولیس چیف کے پاس ہے۔ جس کے بعد آئی جی پنجاب طاہر خان کو کارروائی نہ کرنے کا پیغام دیا گیا۔ تاہم محمد طاہر نے دو ٹوک انکار کیا، بلکہ اپنی خفگی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا کہ اگر اس طرح کی سفارشات کی جائیں گی تو ان کیلئے اعلان کردہ حکومتی پالیسی کے مطابق پنجاب پولیس میں اصلاحات کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ ذرائع کے مطابق بعد ازاں اس معاملے پر وزیر اعظم عمران خان نے بھی براہ راست دخل اندازی کی، مگر ان کو بھی دو ٹوک جواب ملا تھا۔ ذرائع کے بقول آئی جی پنجاب طاہر خان کے تبادلے کا دوسرا واقعہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ساتھ مختلف اضلاع کے پولیس افسران کی میٹنگز تھیں۔ جن میں مختلف اضلاع کے پولیس افسران کے سامنے ارکان اسمبلی کو بٹھا کر کہا جاتا تھا کہ پولیس افسران ممبران اسمبلی کے ساتھ غیر مشروط تعاون کریں گے۔ جب طاہر خان تک یہ اطلاعات پہنچیں تو انہوں نے متعلقہ پولیس افسران کی سرزنش کی اور اس سرزنش کی اطلاعات وزیر اعلیٰ ہاؤس اور وزیر اعلیٰ پنجاب تک پہنچائی گئیں۔ اس کے بعد ہی وفاق اور پنجاب حکومت نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کہ طاہر خان کا تبادلہ کر دیا جائے۔ ذرائع کے مطابق جب یہ فیصلہ ہو گیا اور اس کا نوٹیفکیشن ابھی جاری نہیں ہوا تھا لیکن صرف اطلاع ملنے پر ہی طاہر خان نے فی الفور اپنا دفتر چھوڑ دیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جب طاہر خان کا تبادلہ روکنے کا نوٹیفیکشن جاری ہوا تو اس وقت طاہر خان دوبارہ انتظامات سنبھالنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ تاہم ان کو اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے کہا گیا کہ اب یہ ان کیلئے قانونی طور پر لازمی ہے کہ وہ آئی جی پنجاب کا دفتر سنبھالیں، جس پر انہوں نے دفتر آنا جانا تو شروع کر دیا ہے مگر وہ معمول کی کارروائی انجام نہیں دے رہے ہیں اور نہ ہی معمول کی ہدایات جاری کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق انسپکٹر جنرل پولیس کے دفتر سے معمول کے معاملات نہ چلائے جانے اور پنجاب پولیس کے اندر ان اطلاعات کی گردش کے بعد گومگو کی کیفیت ہے کہ اس واقعے پر بھی ممکنہ طور پر چیف جسٹس ازخود نوٹس لے سکتے ہیں۔ پنجاب پولیس میں اس وقت بے یقینی کا سا عالم ہے اور پولیس میں کوئی بھی کام نہیں ہو رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پنجاب پولیس اس واقعے کے بعد بری طرح ڈی مورلائز ہوئی ہے اور وہ پولیس افسران جو محکمہ کو سدھارنے کی کوشش میں مصروف تھے، مکمل طور پر مایوس ہوچکے ہیں۔ ان افسران کے خیال میں آئی جی محمد طاہر خان کے تبادلے کے بعد حالات کسی بھی طور پر بہتر نہیں ہو سکتے۔
ادھر ذرائع کے بقول سابق انسپکٹر جنرل پولیس ناصر درانی کو جب طاہر خان کے تبادلے کی اطلاعات ملیں تو انہوں نے حکومت اور براہ راست وزیر اعظم ہاؤس رابطہ قائم کرکے درخواست کی تھی کہ ایسا نہ کیا جائے، کہ اس سے پولیس فورس کو منفی پیغام جائے گا۔ مگر حکومت نے پولیس اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔ بعد ازاں جب آئی جی پنجاب محمد طاہر کے تبادلے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا، تو ناصر درانی نے بھی مایوس ہوکر اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ پولیس ریفارم کمیٹی کے سربراہ ناصر درانی استعفیٰ منظور ہونے یا نہ ہونے کا انتظار کئے بغیر ہی دفتر چھوڑ کر چلے گئے اور اس کے بعد سے اب تک اپنے دفتر نہیں گئے۔
٭٭٭٭٭