عمران خان
منی لانڈرنگ کیس میں فاروق ستار، بابر غوری، ارشد ووہرا، احمد علی، طارق میر اور قمر منصور سمیت متحدہ کے آٹھ رہنمائوں کیخلاف ٹھوس ثبوت مل گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ ثبوت متحدہ کی ذیلی تنظیم خدمت خلق فائونڈیشن کی ایڈمنسٹریشن اور شعبہ اکائونٹس کے افراد نے ایف آئی اے کو فراہم کئے۔ ذرائع کے بقول خدمت خلق فائونڈیشن میں برسوں سے کام کرنے والے ذمہ داروں نے منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات میں ایف آئی اے کو دیئے گئے بیانات میں انکشاف کیا ہے کہ متحدہ کے کئی رہنما اور سرکردہ افراد ان سے ’’بلینک‘‘ (خالی) چیکوں پر سائن کرا لیتے تھے۔ پھر اپنی مرضی کی رقوم بھر کر مختلف اکائونٹس میں جمع کراتے تھے۔ اسی طرح کئی متحدہ رہنما ان سے خدمت خلق فائونڈیشن کے فنڈز کے وائوچرز بھی دستخط کرواکر اپنے قبضے میں رکھتے تھے اور پھر فنڈز دینے والوں سے رقم لے کر اپنی مرضی کی رقوم خدمت خلق فائونڈیشن کے بینک اکائونٹ میں جمع کراتے تھے۔ بعدازاں سائن کرائے گئے خالی چیکوں کے ذریعے رقوم اپنے اکائونٹس میں ٹرانسفر کروالیتے تھے اور اس رقم کو دیگر اکائونٹس کے ذریعے لندن بھجوا دیا جاتا تھا۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول متحدہ لندن منی لانڈرنگ کیس میں الطاف حسین اور دیگر 8 رہنمائوں کے خلاف مقدمہ درج ہونے کے بعد جب متحدہ رہنمائوں سے تحقیقات ہوئی تھیں تو انہوں نے متحدہ کی ذیلی تنظیم خدمت خلق فائونڈیشن (کے کے ایف) کے معاملات سے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ ’’کے کے ایف‘‘ میں کام کرنے والے کارکن اور عہدیدار اپنے معاملات میں بااختیار تھے اور وہ براہ راست متحدہ کے مرکز نائن زیرو کے عہدیداروں سمیت لندن سیکریٹریٹ سے ہدایات لیتے تھے۔ تاہم حالیہ الیکشن کے بعد جب سے منی لانڈرنگ کیس میں تحقیقات کو تیز کیا گیا ہے تو مقدمہ میں نامزد متحدہ رہنمائوں کے خلاف ٹھوس ثبوت سامنے آنے لگے ہیں۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی وزارت داخلہ اور ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے احکامات کی روشنی میں متحدہ منی لانڈرنگ کیس پر تحقیقات تیز کرنے کے بعد حالیہ ایک ہفتے میں بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے۔ وفاقی حکومت نے نہ صرف کیس میں ٹرائل کورٹ کو اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ کرنے کے بعد کراچی میں اینٹی ٹیررسٹ کورٹ کو ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کے ذریعے آگاہ کردیا ہے، بلکہ ٹرائل کورٹ اسلام آباد منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کا کہنا ہے کہ ٹرائل کورٹ اسلام آباد منتقل کر کے متحدہ رہنمائوں کو اسلام آباد میں ہی حراست میں لیا جاسکتا ہے، جس کے بعد ان کے ریمانڈ بھی اسلام آباد میں موجود ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کی ٹیم کے ذریعے حاصل کئے جائیں گے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق لندن منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات پہلے ہی اسلام آباد منتقل کردی گئی تھی، تاہم گزشتہ کئی مہینوں سے اسلام آباد سے ایف آئی اے کے دو تفتیشی افسران ٹرائل کورٹ میں پیشی کے لئے کراچی آرہے تھے۔ تحقیقات میں ایک تازہ انکشاف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ کراچی سے بھتہ، جبری فطرہ و زکوۃ وصولی کی رقم کے علاوہ کھالوں کی آمدنی کو ہر چند ماہ بعد لاکھوں برطانوی پائونڈز کی صورت میں متحدہ کے رہنما خود لندن منتقل کرتے تھے۔ اس کے لئے ایک خاص طریقہ استعمال کیا جاتا تھا، جس کیلئے متحدہ رہنما اور عہدیدار اپنے رابطوں میں موجود شہر کے بعض منی چینجرز سے ہر کچھ عرصے بعد پاکستانی رقم کے بدلے برطانوی پائونڈز حاصل کرکے رکھ لیتے تھے۔ یہ برطانوی پائونڈز خدمت خلق فائونڈیشن کے اکائونٹس میں جمع ہونے والی اس رقم کے عوض لئے جاتے تھے، جو متحدہ رہنما اور نائن زیرو پر موجود ذمے دار اور سیکٹر کی سطح کے عہدیدار خدمت خلق فائونڈیشن سے دستخط شدہ خالی وائوچرز پر اپنی مرضی سے وصول کرتے تھے۔ ذرائع کے مطابق جب چند ماہ بعد لاکھوں پائونڈز کی رقم جمع ہوجاتی تھی تو کراچی سے متحدہ رہنمائوں کا 8 سے 10 رہنمائوں پر مشتمل وفد لندن سیکریٹریٹ میں الطاف حسین سے ملاقات کیلئے جانے کی آڑ میں لاکھوں پائونڈز لے کر جاتا تھا، کیونکہ 2000ء سے 2013ء تک 13 برسوں میں متحدہ رہنما جب بھی لندن جاتے تو انہیں کراچی ایئر پورٹ پر خصوصی سرکاری پروٹوکول حاصل ہوتا تھا اور ان کی جامہ تلاشی نہیں ہوتی تھی۔ ایف آئی اے کائونٹر اور کسٹم کائونٹرز پر ان کی کلیئرنس پروٹوکول آفیسر ہی کرادیا کرتے تھے۔ یوں ہر چند ماہ بعد لاکھوں پائونڈز لندن سیکرٹریٹ تک پہنچائے جاتے تھے۔ ذرائع کے بقول یہ معلومات خدمت خلق فائونڈیشن میں کئی برسوں تک کام کرنے والے کارکنوں کی جانب سے ایف آئی اے کو فراہم کی گئی ہیں۔ جس کے بعد متحدہ رہنمائوں کو گرفتار کرکے ان سے اعترافی بیانات لئے جائیں گے۔ ذرائع کے بقول آئندہ ہفتے تک ایف آئی اے اسلام آباد سے ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کے ایک افسر کو کراچی بھیجے جانے کا امکان ہے، جو پہلے سے اس کیس پر کام کرنے والے افسر کو جوائن کریں گے۔ یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا ہے کہ گزشتہ مہینوں میں اس کیس پر تحقیقات کیلئے متحدہ کے 100 سے زائد رہنمائوں، عہدیداروں اور کارکنوں کو اسلام آباد طلبی کے نوٹس بھیجے گئے۔ تاہم اب تک صرف 47 افراد نے بیان قلمبند کرائے ہیں۔ تاہم اب اس پروسس کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ نچلی سطح کے افراد کے بیانات کراچی میں ہی قلمبند کرکے اسلام آباد ارسال کئے جاسکیں۔ دوسری جانب ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کی جانب سے ایم کیو ایم لندن منی لانڈرنگ کیس میں نامزد متحدہ رہنمائوں کیخلاف شروع کی گئی علیحدہ انکوائریوں پر بھی ابتدائی رپورٹ اسلام آباد ارسال کردی گئی ہے، جن میں متحدہ رہنمائوں خواجہ سہیل منصور، بابر غوری، ارشد ووہرا، خواجہ سہیل منصور کے بھائی خواجہ ریحان منصور اور سابق سینیٹر احمد علی شامل ہیں۔ ان انکوائریوں میں ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ کے افسران مذکورہ رہنمائوں کے کاروبار، آمدنی اور ان کی جانب سے بنائے گئے اثاثوں کی چھان بین کر رہے ہیں۔ تحقیقات میں خواجہ سہیل منصور کی صرف بحریہ ٹائون میں 50 سے زائد جائیدادیں سامنے آچکی ہیں۔ دوسری جانب ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کی جانب سے الطاف حسین اور دیگر رہنمائوں کے بیرون ملک 69 بینک اکائونٹس کے حوالے سے ایف آئی اے کی درخواست پر وفاقی وزارت خارجہ کے حکام نے متحدہ عرب امارات اور برطانیہ سے ریکارڈ طلب کرنے کے لیے پروسس شروع کردیا ہے۔ ذرائع کے بقول متحدہ عرب امارات سے ستمبر کے آغاز تک متحدہ رہنمائوں کے غیر ملکی اکائونٹس کا ریکارڈ ملنے کی توقع ظاہر کی گئی ہے۔ جبکہ برطانیہ سے بینک اکائونٹس کا ریکارڈ اکتوبر کے آخر تک ملنے کا امکان ہے، جس کے بعد تحقیقات میں اہم پیش رفت سامنے آئے گی ۔ واضح رہے کہ اکتوبر 2017ء میں پاکستانی نژاد برطانوی تاجر سرفراز مرچنٹ کی تفصیلی درخواست پر متحدہ کے قائد الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں ارشد ووہرا، سابق وفاقی وزیر بابر غوری، سابق رکن اسمبلی خواجہ سہیل منصور اور ان کے بھائی خواجہ ریحان کے علاوہ سینیٹر احمد علی کو نامزد کیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ خدمت خلق فائونڈیشن میں فطرہ، زکوۃ ،خیرات اور کھالوں سے جمع ہونے والی رقم ان کے بینک اکائونٹس میں منتقل کئے جانے کے بعد بیرون ملک ایم کیو ایم اور الطاف حسین کے اکائونٹس میں منتقل کردی جاتی تھی۔ بعد ازاں اس مقدمے میں متحدہ لندن کے رہنمائوں طارق میر اور محمد انور کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول گزشتہ ایک برس کے دوران اس مقدمے کی تفتیش بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر سست رفتاری سے چلتی رہی۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حالیہ الیکشن سے قبل اس کیس کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے ہیں، جن میں اس کی تفتیش کو تیز کرکے جلد مکمل کرنے اور ملوث افراد کی گرفتاریوں سے لے کر کیس کی پیروی تک کے معاملات شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول خدمت خلق فائونڈیشن، ایم کیو ایم اور رہنمائوں کے بینک اکائونٹس کا تمام ڈیٹا جمع کرکے منی ٹریل حاصل کرلیا گیا ہے، تاہم غیر ملکی اکائونٹس کا منی ٹریل لینا باقی ہے، جس کے حصول کے بعد حتمی چالان پیش کردیا جائے گا۔ ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کے ذرائع کے بقول منی لانڈرنگ کے مقدمے کو تحقیقات کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک حصے میں وہ لوگ ہیں جن کی جانب سے خدمت خلق فائونڈیشن کے بینک اکائونٹس میں کروڑوں روپے کے فنڈز جمع کرائے گئے۔ جبکہ دوسرے حصے میں ان افراد کو شامل کیا گیا ہے جن کے بینک اکائونٹس میں خدمت خلق کے اکائونٹس سے رقم ٹرانسفر کرنے کے بعد بیرون ملک بھجوائی گئی۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول اب تک ایم کیو ایم کے 47 رہنمائوں اور عہدیداروں کے بیانات قلمبند کئے جاچکے ہیں۔ جنہیں خدمت خلق فائونڈیشن کے اکائونٹس میں کروڑوں روپے جمع کرانے کے حوالے سے تحقیقات کیلئے ایف آئی اے کی جانب سے نوٹس بھیجے گئے تھے۔ تاہم ایسے 63 رہنما اور عہدیدار جن میں سیکٹر اور یونٹ سطح کے کارکن بھی شامل تھے، نوٹس ملنے کے باجود تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی افراد نے پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت اختیار کرکے خود کو تحقیقات سے بچانے کی کوشش کی تھی۔ جس کی وجہ سے منی لاندرنگ کیس کی تحقیقات گزشتہ دو مہینوں سے سست ہوگئی تھی۔ تاہم اب ان افراد کو ریمائنڈر نوٹس ارسال کرنے کے بعد سخت قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس میں ان کی گرفتاری بھی ہوسکتی ہے۔ ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ کے تفتیش سے جڑے ذرائع کے بقول مقدمہ ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کراچی میں درج کیا گیا تھا، جس کے تفتیشی افسر اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی ابڑو تھے۔ اس دوران خدمت خلق فائونڈیشن کا تمام ریکارڈ ضبط کرلیا گیا تھا، جس سے معلوم ہوا کہ خدمت خلق فائونڈیشن سے کٹنے والی رسید بکس کے ذریعے 2013ء سے 2015ء تک 32 کروڑ روپے فنڈز جمع کئے گئے تھے۔ یہ فنڈز خدمت خلق فائونڈیشن کے بینک الفلاح، الائیڈ بینک اور ایم سی بی بینک کے اکائونٹس سے خواجہ سہیل منصور، ارشد ووہرا، خواجہ ریحان، احمد علی اور بابر غوری کے اکائونٹس میں منتقل ہوئے، جہاں سے یہ رقم لندن میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے دیگر رہنمائوں کے نام پر قائم کمپنیوں میں منتقل ہوتی رہی۔ جبکہ خواجہ سہیل منصور کے بھائی خواجہ ریحان نے کراچی کے بینک سے 50 لاکھ روپے ٹرانزیکشن کی اہلیت رکھنے والا اے ٹی ایم کارڈ حاصل کیا، جسے لندن میں الطاف حسین استعمال کرتے رہے۔ جبکہ اس کے مساوی رقم انہیں کے کے ایف کے فنڈز سے ملتی رہی تھی۔ ذرائع کے بقول بعد ازاں تحقیقات کو ٹیررازم فنڈنگ اور اینٹی اسٹیٹ عنصر رکھنے کی وجہ سے ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل سے ایف آئی اے کائونٹر ٹیررازم ونگ اسلام آباد منتقل کردیا گیا، تاہم اس کیس میں ہونے والی پیش رفت کی رپورٹیں کراچی کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نمبر دو میں ہی ہوتی رہیں، جس کیلئے اسلام آباد سے دو ایف آئی اے افسران پر مشتمل ٹیم ہر پیشی پر کراچی آتی ہے۔٭
٭٭٭٭٭